عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا بحران

عالمی شہرت یافتہ امریکی دانشور اور ماہر لسانیات نوم چومسکی نے کراچی کی ایک نجی جامعہ کے طلبہ سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اِس وقت دنیا کو چار بڑے خطرات کا سامنا ہے، جس میں جوہری جنگ، ماحولیاتی بربادی، دنیا بھر میں جمہوریت کا انحطاط، اور حالیہ کورونا وائرس کی وبا شامل ہے۔ دنیا ایک تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، چار بڑے خطرات میں سے کورونا وائرس کم خطرناک ہے، لیکن اس سے نکلنے کی قیمت بڑی اور غیر ضروری ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’دیگر اہم خطرات دنیا کی سیاست کی حرکیات کو تبدیل کردیں گے، آج دنیا کو جس جوہری جنگ کا خطرہ ہے اس سے نہ صرف اُن ممالک کونقصان ہوگا جو اس میں شامل ہوں گے، بلکہ جوہری جنگ کے نتیجے میں آنے والی ایٹمی سردی پوری دنیا کو نقصان پہنچائے گی۔ وبا کے دنوں میں موجودہ دور کی نسل کو ایسے سوالات کا سامنا ہے جن کا سامنا کبھی بھی پوری انسانیت کو نہیں ہوا‘‘۔ انہوں نے امریکہ میں گزشتہ چالیس برسوں کے دوران میں جمہوریت کو ہونے والے نقصان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ کا اعشاریہ ایک فیصد طبقہ ملک کی پوری دولت کے بیس فیصد حصے پر قابض ہے، اور اس کا جمہوریت پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے۔ جب دولت اتنے محدود طبقے تک محدود ہوجائے تو یہ صورتِ حال سرکاری کام کاج پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے ۔ جس بنیادی ڈھانچے پر جمہوریت کام کرتی ہے وہ بری طرح خراب ہوا ہے ‘‘۔
پروفیسر نوم چومسکی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امریکی امپیریلزم کے ناقد دانشور تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کے تجزیے کو ہر مکتبہ فکر میں غور سے دیکھا جاتا ہے ۔ انہوں نے کراچی کی ایک نجی جامعہ سے آن لائن خطاب میں دنیا کو درپیش خطرات اور بحران کی فہرست میں جن نکات کو شامل کیا ہے وہ کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ پروفیسر نوم چومسکی نے جن بحرانوں کا ذکر کیا ہے، اس کی ذمے دار تو پوری دنیا پر قابض عالمی طاقتیں ہیں جن کا قائد اور سربراہ امریکہ ہے، لیکن اس تباہ کاری کا دائرہ پوری دنیا تک پھیل چکا ہے۔ اس لیے دنیا کے محکوم اور مغلوب ممالک کے بحران کا حل بھی اُس وقت تک تلاش نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ عالمی نظام تبدیل نہیں ہوجاتا۔ عالمی نظام کا سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ وہ ایک طرف فرد اور قوم کی آزادی کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف سرمایے اور فوجی طاقت کی بنیاد پر قوموں کو اپنا غلام بناتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام الحادی مغربی تہذیب کا تخلیق کردہ ہے، جمہوریت جس کی لونڈی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں نمائندہ حکومتوں کے فریب کے پردے میں انسانوں کی عظیم اکثریت کو اقتصادی غلام بھی بنالیا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں جو سیاسی اور اقتصادی بحران ہے اُس کی ذمے داری بھی عالمی سطح پر غالب تہذیبِ مغرب کے تخلیق کردہ سیاسی و اقتصادی نظام پر عائد ہوتی ہے۔ دنیا کو یہ سبق پڑھایا گیا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے مثال ترقی کے بعد دنیا جنت کا نمونہ بن جائے گی۔ لیکن عملاً یہ ہوا ہے کہ ’’دنیاوی جنت‘‘ کا خواب دکھانے والوں نے دنیا کو انسانوں کی عظیم تعداد کے لیے جہنم بنادیا ہے، یہاں تک کہ عالمی سیاسی واقتصادی سپر پاور امریکہ کے شہری بھی اقتصادی تنگی اور بے روزگاری کا شکار ہیں۔ پاکستان پر فوج، بیوروکریسی، جاگیردار و سرمایہ دار سیاست دانوں اور ٹیکنوکریٹ مشیروں کے کلب نے مشترکہ پر حکومت کی ہے۔ ان کے درمیان طبقاتی جنگ تو ضرور جاری رہی ہے لیکن اس کلب کے سارے ارکان عالمی مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے ’’جاہل‘‘غلام رہے ہیں۔ سیاست میں جمہوریت کے نام پر ایک ایسے تماشے میں عوام الناس کو الجھا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے انہیں حقیقت نظر نہیں آتی۔ عالمی سطح پر بعض اہلِ دانش کو وہ تمام خطرات نظر آرہے ہیں جو پوری انسانیت کو درپیش ہیں، لیکن اُن کے پاس علاج نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کورونا وائرس کی وبا ہے۔ تمام علمی وسائنسی ترقی کے باوجود اس کا سبب اور علاج دونوں دنیا کو بتائے نہیں جاسکے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کی تباہ کاری بھی اس سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کا شاخسانہ ہے، جس نے علوم کو بھی انسانیت دشمن الحادی تہذیب کا آلۂ کار بنادیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ تہذیبِ مغرب کائنات اور انسانیت کے بے خدا تصور پر یقین رکھتی ہے، اس لیے یہ خدا کی باغی تہذیب ہے۔ انسان کو اس کائنات میں خالقِ کائنات ومالکِ کائنات نے اپنا بندہ بناکر بھیجا ہے، لیکن جب خدا کو الوہیت اور ربوبیتکے دائرے سے خارج کیا جائے گا تو اس کی جگہ کوئی نہ کوئی تو ضرور لے گا۔ اس لیے کہیں خواہشاتِ نفس کی پوجا ہورہی ہے، کہیں دولت اور سرمایے کی بندگی کی جارہی ہے، کہیں فوجی طاقت کو آقا اور رب مان لیا گیا ہے۔ خدا کی بغاوت کے نام پر جو نظام بنایا جائے گا وہ لازماً تباہ کاری لائے گا، اور اب اس تباہ کاری کی شہادت الحادی تہذیبِ مغرب کے دانشور بھی دینے پر مجبور ہوگئے ہیں، لیکن ان کا تجزیہ اس اعتبار سے ناقص ہے کہ وہ وحیِ الٰہی سے رہنمائی لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی تناظر میں پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی بحران کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں حکومت کسی کی بھی ہو، اقتصادی دنیا میں فیصلے وہی کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے مقتدر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت’’ تبدیلی‘‘ کے محدود تصور کو لے کر تیسری مقبولِ عوام جماعت بنی، لیکن وہ اپنی مرضی کی اقتصادی ٹیم بنانے کا اختیار بھی نہیں رکھتی۔ اس وقت مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان ہے۔ اس کا اصل سبب عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور اُس کے اداروں کے احکامات ہیں۔ جس نظام میں حکومتوں کو اپنی کرنسی کی قیمت کا تعین کرنے کا اختیار نہ ہو، وہ کیسے اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اقتصادی طور پر آزاد ہے! ایک طرف یہ غلامی، دوسری طرف جمہوریت کے نام پر آزادی کے ترانے… یہ دھوکا زیادہ دیر تک جاری نہیں رہے گا۔ ملک اور معاشرے کے مختلف طبقات اپنی اپنی بانسری بجاتے رہیں گے، لیکن جب تک عالمی ابلیسی نظام کو کلمۂ توحید کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جائے گا، حالات تبدیل نہیں ہوسکیں گے۔