(گزشتہ سے پیوستہ)
جمالی خاندان کا دورِ سیاست جعفر خان جمالی مرحوم کے دور سے شروع ہوا۔ حزبِ اختلاف نے قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب کے لیے ایوب خان کے مدمقابل کھڑا کیا اور پورے ملک میں زبردست تحریک برپا ہوئی۔ یہ پاکستان کی سیاست کا ایک سنہرا باب ہے۔ جلسے میں لاکھوں لوگ فاطمہ جناح کو سننے کے لیے آتے تھے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں مہم تیز تھی۔ لاہور کے ایک جلسۂ عام میں جعفر خان جمالی نے ایوب خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گدھا واحد جانور ہے جو ماں کے پیچھے چلنے کے بجائے ماں کے آگے چلتا ہے۔ اُن کا اشارہ فاطمہ جناح کے حوالے سے ایوب خان کی طرف تھا۔
جعفر خان جمالی سے میری کوئی ملاقات نہ تھی، ان کے دور میں درانی نام کے اسسٹنٹ کمشنر یا تحصیلدار تھے اُن سے سلام دعا تھی جو شبیر احمد درانی کے والد تھے۔ شبیر احمد درانی اسلامی جمعیت طلبہ میں تھے اس لیے ان کے والد سے دوستانہ تھا۔ ان سے ضلع کچہری کوئٹہ میں ملاقات ہوتی تھی۔ انہوں نے دو باتیں مجھے بتائیں۔ درانی مرحوم نے کہا کہ جعفر جمالی رات کو بولان میل کا انتظار کرتے تھے کہ رات کے وقت کوئی مسافر آئے گا تو اُسے رات گزارنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ گمنام مہمانوں کے لیے جعفر خان جمالی مرحوم کا شاندار دستر خوان منتظر ہوتا تھا، اور وہ اُس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک بولان میل روانہ نہ ہوجاتی۔ خاصی دیر گزرنے کے بعد وہ کھانا کھاتے تھے۔ یہ ایک شاندار تاریخی واقعہ ہے جو اُن کی مسافروں کے لیے مہمان نوازی کا تھا۔ دوسرا واقعہ بڑا دلچسپ ہے جو ایک تحصیلدار کے بارے میں ہے۔ اُن سے شناسائی تھی، اب وہ اِس دنیا میں نہیں رہے اس لیے اُن کا نام نہیں لکھوں گا۔ جب گندم کی کٹائی ہوگئی تو درانی مرحوم نے بتایا کہ جعفر خان جمالی ہمیشہ گندم کی ایک یا دوبوری سرکاری اہلکاروں کے گھر پہنچا دیتے تھے، ایک تحصیلدار نے بوری واپس کردی اور خود آگئے اور میر صاحب سے کہا کہ آپ نے یہ گندم کی بوری بھیجی ہے، یہ کم ہے، میں زیادہ لیتا ہوں۔ جعفر خان نے اُسے بٹھایا اور ہنستے ہوئے کہا کہ جناب تحصیلدار صاحب یہ گندم میری طرف سے تحفے کے طور پر ہے، یہ رشوت نہیں ہے، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں جعفر خان جمالی ہوں، کوئی سرکاری ملازم اتنی جرأت نہیں کرسکتا کہ وہ جعفر خان سے رشوت لے۔ یہ تحفہ ہے، اسی پر اکتفا کریں۔ وہ شرمندہ ہوا اور چلا گیا۔ بعد میں اس نے خود مجھے یہ واقعہ سنایا۔ اب ایسے لوگ تاریخ کاحصہ ہیں۔
جمالی خاندان کی دو اہم شخصیات سے میرا تعلق رہا ہے، ایک سکندر خان جمالی جو بلوچستان کے چیف سیکرٹری تھے اور لا(LAW) کالج کوئٹہ میں میرے کلاس فیلو تھے۔ بڑے دبنگ چیف سیکرٹری تھے۔ وزیراعظم بے نظیر نے اُن سے کسی کی سفارش کی، سکندر جمالی نے اُن کی سفارش کو رد کردیا۔ بے نظیر نے پورا دبائو ڈالا لیکن انہوں نے غیر قانونی کام کرنے سے انکار کردیا تو بے نظیر نے انہیں چیف سیکرٹری کے عہدے سے ہٹادیا۔ سکندر جمالی نے کوئی اہمیت نہیں دی اور نہ کوئی سفارش کی۔ اُن کی اہلیہ خواتین یونیورسٹی کی وائس چانسلر بنیں۔ وہ قابل خاتون تھیں، خوش مزاج تھیں، پریس کلب میں پریس کانفرنس میں انہوں نے کچھ کہا تو اُن سے ایک صحافی نے کہا کہ آپ چیف سیکرٹری کی اہلیہ ہیں اس لیے ایسا کہہ رہی ہیں۔ اس پر وہ خوب ہنسیں اور سوال کا برا نہیں منایا۔ سکندر جمالی مرحوم اسلام آباد میں زیادہ رہے، اس لیے ملاقات کا کم موقع ملا۔ اُن کے لیے ایک کالم لکھا تو اوریا مقبول جان نے کہا کہ شادیزئی صاحب میرے لیے بھی کالم لکھیں۔ ان سے کہا کہ اس سے کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس کا بہت اثر ہوتا ہے۔ اُن سے وعدہ کیا کہ لکھوں گا۔ اور کالم اُس وقت لکھا جب خضدار سے اُن کا ٹرانسفر ہوگیا۔ بلوچ خوانین نے ان کے لیے جلوس نکالا۔ میں نے کالم میں لکھا کہ ایک پنجابی آفیسر کے لیے خضدار سراپا احتجاج تھا۔ شاید ہی کسی بلوچ ڈی سی کے لیے بلوچ خوانین سراپا احتجاج رہے ہوں، بلکہ بلوچستان کے باسیوں نے رسوا زیادہ کیا ہے اور کم ہی اچھے کام کیے ہیں کہ انہیں لوگ یاد رکھ سکیں۔ اکثر و بیشتر ڈی سی بدنام ہی رہے ہیں۔
سکندر جمالی کے بعد میری سلام دعا اور نشستیں حاجی مراد خان جمالی سے زیادہ رہی ہیں۔ وہ برطانیہ کے تعلیم یافتہ بار ایٹ لا تھے۔ انہوں نے ساری عمر جمالی اسٹائل کی پگڑی پہنی، اور شہادت کے وقت بھی وہ اپنے اسی لباس میں تھے۔ انہیں جمعہ کے دن چمن پھاٹک کی مسجد میں جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔ یہ جمالی خاندان کے لیے بڑا صدمہ اور بلوچستان کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔ اُن کا خلا شاید ہی پُر ہوسکے۔ نواب بگٹی شہید نے اُن کی شہادت کے حوالے سے کہا کہ بلوچستان کی تاریخ اور روایات میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک اہم شخصیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ نواب کو اُن کی المناک موت کا بڑا صدمہ تھا۔ حاجی مراد جمالی سے کئی ملاقاتیں رہی ہیں۔ ایک موقع پر عبدالمجید خان کے گھر پر حزبِ اختلاف کا اجلاس تھا تو وہ شیخ مجیب الرحمٰن کی حمایت اور تعریف کررہے تھے۔ اُن سے کہا کہ آپ شیخ صاحب کی پارٹی میں شامل کیوں نہیں ہوجاتے؟ خاصی گرما گرمی رہی۔ ان کی رہائش چمن پھاٹک کے قریب تھی، وہ بہادر یار جنگ سے زیادہ متاثر تھے اور انتہائی بااخلاق شخصیت کے مالک تھے۔ نواب غوث بخش رئیسانی نے بلوچستان متحدہ محاذ بنایا تو میر حاجی مراد جمالی بہت متحرک تھے۔ اُن کے گھر پر اس کا اجلاس ہوتا تھا اور اس میں سندھ کی قوم پرست شخصیت جناب جی ایم سید شریک ہوتے۔ ایک اجلاس میں 1956ء کے آئین خلاف ایک قرارداد تیار کی اور حاجی مراد جمالی مرحوم نے مولانا عبدالعزیز کو بتایا کہ کل جلسہ عام میں یہ قرارداد پیش ہوگی، جماعت اس آئین کی حامی تھی اس لیے جی ایم سید کے جلسے میں شریک نہیں ہوئی اور بائیکاٹ کردیا۔ اُن دنوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم صوبہ تھا، ہمیں بھی دعوت دی گئی۔ ہم جمعیت کے ساتھیوں کے ساتھ جلسہ گاہ میں پہنچے جو نواب غوث بخش رئیسانی کے گھر پر ہورہا تھا۔ جب ان کے گھر پہنچا تو جو لوگ گیٹ پر انتظام کے لیے کھڑے تھے انہوں نے کہا کہ آپ کو کس نے دعوت دی ہے؟ ان کو دعوت نامہ دکھایا، اتنے میں حاجی مراد مرحوم آگئے اور ہمیں خوش آمدید کہا۔ اُن سے کہا کہ اس جلسے میں مجھے تقریر کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے، پھر انہوں نے نواب رئیسانی کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ جلسے میں آنے کی اجازت ہے اور تقریر بھی کرسکتے ہیں۔ اس طرح ان سے میرا تعارف تھا۔
