مولانا امیر الدین مہر بھی رخصت ہوئے

۔84سال کی زندگی گزار کر مولانا امیر الدین مہر بھی رخصت ہوئے۔کاغذات میں مولانا امیر الدین مہر کی تاریخ پیدائش ستمبر 1936ء کی ہے۔ آپ کا آبائی تعلق راجستھان انڈیا سے ہے، جہاں آپ کا نصف کے قریب خاندان آج بھی آباد ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پیارو گوٹھ ضلع جیکب آباد سے حاصل کی۔ ایم اے سندھ یونیورسٹی سے کیا، اس سے قبل مولوی فاضل، منشی فاضل، درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تدریس منصورہ سندھ میں کی، جہاں کچھ عرصے مہتمم بھی رہے۔ مولانا مرحوم کا، نانا محترم پروفیسر سید محمد سلیمؒ سے بڑا گہرا تعلق تھا، اس نسبت سے انہوں نے ہمیشہ راقم کو یاد رکھا۔1987ء میں، جب کہ دعوۃ اکیڈمی کے قیام کو دو ہی برس گزرے تھے، مولانا امیرالدین مہر دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے منسلک ہوگئے۔ یوں مولانا امیرالدین مہر دعوۃ اکیڈمی کے ابتدائی لوگوں میں شامل ہیں۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے خاص طور پر دعوۃ اکیڈمی کا سندھی لٹریچر مرتب و مدون کیا۔ دعوۃ اکیڈمی کا سندھی لٹریچر اب ریجنل دعوۃ سینٹر کراچی کی جانب سے منظم کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے دعوتی لٹریچر میں دعوۃ اکیڈمی کی جانب سے شائع ہونے والا لٹریچر انتہائی نمایاں مقام رکھتا ہے۔ آج اگرچہ اس دائرے میں بہت سے ادارے عمدہ خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن جب دعوۃ اکیڈمی نے سندھی زبان میں لٹریچر کی تیاری شروع کی تھی تب یہ ادارہ اس میدان میں پیش رو بھی تھا، اور عرصے تک تنہا اس میدان میں سرگرم رہا، اور قرآنیات، حدیث، فقہ، سیرت اور سیرتِ صحابہ وغیرہ موضوعات پر درجنوں کتب شائع کیں، اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مہر صاحب ریجنل دعوۃ سینٹر سندھ کراچی کے قیام کے روزِ اول ہی سے اس کے ساتھ منسلک رہے، ایک عرصے تک اس کے انچارج رہے۔ ان کی دعوۃ اکیڈمی سے وابستگی کا دورانیہ بیس سال پر محیط ہے۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں ادارے نے ملازمت میں تو سیع دے کر خدمت پر مامور رکھا۔ یوں 2007 ءتک وہ ریجنل دعوۃ سینٹر سے وابستہ رہے۔ 2009ء میں جب راقم نے ریجنل دعوۃ سینٹر کا چارج لیا تب وہ اگرچہ ادارے سے وابستہ نہیں رہے تھے، لیکن مجھے ایک نئے ادارے میں عملی طور پر جن بزرگوں کی رہنمائی حاصل رہی اُن میں مولانا امیرالدین مہر سرفہرست تھے۔ مو لانا نے سندھی زبان میں متعدد کتب کے ترجمے کیے، مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن کا بڑا حصہ مولانا مہر کے قلم سے سندھی میں منتقل ہوا، چناں چہ ابتدائی ڈیڑھ جلد چھوڑ کر با قی تفہیم القرآن کا تر جمہ مولانا ہی کے قلم سے ہے۔مولانا مزاجاً نہایت سادہ زندگی گزارنے کے عادی تھے، تمام عمر جفاکشی کے ساتھ اپنے امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔ ایک بار گھر تشریف لائے تو ان کے ہاتھ میں قدرے بڑے سائز کی ایک پڑیا بھی تھی، بیٹھتے ہی کہنے لگے ”تھوڑا سا اچار ہوگا؟“ میں نے حیرت سے پوچھا ”خیریت؟“ وہ پڑیا آگے کرکے کہنے لگے کہ ”گھر سے نکلتے ہوئے دو روٹیاں ساتھ لے لی تھیں، اندازہ نہیں تھا کہ دوپہر کو کہاں ہوں گا، میں نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا“۔ میں نے عرض کیا کہ ”آپ اپنی روٹیاں رکھیے، میں تازہ روٹی اور جو بھی سالن موجود ہے ابھی پیش کرتا ہوں“۔ بڑی مشکل سے راضی ہوئے۔
ایک بار کہنے لگے کہ والد صاحب عمرے پر کب تشریف لے جائیں گے؟ میں اُن کے ساتھ جانا چاہتا ہوں، ان سے پوچھ لیجیے۔ ظاہر ہے کہ انہیں کیا کہنا تھا! یوں ان کے ساتھ حرمین کا سفر کیا، جس کی یادیں وہ ہر ملاقات میں تازہ کرتے۔ اس سفر میں ہمارے پھوپھا قاضی سید محمد اسلم بھی ساتھ تھے جن کی خیریت مولانا مہر ہمیشہ اہتمام سے دریافت کیا کرتے۔ ایک بار کا قصہ ہے، میں مسجد نبوی میں مغرب کی نماز کے بعد بیٹھا ہوا تھا کہ مولانا اچانک سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیے۔ مولانا مجھے پہچاننے کی کوشش کررہے تھے۔ میں نے جب دیکھا کہ مولانا پہچان نہیں پا رہے تو آگے بڑھ کر انہیں آواز دی، اور انہیں والد صاحب کے پاس لے آیا جو قریب ہی بیٹھے تلاوت میں مصروف تھے۔ مولانا اس غیر متوقع ملاقات پر بہت خوش ہوئے، اور آئندہ جب بھی ملاقات ہوتی تو اس ملاقات کا خصوصیت سے ذکر کرتے۔ مولانا امیر الدین مہر نے سندھی کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی تحریریں چھوڑی ہیں، خاص طور پر مسلم معاشرے میں مسجد کے کردار اور مسلمانوں کے ہاں خدمت ِ خلق اور رفاہی امور کے تصور اور تاریخ پر ان کی کتب ہمارے لیے مشعل ِراہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائیں اور صدقہ جاریہ بنائیں۔ آمین