سانحہ مشرقی پاکستان- سیاسی بصیرت کا فقدان

یہ بات تسلیم ہے کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ وفاقی سطح پر بھی کچھ بے انصافیاں ہوئیں۔ مشرقی پاکستان آبادی میں ۵۶ فی صد تھا۔ اس لیے بظاہر جمہوری اصولوں کی روشنی میں ’آئینی برابری‘ (Parity)بھی اس کے ساتھ زیادتی ہی تصور کی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے وہ دانش ور جو ۱۹۵۶ء اور پھر ۱۹۶۲ء کے دساتیر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’آئینی برابری‘ کے اصول پر احتجاج کرتے ہیں اور اسے ہمالہ جیسی غلطی قرار دیتے ہیں، وہ جذبات کی رو میں بہہ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ جغرافیائی فاصلے کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے برابری یا پیرٹی کا یہ اصول سب سے پہلے پاکستان کے تیسرے وزیراعظم [۱۷؍اپریل ۱۹۵۳ء- ۱۲؍اگست ۱۹۵۵ء] بنگالی نژاد محمدعلی بوگرہ کے آئینی فارمولے [۷؍اکتوبر ۱۹۵۳ء] میں آیا تھا، جس کی بنیاد پر ۱۹۵۴ء میں دستور بنایا جارہا تھا، لیکن گورنر جنرل [اکتوبر ۱۹۵۱ء- اگست ۱۹۵۵ء] ملک غلام محمد نے پہلی دستورساز اسمبلی برخاست [۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ء]کر کے دستورسازی کی بساط ہی لپیٹ دی۔ اس سے قبل بنگالی نژاد خواجہ ناظم الدین کے دستوری فارمولے میں بھی برابری کا مقصد ایک اور طریقے سے حاصل کیا گیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ دستورِ پاکستان میں برابری کا اصول بنگالی سیاست دانوں نے خوش دلی سے تسلیم کیا تھا۔ تاہم، ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کے حوالے سے ٹیلی ویژن پروگراموں میں ۱۹۵۶ء کے آئین میں طے کردہ پیرٹی کے اصول کو خوب رگیدا جاتا ہے۔ ایسا رویہ اختیار کرنے والوں کو غالباً علم نہیں کہ ۱۹۵۶ء کے آئین کی تشکیل میں جناب حسین شہید سہروردی کا تعاون ایک کارنامے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ نہ صرف بنگالی تھے بلکہ شیخ مجیب الرحمٰن کے استاد، سیاسی گرو بھی تھے۔ دراصل آج ’آئینی برابری‘ کے خلاف یہ ساری باتیں موقع گزر جانے کے بعد آنے والے خیال (after thought) کی حیثیت رکھتی ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ مشرقی پاکستان میں سیاسی احساسِ محرومی کو ایوبی مارشل لا اور فوجی طرزِحکومت [اکتوبر ۱۹۵۸ء – مارچ ۱۹۶۹ء ] نے اُبھارا اور اسے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل دینے کا سامان فراہم کیا۔ پارلیمانی جمہوریت میں بنگالیوں کو اقتدار ملنے کی توقع تھی۔ وہ جانتے تھے کہ مغربی پاکستان کے کسی بھی چھوٹے صوبے کو ساتھ ملاکر، ’دستوری برابری‘ کے باوجود وہ اکثریت حاصل کرکے اقتدار حاصل کرسکیں گے۔ لیکن ایوبی مارشل لا نے ان کی یہ شمعِ اُمید بھی بجھادی تھی۔ پھر ایوبی مارشل لا کی آمرانہ سوچ اور اظہار پر شدید پابندیوں اور سیاسی مخالفوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی کارروائیوں نے اس احساس میں شدت پیدا کی۔
”پاکستان سے بنگلہ دیش“ نامی کتاب میں سابق بنگالی سفیر اور کرنل شریف الحق دالم نے بالکل درست لکھا ہے کہ: ’’شیخ مجیب الرحمٰن نے ۱۹۶۹ء میں علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا‘‘۔ کرنل شریف الحق بنگلہ دیش کی علیحدگی کی تحریک کے ’ہیرو‘ سمجھے جاتے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے سابق سفیر اور اگست ۱۹۷۵ء میں مجیب الرحمٰن کے خلاف بغاوت کرنے والوں میں شامل تھے۔ چنانچہ ان کا لکھا ہوا مستند ہے۔ مجیب الرحمٰن جب جنوری ۱۹۷۲ء میں پاکستان سے رہائی پاکر لندن پہنچے تو انھوں نے بی بی سی کے انٹرویو میں ببانگِ دہل کہا کہ:’’میں عرصے سے بنگلہ دیش کے قیام کے لیے کام کررہا تھا‘‘۔