جناب میر ظفر اللہ خان جمالی مرحوم سے ملاقاتیں بڑی مختصر تھیں۔ ایک مقامی ہوٹل میں وہ مہمانِ خصوصی تھے اور اُس وقت وزیراعلیٰ تھے۔ اُن سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ آپ مجھے انٹرویو دیں، تو انہوں نے کہا کہ بعد میں۔ اُن کی مراد وزارتِ اعلیٰ ختم ہونے سے تھی۔ میں نے کہا کہ پھر انٹرویو نہیں لوں گا۔ ایک بڑی دلچسپ ملاقات اُن کے کینٹ کے بنگلے میں ہوئی۔ لاہور سے دو یا تین صحافی آئے تھے اور انہوں نے کہا کہ ظفر اللہ خان جمالی سے ملنا ہے تو ملاقات کا وقت طے ہوگیا۔ صحافی دوستوں کو کہا کہ میرا تعارف نہیں کرائیں گے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ اُن سے ملاقات ہوئی تو دوسرے دن انہوں نے ظہرانے کا انتظام گھر پر کیا تھا۔ ہم وقت پر پہنچ گئے تو انہوں نے میرا نام لیا۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ کل تک تو آپ کو میرا نام نہیں معلوم تھاؓ اس پر وہ مسکرا دیے۔
انہیں ڈی پی آر بلوچستان نے بتایا کہ شادیزئی نواب بگٹی کے قریبی لوگوں میں سے ہیں۔ اس لیے کھانا شروع ہوا تو انہوں نے کہا کہ شادیزئی صاحب میرا دستر خوان ایک غریبی دسترخوان ہے، نواب بگٹی جیسا نہیں ہے۔ نواب کا دستر خوان ایک تاریخی دستر خوان تھا۔ مہمان نوازی نواب بگٹی پر ختم تھی۔ میر صاحب سے کھل کر گفتگو اور سوالات ہوتے رہے جس کے انہوں نے جوابات دیے۔ یہ میری اُن سے ایک ملاقات تھی جو اب تاریخ کا حصہ ہے۔ جمالی خاندان انتہائی منکسر المزاج ہے، اور یہ بات بلوچوں میں مشہور ہے۔ جمالی خاندان قبائلی کشت و خون سے دامن بچاتا رہا ہے۔ جمالی خاندان اُس وقت بڑی مشکل میں پڑ گیا جب نواب بگٹی کا بیٹا دن دہاڑے جناح روڈ پر عصر کے وقت قتل ہوگیا۔ اُن دنوں وزیراعلیٰ میر تاج محمد جمالی تھے۔ نواب بگٹی نے کہا کہ مجھے ان پر شک نہیں بلکہ یقین ہے کہ سلال بگٹی کے قتل میں جمالیوں کا ہاتھ ہے۔ ظفر اللہ جمالی نے ڈیرہ بگٹی کا دورہ کیا اور انہیں یقین دلایا کہ اس قتل میں جمالیوں کا ہاتھ نہیں ہے۔ نواب نے خاموشی اختیار کرلی۔
اب ظفر اللہ جمالی کے بعد کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آرہی جو اُن کی جگہ لے سکے۔ سیاست کا یہ خانہ شاید ایک طویل عرصے تک خالی رہے۔ یہ پُر ضرور ہوگا لیکن اس کے لیے ہمیں وقت کا انتظار کرنا ہوگا۔ میر ظفر اللہ جمالی شرافت کا بہترین نمونہ تھے۔ وہ انتہائی منکسر المزاج شخصیت تھے۔ ایک واقعہ لکھ کر قارئین سے رخصت ہوں گا۔ یہ واقعہ قاضی حسین احمد امیر جماعت پاکستان کے دور کا ہے۔ میر ظفر اللہ جمالی مرحوم قاضی حسین احمد مرحوم سے جماعت اسلامی کے دفتر واقع بروری روڈ پر ملنے کے لیے تشریف لائے، جب وہ دفتر میں داخل ہوئے تو قاضی صاحب کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے، میر ظفر اللہ خان جمالی ان کے سامنے گھاس پر نیچے بیٹھ گئے۔ قاضی صاحب اصرار کرتے رہے کہ میر صاحب کرسی پر بیٹھیں۔ انہوں نے انکار کردیا، تو قاضی صاحب بھی کرسی چھوڑ کر گراسی لان پر ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ جمالی خاندان میں کوئی اور ظفر اللہ شاید ہی جنم لے سکے۔