ایک ایسی حکایت پیش کی جاتی ہے جس کا ظاہر کچھ اور ہے اور باطن کچھ اور… ایک گائوں میں ایک مؤذن تھا۔ اس کی دل خراش آواز سے سب نالاں تھے۔ مگر مؤذن کو خوش فہمی تھی کہ اس کی آواز بے حد سریلی اور میٹھی ہے۔ جب وہ اذان دیتا تو سننے والے اپنا سر تھام لیتے، معصوم بچے اپنی مائوں سے لپٹ جاتے۔ راہ گیر کانوں میں انگلیاں دے لیتے۔ غرض مرد، عورت، بڈھے، جوان اور بچے اس کی کرخت آواز سے پریشان ہوجاتے تھے… اہلِ محلہ نے بارہا اسے نرمی سے سمجھایا کہ تیری آواز اس قابل نہیں کہ تُو اذان دے، ایسی بھیانک آواز سے اذان دینا شریعت میں منع کیا گیا ہے۔
محلے والوں کی جان اس سے عذاب میں تھی۔ سننے والوں کی نیند حرام ہوجاتی تھی۔ سر میں درد ہونے لگتا تھا۔ آخر تنگ آکر سب نے صلاح مشورہ کیا کہ کسی طریقے سے اسے مسجد سے فارغ کرنا چاہیے۔ سب نے دل کھول کر مؤذن صاحب کی مالی خدمت کی اور عرض کرنے لگے: ہم آپ کے ’’لحن دائودی‘‘ سے بہت مستفید ہوئے۔ آپ نے بہت خدمت کی، اب کچھ عرصہ آرام کیجیے۔
ایک قافلہ مکہ معظمہ جارہا تھا، مؤذن صاحب حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے اس قافلے میں شامل ہوگئے۔ سفر کی پہلی منزل میں قافلہ ایک ایسی بستی کے قریب جاکر رکا جس میں زیادہ آبادی کافروں کی تھی۔ عشا کی نماز کا وقت ہوا تو اس مؤذن نے اللہ کا نام لے کر اذان دینی شروع کردی۔
آواز ایسی کرخت نکالی کہ قبروں سے مُردے بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ قافلے والے ڈرنے لگے کہ کہیں کوئی فتنہ برپا نہ ہوجائے۔ تھوڑی دیر بعد ایک کافر ہاتھ میں شمع لیے مٹھائی اور قیمتی جوڑا کپڑوں کا لے آیا اور قافلے کے اندر آتے ہی پوچھنے لگا: ’’وہ مؤذن کہاں ہے؟ جس کی آواز سے ہمیں حیاتِ نو ملی…‘‘ قافلے والوں کو اس کی یہ بات سن کر حیرت ہوئی۔
کافر مسکرا کر کہنے لگا: ’’میں شکریہ ادا کرنے حاضر ہوا ہوں۔ میری اکلوتی لڑکی ہے، نہایت ہی حسین و جمیل اور نازک مزاج ہے، مدت سے اس کی آرزو تھی کہ مسلمان ہوجائے۔ ہم اسے برابر سمجھاتے رہے کہ یہ خیال چھوڑ دے۔ اپنے باپ دادا کا مذہب نہ چھوڑ، مگر اس پر کوئی نصیحت کارگر نہ ہوتی تھی۔ اسلام کی محبت اس کے دل میں جاگزیں ہوچکی تھی۔ اس سبب سے میں ہمیشہ پریشان اور خوف زدہ رہتا تھا۔ مگر آج اس مؤذن کی آواز نے وہ کام کر دکھایا جو ہزار نصیحتیں بھی نہ دکھا سکیں۔
لڑکی نے مؤذن صاحب کی آواز سن کر پوچھا: یہ مکروہ آواز کیسی ہے جو کانوں میں آرہی ہے اور دماغ پر ہتھوڑے کی طرح بج رہی ہے۔ اس کی ماں نے جواب دیا: یہ اذان کی آواز ہے۔ مسلمانوں میں نماز کی اطلاع دینے کا یہی طریقہ مقرر ہے۔ اس کے بعد میری لڑکی نے مجھ سے یہی سوال کیا: میں نے بھی یہی جواب دیا کہ واقعی یہ مسلمانوں کی اذان کی آواز ہے۔ اسے یقین آتے ہی خوف سے اس کا رنگ زرد پڑ گیا اور ہمارا دل سرد ہوگیا۔
اس نے اسی وقت طے کرلیا کہ وہ اسلام قبول نہیں کرے گی۔ ہم تشویش و عذاب سے چھوٹ گئے۔ ہمیں واقعی اس کی آواز سے راحت پہنچی۔ اب میں اس مؤذن کا احسان مند ہوں اور شکریے کے طور پر یہ نذرانہ اُس کے لیے لایا ہوں‘‘۔ کافر مؤذن سے بغل گیر ہوکر دعائیں دینے لگا اور کہنے لگا: ’’جناب آپ میرے محسن ہیں، آپ نے آج وہ احسان مجھ پر کیا ہے کہ ساری زندگی آپ کا غلام رہوں گا۔ اگر میرے قبضے میں کسی ملک کی بادشاہت ہوتی تو آپ کو اشرفیوں میں تول دیتا۔‘‘
درسِ حیات: آوازِ حق بلند کرنے یعنی تبلیغ کے لیے بھی مناسب لوگوں کا انتخاب ہونا چاہیے۔