شرقِ اوسط کا اسلامی پس منظر

حضرت نوحؑ کے بعد سے محمدؐ تک اسلام ہی روحِ اعظم کی حیثیت سے شرقِ اوسط کی اساسی روحانی تحریک رہی۔ اسلام کے معنی ہیں خدا کی بندگی اور اُس کے احکام کے آگے خود سپردگی! دریائے دجلہ و فرات کے دوآبہ سے، جہاں سب سے پہلے بت پرستی کا آغاز ہوا، نوحؑ نے کیا دعوت دی؟ یہی کہ اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے خلاف سرکشی کا نتیجہ عذاب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کی بندگی کرو۔ نجات کا ذریعہ نسب و حسب نہیں، محض اعمالِ صالحہ ہیں(اعراف)۔ نوحؑ کے بعد سے شرقِ اوسط کا دین اسلام رہا۔ رسول دوسرے کی تصویر اور ہر دعوت دوسری دعوت کا عکس۔ اسلام ہی روحِ الٰہی یا روحِ اعظم رہا۔ جس نے اللہ کی سُنی، انعام یافتہ ہوا۔ جس نے سرکشی کی، مبتلا ئےعذاب ہوا۔ اسلامی دعوت کے خلاف سرکشی، قومِ نوح کی بربادی کا سبب بنی۔ قومِ نوح کے بعد حضرت ہودؑ نے قومِ عاد کو کیا دعوت دی؟ یہی اسلامی دعوت قال یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الٰہ غیرہ افلاتتقون (اعراف) اور قال یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الٰہ غیرہ ان انتم الامفترون (ہود) قوم عاد نے سرکشی کی (ومانحن لک بمومنین) عذابِ الٰہی نازل ہوا (انہ اہلک عادنا الاولیٰ) عاد کے بعد قوم ثمود کو اللہ نے اقتدار دیا؟ (واذکر واذجعلکم خلفا من بعد عاد) حضرت صالح ؑ نے انہیں کیا دعوت دی؟ وہی دعوت۔ نوح، قوم ثمود (اصحاب الحجر) نے نبی کی تکذیب کی۔ ولقد کذب اصحٰب الحجر المرسلین (حجر) اور عذاب کا شکار ہوئے (کل کذب الرسل فحق وعید)
آج سے پانچ ہزار سال قبل حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ یہی اسلامی مشن لے کر اٹھے تھے۔ تاسیس ِخانہ کعبہ کے وقت ابراہیمؑ کیا دعا کیا تھی؟
(ترجمہ)”بارِالٰہا ہمارے ہاتھ تیری عبادت اور تیرے جلال کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں اسے قبول کر، بے شک تُو ہی دعائوں کا سننے والا اور نیتوں کا دیکھنے والا ہے۔ الٰہی ہم کو اپنا مسلم اور اطاعت شعار بنا، ہماری نسل میں بھی ایک ایسی ہی نسل پیدا کر جو ہماری طرح مسلم و مومن ہو۔
قرآن کریم نے خود ابراہیم کو پہلا مسلم قرار دیا۔اس پہلے مسلم نے اپنی اولاد بنو اسماعیل اور بنو اسحاق کو کیا دعوت دی؟ اسی روح اعظم یعنی اسلام پر جینے اور مرنے کی تلقین فرمائی۔
یہود و نصاریٰ کے اس دعوے کی بھی اللہ نے تردید کردی کہ نجات یہودی یا نصرانی بننے میں مضمر ہے۔ نجات تو صرف اسلام ابراہیمی میں ہے، یہودی و نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی و نصاریٰ بن جائو تاکہ ہدایت پائو۔ لیکن ان سے کہہ دو کہ نہیں، صرف ملتِ ابراہیمی میں تمام ہدایتوں کی حقیقت ہے اور وہ تمہاری طرح مشرکوں میں نہ تھا۔ انہی فاسد عقائد کے ابطال کے لیے اللہ نے مزید واضح کردیا کہ ابراہیم نہ یہودی تھے نہ عیسائی، وہ تو مسلم تھے۔ اللہ نے جس طرح نوح پر سلامتی بھیجی(صفت 77) ۔روزِ قیامت یہی قلب ِ سلیم باعثِ ِنجات ہوگا، نہ کہ مال و دولت یا اولاد (الشعرا)۔ اسماعیل کی قربانی اسی قلبِ سلیم کا مظاہرہ تھا۔
کیا حضرت موسیٰ نوح اور ابراہیم کی دعوت سے کوئی مختلف دعوت لے کر آئے؟ نہیں، ان کا مشن بھی اشاعت ِاسلام تھا۔ دائود کی زبور میں وہی نغمہ عشقِ الٰہی کی سرمستیاں ہیں۔ حضرت سلیمان کی دعوتِ توحید۔ طالوت کی صداقت، دانیال کا وعظ، بربادیِ یروشلم پر یسعیاہ کا نوحہ، بنو اسرائیل کی غلامی پر حزقیل کا مرثیہ۔ زکریا کی فغاں سنجیاں.. سب شرک کی مذمت اور توحید کی تائید میں ہیں۔ عیسیٰ خود شریعت ِموسوی کے مصلح تھے۔ خود صاحب ِشریعت نہ تھے۔ ان کے پاس اپنا قانون نہ تھا، وہ قانون عشرہ موسویہ کے تابع تھے۔ حضرت عیسیٰ نے خود اعلان کیا کہ میرا مقصد اسرائیل کے گھرانے کی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش ہے۔ یعنی بنی اسرائیل کی اصلاح اور مشرکانہ عقائد سے ان کو نجات دلانا ہے۔ اسی لیے انہوں نے بنی اسرائیل کے سوا دیگر قوموں میں وعظ کرنے کی ممانعت کردی۔ بنو اسرائیل کے جرائم خود اتنے تھے کہ ان کی اصلاح سے فرصت محال تھی۔ ان کی سرکشتی نئی نہ تھی۔ قوم کے نجات دہندہ موسیٰ کے خلاف غداری و سرکشی ان کا پہلا شیوہ تھا۔ موسیٰ نے بنی اسرائیل کو آزاد کرانے کی جو تحریک شروع کی اور اللہ کے حکم سے فرعونی مظالم کے خلاف سیاسی مہم شروع کی (اذہب الٰی فرعون انہ طغیٰ (طہ) اور قوم سے مدد طلب کی تو قوم نے پیٹھ پھیرلی اور کہاکہ تم اور تمہارے خدا جاکر لڑیں ہم تویہاں بیٹھے ہیں (فاذہب انت وربک فقاتلا اناہہنا قاعدون (مائدہ) خدا اور اس کے رسول کے خلاف سرکشی کا انجام عذاب کے سوا کچھ نہیں، یہی سنت رہی تھی۔ (سنۃ اللہ فی الذین خلومن قبل ولن تجدلسنۃ اللہ تبدیلا) (احزاب، فاطر، بنی اسرائیل)
نوح، ہود، صالح، ابراہیم، موسیٰ و عیسیٰ تک اللہ کی یہی سنت جاری رہی، نیکوکاروں کو نجات ملی اور سرکشوں کو سزا۔ اسلام کے منکروں کا ہمیشہ یہی انجام ہوا ہے (آل عمران)۔ انبیا اپنی دعوت میں مصروف رہے اور لکم دینکم ولی دین کے اصول پر عمل پیرا رہے اور صرف اللہ سے اجر کے طالب رہے۔اللہ کسی قوم کو سزا اُس وقت تک نہیں دیتا جب تک دعوتِ حق کے ساتھ وہاں اپنے رسل مبعوث نہیں کرتا، تاکہ حجت تمام ہوجائے۔
بنو اسرائیل کو دعوتِ اسلام کے خلاف سرکشی کی کیا کیا سزائیں ملیں۔ دنیا نے دیکھا! خود ہیکل سلیمانی جسے انہوں نے بت کدہ میں تبدیل کردیا تھا، اس طرح عذابِ الٰہی کے ذریعے ہٹایا گیا کہ اس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ نہ صرف فلسطین اور یروشلم عذابِ الٰہی کا شکار رہے بلکہ بنی اسرائیل دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ اس کے برخلاف موحدین بنو اسماعیل کا بنایا ہوا گنبدِ سنحراء معراج کی برکت سے آج تک محفوظ ہے۔ بنی اسرائیل آج اس کو مٹانے کے درپے ضرور ہیں لیکن وہ خود مٹ جائیں گے۔ خانہ کعبہ، چند پتھروں سے چنی ہوئی عمارت اہلِ توحید کا قبلہ ہے۔ فلسطین کو عذابِ الٰہی سے ہمیشہ کے لیے نجات کس نے دلائی؟ پیغمبر اسلام محمدؐ نے! آپؐ کا قدم شبِ معراج وہاں پڑا اور وہ پھر اہلِ اسلام کا قبلہ اولیٰ بن گیا۔ بلکہ خدا اور بندے کے درمیان براہِ راست تعلق قائم کرنے کا زینہ بھی۔ قرآن میں ابراہیمؑ اور محمدؐ کی دعوت میں مشابہت و یکسانیت کے تذکرے جابجا ملتے ہیں۔ بلکہ محمدؐ کی دعوت کو نوح اور ابراہیم کی دعوت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ قرآن میں متعدد انبیا کا ذکر ہے لیکن کسی کی زندگی کو بطور نمونہ پیش نہیں کیا گیا۔ دو ہی انبیا ابراہیمؑ اور محمدؐ ایسے ہیں جنہیں بشریت کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا۔
اللہ اور معاد پر ایمان رکھنے والی امت کے لیے محمدؐ کو بھی نمونہ بتایا گیا(احزاب ( ۔اسلام کے آخری پیامبر محمدؐ کی ذات آفاق کے لیے بشیر و نذیر بنادی گئی۔
موسیٰؑ کو بھی محمدؐ کی بعثت کی خبر دے دی گئی اور عیسیٰ ؑ کو بھی اس ظہورِ قدسی کی اطلاع ملی۔ دینِ اسلام کو آپؐ کی ذات میں مکمل کردیا گیا۔ سیاسیات و اخلاقیات کے جو اجزا شریعت اور عیسوی میں الگ الگ تھے، اسلامِ محمدی میں یکجا کردیئے گئے۔ اسی لیے یہ اعلان بھی کردیا گیا کہ آج تمہارا دین مکمل کردیا گیا۔ نعمت ِالٰہی مکمل ہوگئی۔ تمہارے لیے اسلام کے سوا کوئی دوسرا مذہب عنداللہ قابلِ قبول نہیں۔
(” فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات“۔پروفیسر سید حبیب الحق ندوی)