توبہ کے معنیٰ پلٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں۔ گناہ کے بعد بندے کا خدا سے توبہ کرنا یہ معنیٰ رکھتا ہے کہ ایک غلام، جو اپنے آقا کا نافرمان بن کر اس سے منہ پھیر گیا تھا، اب اپنے کیے پر پشیمان ہے اور اطاعت و فرماں برداری کی طرف پلٹ آیا ہے۔ اور خدا کی طرف سے بندے پر توبہ یہ معنیٰ رکھتی ہے کہ غلام کی طرف سے مالک کی نظرِ عنایت جو پھر گئی تھی، وہ ازسرنو اس کی طرف منعطف ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں معافی صرف اُن بندوں کے لیے ہے جو قصداً نہیں بلکہ نادانی کی بنا پر قصور کرتے ہیں، اور جب آنکھوں پر سے جہالت کا پردہ ہٹتا ہے تو شرمندہ ہوکر اپنے قصور کی معافی مانگ لیتے ہیں۔ ایسے بندے جب بھی اپنی غلطی پر نادم ہوکر اپنے آقا کی طرف پلٹیں گے، اس کا دروازہ کھلا پائیں گے؎.
ایں درگہِ ما در گہِ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
مگر توبہ اُن کے لیے نہیں جو اپنے خدا سے بے خوف اور بے پروا ہوکر تمام عمر گناہ پر گناہ کیے چلے جائیں اور پھر عین اُس وقت جب کہ موت کا فرشتہ سامنے کھڑا ہو، معافی مانگنے لگیں۔ اسی مضمون کو نبیؐ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ’’اللہ بندے کی توبہ بس اُسی وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ آثارِ موت شروع نہ ہوں‘‘۔ کیونکہ امتحان کی مہلت جب پوری ہوگئی اور کتابِ زندگی ختم ہوچکی تو اب پلٹنے کا کون سا موقع ہے! اسی طرح جب کوئی شخص کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوجائے اور دوسری زندگی کی سرحد میں داخل ہوکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے جو وہ دنیا میں سمجھتا رہا، تو اُس وقت معافی مانگنے کا کوئی موقع نہیں۔
توبہ کے معنی یہ (بھی) ہیں کہ آدمی اپنے کیے پر نادم ہو، جس برائی کا وہ مرتکب ہوا ہے یا ہوتا رہا ہے اُس سے باز آجائے اور آئندہ اُس کا ارتکاب نہ کرے۔ نیز یہ بھی سچی توبہ کا لازمی تقاضا ہے کہ جو برائی کسی شخص نے پہلے کی ہے، اس کی تلافی کرنے کی وہ اپنی حد تک پوری کوشش کرے، اور جہاں تلافی کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، وہاں اللہ سے معافی مانگے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرکے اس دھبے کو دھوتا رہے جو اس نے اپنے دامن پر لگا لیا ہے۔ لیکن کوئی توبہ اُس وقت تک حقیقی توبہ نہیں ہے جب تک کہ وہ اللہ کو راضی کرنے کی نیت سے نہ ہو۔ کسی دوسری وجہ یا غرض سے کسی برے فعل کو چھوڑ دینا سرے سے توبہ کی تعریف ہی میں نہیں آتا۔
nn