۔’’اِقدام اُٹھانا‘‘۔

یادش بخیر، جناب محمد خان جونیجو جب پاکستان کے وزیراعظم بنے، یا بنائے گئے، تو یہ عہدہ سنبھالتے ہی اُنھوں نے’’اِقدام اُٹھانا‘‘ شروع کردیا۔ اپنی تقریروں میں یہ دو لفظی ترکیب وہ خوب خوب استعمال کیا کرتے تھے:
’’ہم نے مارشل لا اُٹھانے کے لیے اقدام اُٹھالیا ہے‘‘۔
’’سیاسی جماعتوں کی بحالی کے لیے اِقدام اُٹھانا ہمارا کارنامہ ہے‘‘۔
’’ہم آئندہ بھی ایسا اِقدام اُٹھاتے رہیں گے‘‘۔(کرلو جو کرنا ہے)۔
جونیجو صاحب بھی اہلِ زبان تھے، مگر سندھی زبان کے۔ سو، اُن کے اُردو میں ’’اِقدام اُٹھانے‘‘ سے تو صرفِ نظر کیا جا سکتا تھا۔ مگر اُن کی دیکھا دیکھی خود اُردوکے ’’اہلِ زبان‘‘ نے بھی اپنی زبان وبیان میں دھڑا دھڑ ’’اِقدام اُٹھانے‘‘ شروع کردیے۔ اہلِ سیاست نے بھی، اہلِ صحافت نے بھی، حتیٰ کہ اہلِ علم و ادب نے بھی۔ نتیجہ یہ کہ اب جسے دیکھو وہ ’’اِقدام اُٹھائے‘‘ بولے چلا جا رہا ہے۔
صاحبو! جو چیز ایسے مواقع پر کوئی فردِ بشر اُٹھاتا ہے وہ ’’قدم‘‘ ہے، اِقدام نہیں۔’’اِقدام کِیا‘‘ جاتا ہے۔ ’’قدم اُٹھایا‘‘ جاتا ہے۔ قدم اُٹھ جائے تو بڑھایا بھی جاسکتا ہے اور رکھ بھی دیا جاتا ہے۔ مثلاًکسی اچھے مقصد کے لیے آپ قدم اُٹھا سکتے ہیں، کسی نیک کام کے لیے قدم بڑھا سکتے ہیں، یا کسی خطرناک کام کے لیے کسی وادیٔ پُرخار میں قدم رکھ سکتے ہیں۔ اگر اِن میں سے کسی کام کے نہیں رہے، توکم از کم کسی اور کے قدم چوم تو سکتے ہیں۔ جیسے کچھ شاعروںنے قیامت کے دن باوا آدمؑ کی قدم بوسی کا موقع کسی نہ کسی طرح نکال ہی لیا:۔

ہوئے دل فگاران، روزِ قیام
قدم بوسِ آدم علیہ السّلام
(محسن)

’’اِقدام‘‘(الف بالکسر یعنی الف پر زیر) کا مطلب ہے آگے بڑھنا، پیش قدمی کرنا، حرکت میں آنا، عملی کوشش کرنا۔ اسی وجہ سے ’’اِقدام کیا جاتا ہے‘‘، اِقدام اُٹھایا نہیں جاتا۔ ’’اِقدام‘‘ کی جمع ’’اِقدامات‘‘ ہے۔ ’’سرکاری اِقدامات‘‘ تو ہر دور میں تنقید کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔ وہ قدم جو اُٹھایا جاتا ہے، اُس کی جمع ’’اَقدام‘‘ ہے، الف پر زبر کے ساتھ۔ مگر یہ آسان کام نہیں۔ بڑے بڑے قدم اُٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اقبالؔ کی نظم ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ میں اپنی بڑائی اور اپنے تکبر پر ناز کرنے والے پہاڑ کو گلہری یہی طعنہ تو دے رہی ہے:۔

