فراستِ مومن

جب حضرت عمرو بن عاصؓ نے قیساریہ کو فتح کرکے غزہ کا محاصرہ کیا تو وہاں کے گورنر نے ان کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ گفتگو کے لیے کوئی آدمی میرے پاس بھیجیے۔ حضرت عمروؓ ایک عام آدمی کی حیثیت سے خود تشریف لے گئے اور گفتگو شروع کی۔ غزہ کا گورنر ان کے حکیمانہ اندازِ گفتگو اور جرأت و بے باکی سے بڑا متاثر ہوا۔ اس نے پوچھا: ’’کیا تمہارے ساتھیوں میں تم جیسے کچھ اور لوگ بھی ہیں؟‘‘
حضرت عمروؓ نے فرمایا: ’’یہ بات نہ پوچھیے، میں تو ان میں سب سے کمتر آدمی ہوں، جبھی تو انہوں نے مجھے یہاں بھیجنے کا خطرہ مول لیا ہے‘‘۔
غزہ کے گورنر نے یہ سن کر انہیں کچھ تحفے دینے کا حکم دیا، اور ساتھ ہی دربان کے پاس حکم لکھ کر بھیج دیا کہ: ’’جب یہ شخص تمہارے پاس سے گزرے تو اسے قتل کرکے اس کا مال چھین لو‘‘۔
حضرت عمروؓ جب واپس جانے کے لیے مڑے تو راستے میں غسان کا ایک عیسائی ملا ،اس نے حضرت عمروؓ کو پہچان لیا اور چپکے سے بولا: ’’عمرو تم اس محل میں اچھی طرح داخل ہوئے تھے، اچھی طرح ہی نکلنا‘‘۔
یہ سن کر حضرت عمروؓ ٹھٹھک گئے، وہ فوراً مڑے اور واپس گورنر کے پاس پہنچ گئے۔ سردار نے پوچھا:
’’کیا بات ہے، واپس کیوں آگئے؟‘‘
حضرت عمروؓ نے جواب دیا: ’’آپ نے مجھے جو تحفے دیئے ہیں، میں نے انہیں دیکھا تو اندازہ ہوا کہ یہ میرے چچازاد بھائیوں کے لیے کافی نہیں ہیں، لہٰذا میرے دل میں یہ آرہا ہے کہ میں اپنے دس بھائیوں کو آپ کے پاس لے آئوں، آپ یہ تحفے ان سب میں تقسیم کردیں،ا س طرح آپ کا تحفہ ایک کے بجائے دس آدمیوں کے پاس پہنچ جائے گا‘‘۔
گورنر دل ہی دل میں خوش ہوا کہ اس طرح ایک کے بجائے دس آدمیوں کو قتل کرنے کا موقع ملے گا، چنانچہ اس نے کہاکہ ’’تم ٹھیک کہتے ہو، انہیں جلدی سے لے آئو‘‘۔
اور یہ کہہ کر دربان سے کہلا دیا کہ ’’اب اس شخص کو جانے دو‘‘۔ حضرت عمروؓ محل سے نکل کر دور تک مڑ مڑ کر دیکھتے رہے اور جب خطرے کی حدود سے باہر نکل گئے تو فرمایا:
’’آئندہ ان جیسے غداروں کے پاس نہیں آئوں گا‘‘۔ چند روز کے بعد غزہ کے گورنر کو صلح کی درخواست کرنی پڑی۔ اس مقصد کے لیے وہ خود مسلمانوں کے پاس آیا، اور جب حضرت عمروؓ کے خیمے میں داخل ہوکر انہیں امیرِ لشکر کی حیثیت سے بیٹھا دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اس نے بوکھلا کر پوچھا:
’’کیا آپ وہی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں‘‘ حضرت عمروؓ نے جواب دیا۔ ’’میں تمہاری غداری کے باوجود زندہ ہوں‘‘۔
( ”تراشے“۔۔۔مفتی محمد تقی عثمانی)

سواری

ایک دفعہ سلطان قطب الدین محمد خوارزم شاہی (1097ء۔ 1127ء) ایک عمدہ گھوڑے پر سوار ہوکر ایک قبرستان کے پاس سے گزرا، وہاں ایک مجذوب نظر آیا۔ بادشاہ نے باگ کھینچ لی اور پوچھا: ’’اے فقیر! یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘
کہا: ’’ان لوگوں (مُردوں) سے باتیں کررہا ہوں‘‘۔
پوچھا:’’یہ کیا کہتے ہیں؟‘‘
کہا: ’’یہ کہہ رہے ہیں کہ کبھی ہم بھی گھوڑوں اور ہاتھیوں پر سوار ہوا کرتے تھے لیکن آج ہم پر زمین سوار ہے‘‘۔

مفسلی

٭غریبوں کے ساتھ ہمیشہ دوستی رکھو اور امیروں کی مجلس سے پرہیز کرو۔ (حضور پاکؐ)۔
٭ مجھے غریبوں میں تلاش کرو کیونکہ غریبوں کے ذریعے ہی سے تمہیں مدد اور روزی ملتی ہے۔(حضور پاکؐ)۔
٭کوئی فقیر اور غنی ایسا نہیں جسے قیامت میں یہ تمنا نہ ہو کہ اس کو بقدر ضرورت یعنی گزارے کے لائق دیا جائے۔ (حضور پاکؐ)۔
٭کسی نے حضرت بایزید بسطامیؒ سے دریافت کیا کہ آپ بھوک کی کیوں اتنی تعریف کرتے ہیں؟ فرمایا کہ اگر فرعون بھوکا ہوتا تو اناربکم اعلیٰ (میں خدا ہوں) ہرگز نہ کہتا۔
٭فقیر وہ ہے جس کے پاس نہ دنیا کی کوئی چیز ہو، نہ اسے کسی چیز کے ملنے کی خوشی ہو، اور نہ کسی چیز کے تلف کرنے سے رنج ہو۔ (حضرت داتا گنج بخشؒ)۔

جتنی چادر دیکھیے، اتنے پاؤں پھیلائیے

حوصلے، بساط، اپنی حیثیت سے باہر کوئی قدم نہیں رکھنا چاہیے۔ اس کہاوت کے پس منظر میں ایک حکایت اس طرح بیان کی جاتی ہے:
ایک مرتبہ اکبر بادشاہ نے جاڑے کے موسم میں غریبوں کو بانٹنے کے لیے کچھ لحاف تیار کرائے۔ اس کا سارا انتظام بیربل کے سپرد تھا۔ اکبر نے بیربل کو حکم دیا تھا کہ جب لحاف تیار ہوجائیں تو اس کے سامنے ضرور پیش کیے جائیں۔ جب لحاف تیار ہوگئے تو بیربل نے بادشاہ کے ملاحظہ کے لیے پیش کیے۔ بادشاہ نے ایک لحاف خود اوڑھ کر دیکھا تو اس کے پائوں لحاف سے باہر نکل گئے، کیوں کہ لحاف کی لمبائی کم تھی اور اکبر کی لمبائی زیادہ تھی۔ اکبر نے بیربل سے کہا:
۔’’لحاف تو چھوٹا ہے اور میرے پیر باہر نکلے ہیں‘‘۔
بیربل نے برجستہ جواب دیا:۔
۔’’جتنی چادر دیکھیے، اتنے پائوں پھیلایئے‘‘۔
(ماہنامہ چشم بیدار، جولائی 2018ء)