۱۶نومبر ۲۰۰۹ء کو بنگلہ دیش کی وزیراعظم اور شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی حسینہ واجد نے انکشاف کیا کہ: ’’میں ۱۹۶۹ء میں لندن میں اپنے والد کے ساتھ تھی، جہاں شیخ مجیب الرحمٰن نے ہندوستانی ایجنسی ’را‘ کے افسروں سے ملاقاتیں کیں اور بنگلہ دیش کے قیام کی حکمت عملی طے کی‘‘۔ حسینہ واجد کا بیان موقعے کے گواہ کا بیان ہے۔ اس پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں، بلکہ اب تو ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی بھی ’قیام بنگلہ دیش کو ہندوستان کا کارنامہ‘ قرار دے چکے ہیں، اور بلوچستان کی ’آزادی‘ کا عندیہ دے رہے ہیں۔
اس اُلجھی ہوئی کہانی کو سمجھنے کے لیے اس پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جب ۱۹۵۶ء کے آئین میں بنگالی سیاسی قیادت نے ’آئینی برابری‘ کا اصول مان لیا تھا تو پھر جنرل آغا یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ [۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء]کرنے کے بعد اس اصول کو کیوں ختم کیا اور کس اتھارٹی کے تحت مغربی پاکستان کی وحدت، یعنی ون یونٹ ختم کرنے اور ’وَن مین وَن ووٹ‘ کا اصول نافذ کرنے کا اعلان کیا ؟ یہ بنیادی فیصلے تو نئی دستور ساز اسمبلی کو کرنے تھے۔ دراصل جنرل یحییٰ خان صدارت پکّی کرنے کے لیے مجیب الرحمٰن سے سازباز کرنے میں مصروف تھے، اور یہ دو بنیادی فیصلے اسی ہوسِ اقتدار کے تحت کیے گئے تھے، تاکہ مجیب کے اقتدار کی راہ ہموار کی جائے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ دسمبر ۱۹۷۰ء میں انتخابات کروانے کے بعد اقتدار منتقل نہ کرنا پاکستان کو توڑنے کے مترادف تھا۔ سیاسی بصیرت اور ملکی اتحاد کا تقاضا تھا کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کیا جاتا۔ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کے نتیجے کے طور پر یکم مارچ ۱۹۷۱ء کو مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی، جسے پہلے تو پوری طرح پنپنے اور اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ۲۵ روز دیے گئے اور پھر کچلنے کے لیے ۲۵ مارچ کو آرمی ایکشن کیا گیا۔ سیاسی مسائل ہمیشہ سیاسی بصیرت سے ہی حل ہوتے ہیں۔ چنانچہ اُس آرمی ایکشن نے بھی پاکستان کو بہت کمزور کردیا تھا۔ سیاسی بصیرت کا تقاضا تھا کہ صورتِ حال کو اتنا نہ بگڑنے دیا جاتا کہ آرمی ایکشن کی نوبت آتی۔
(سقوطِ ڈھاکا: چند حقائق اور دو قومی نظریہ۔۔۔۔)

بیادِ مجلس اقبال

مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز
جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد

اس شعر میں علامہ اپنی شاعری کی حقیقت و اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں کہ یہ ملّت کے درد و الم کی داستان بھی ہے، اور اس میں حیاتِ نو کا پیغام بھی ہے۔ درد و الم سے معمور، اقبال کا دل ملّت کی غم خواری کے جذبوں کی نمائندگی کررہا ہے۔ ملّت کے تاریخی عروج و زوال کی تفصیلات سے آگاہ مردِ خود آگاہ اقبال کا کلام، بھٹکے ہوئے آہو کی رہنمائی اور رہبری کے لیے وقف ہے۔ ایسا دل اور ایسا کلام، ایسی اپنائیت اور ایسی وفا اقبال سے ہٹ کر کسی اور کے ہاں سے نہیں مل سکتی۔