قدم اُٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں؟

’’اِقدام‘‘ پیچھے ہٹنے، لَوٹ جانے، مراجعت کرنے اور پسپا ہوجانے کی ضد ہے۔ رئیس امروہوی کا شعر ہے:۔

عشق رجعت ہے کہ اِقدام ہے، معلوم نہیں
یا فقط اِک روشِ عام ہے، معلوم نہیں

اِقدام کا مطلب قصد یا ارادہ بھی ہے۔بہت سے لوگ کسی کو مارڈالنے کی غرض سے ’’اِقدامِ قتل‘‘ کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔ ناکام ہونے ہی کی غرض سے اکثر لوگوں کو ’’اِقدامِ خود کُشی‘‘ کرتے بھی دیکھاگیا ہے۔ناشتے دان لے کر ریل کی پٹری پر لیٹ رہتے ہیںکہ ریل گاڑی لیٹ ہوجائے تو بھوکوں تو نہ مریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے ’’اِقدام اُٹھانے‘‘ والوں کو بھی ’’اقدام قتل اُٹھانا‘‘ یا ’’اقدام خودکُشی اُٹھانا‘‘ کہتے کبھی نہیں سنا۔
’’خودکُشی‘‘ کاذکر آیا ہے تو ذرا اس بات کا ذکر بھی کرتے چلیں کہ ذرائع ابلاغ پر بولنے والے بیشتر لوگوں کو نہیں معلوم کہ ’’کَش‘‘ اور ’’کُش‘‘ کے معانی میں بھی فرق ہے۔سو،انھیں معلوم ہو کہ یہ دونوں لاحقے لگاتے وقت معنی کے فرق کو سامنے رکھنا ضروری ہے، ورنہ صرف تلفظ تبدیل ہو جانے سے معنی بدل جائیں گے۔
’’کَش‘‘(ک پر زبر) کھینچنے یا کھینچنے والے کو کہتے ہیں۔یہ لفظ فارسی الاصل ہے۔اس کا مصدر ’’کشیدن‘‘ ہے یعنی کھینچنا۔’’مصدر‘‘کا مطلب ہے صادر ہونے کی جگہ، سرچشمہ، منبع، جڑ، بنیاد وغیرہ۔ عربی،فارسی اور اُردو قواعد میں اس سے مراد وہ کلمہ ہوتا ہے، جس سے باقی الفاظ بنتے ہیں۔ اردو کے مصدر میں ’’نا‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے آنا، جانا، کھانا وغیرہ۔مصدر ہی سے دیگر افعال مثلاً آیا، آتاہے، آئے گا وغیرہ بنتے ہیں۔ سید منور حسن مرحوم ایک محاورہ اکثر استعمال فرمایا کرتے تھے:’’ٹُک ٹُک دیدم ، دَم نہ کشیدم‘‘۔یعنی ٹکٹکی باندھے دیکھتا ہوں اور سانس بھی نہیں کھینچتا ۔ اس محاورے کے ’’کشیدم‘‘(مَیں کھینچتا ہوں)کا مصدر بھی ’’کشیدن‘‘ ہی ہے۔
’’کَشیدن‘‘ سے حاصل مصدر ’’کشش‘‘ہے، یعنی کسی شے میں اپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت یا صفت۔ ’’حاصلِ مصدر‘‘ اُس اسم کو کہتے ہیں جومصدر سے حاصل کیا گیا ہو مگر اُس میں مصدر ہی کے معنی پائے جاتے ہوں۔(ہمارے شاعروںاور ادیبوں کو شعر و ادب سے اور کچھ مثلاً مال و زر تو حاصل ہوتا نہیں،بچارے صرف ’’حاصلِ مصدر‘‘ہی پر گزارہ کرلیتے ہیں)۔
کشش سے بھری ہوئی ہر چیز ’’پُرکشش‘‘ ہوتی ہے۔خطِ نسخ کے ’’ک‘‘ پر جو ایک لکیر سی کھینچ کراُسے خطِ نستعلیق کا’’ک‘ ‘ بنا دیا جاتا ہے، تواس کھنچی ہوئی لکیر کو بھی کشش کہتے ہیں۔غالبؔ نے اپنے ایک شعر میں اس لفظ کانہایت معنی خیز استعمال کرکے کمال کر دیا ہے:۔

لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادۂ رَہ، کششِ کافِ کرم ہے ہم کو

(راستے کی لکیر یا ’’پگ ڈنڈی‘‘ میرے لیے کرم کے ’’ک‘‘کی کشش بن گئی ہے)
’’کشش ثقل‘‘ بھی ہر وزنی شے کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ’’دل کَش‘‘ کا مطلب ہے دل کو کھینچ لینے والا۔’’رسّا کشی‘‘ کے کھیل میں دونوں طرف سے رسّا کھینچا جاتا ہے۔ اگر آپ کسی مخمصے میں پڑے ہوئے ہوں کہ یہ کام کروں یا نہ کروں، تو اسی کھینچا تانی کو ’’کَش مَکش‘‘ کہا جاتا ہے (کھینچو، مت کھینچو)۔ جو شخص محنت کی مصیبت کھینچتا ہے وہ ’’محنت کَش‘‘ کہلاتا ہے۔ جَور و جفا اور مشقت کی سختیاں جھیلتے ہوئے زندگی کی گاڑی کھینچنے والا ’’جَفا کَش‘‘ کہا جاتا ہے۔ حقے، سگار یا سگریٹ کا دھواں کھینچنے کو بھی کَش لینا یا کَش لگانا کہتے ہیں۔ حاصلِ کلام یہ کہ ’’کَش‘‘ کا لاحقہ لگادیا جائے تو اس کا مطلب بنتا ہے ’’کھینچنے والا‘‘۔
جب کہ ’’کُش‘‘ (ک پر پیش) کا مطلب ہے مارنے یا قتل کرنے والا۔ یہ بھی فارسی لفظ ہے اور اس کا مصدر ’’کُشتن‘‘ ہے (مارنا یا قتل کرڈالنا)۔ اسی عمل سے ’’کُشتوں کے پُشتے‘‘ لگادیے جاتے ہیں۔ ’’گُربہ کُشتن‘‘ والا محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ کیا عجب کہ اس پر عمل بھی کیا ہو۔ ’’جراثیم کُش‘‘ کی دو لفظی ترکیب سب ہی نے سن رکھی ہے۔کسی پر بہتان باندھ کر یا تُہمت لگا کر اُس کی ’’کردار کُشی‘‘ کرنا اہلِ سیاست و صحافت ہی کا نہیں ہماری پوری قوم کا لذّت بخش مشغلہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں ’’بُزکُشی‘‘ کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ( بُز بکری یا بکرے کو کہتے ہیں۔ اُن لوگوں کو کیا کہتے ہیں جو انھی جیسا دل رکھتے ہیں، یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے۔) ہر وہ کام ’’غیرت کُش‘‘ کہلاتا ہے جس سے خود غیرت ہی قتل ہوجائے۔ ’’برادر کُشی‘‘ بھی اِس دُنیا کی دیرینہ سیاسی ثقافت ہے کہ:۔

بھائیوں میں جنگ ہوگی گر عدو باقی نہیں

القصہ مختصر ’’کَش‘‘ اور ’’کُش‘‘کے معانی کا فرق سامنے رکھنا چاہیے۔ ’’خودکُشی‘‘ کو اگر ’’خود کَشی‘‘ کہہ کر کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ناکامی ہی قدم چومے گی۔ آج کل جو انسانی بمبار بھیجے جاتے ہیں وہ بھی ’’خودکُش‘‘ ہی ہوتے ہیں۔ ’’خودکو ہلاک کرنے والے‘‘۔ اگر ’’خودکَش‘‘ ہوتے تو اپنے آپ کو کھینچ کر اس جرم سے الگ کرلیتے۔