فنکار درزی

ایک شیریں زبان آدمی رات کو دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر درزیوں کے بارے میں مزے دار قصے سنا رہا تھا۔ داستان گو اتنی معلومات رکھتا تھا کہ باقاعدہ اچھا خاصا درزی نامہ مرتب ہوسکتا تھا۔ جب اُس آدمی نے درزیوں کے چوری اور مکاری سے گاہکوں کا کپڑا غائب کردینے کے ان گنت قصے بیان کر ڈالے، سننے والوں میں ملک ِ خطا کا ایک ترک جسے اپنی دانش اور ذہانت پر بڑا ناز تھا، کہنے لگا ’’اس علاقے میں سب سے گرو درزی کون ہے؟‘‘ داستان گو نے کہا: ’’یوں تو ایک سے ایک ماہرِ فن اس شہر کے گلی کوچوں میں موجود ہیں، لیکن پورش نامی درزی بڑا فنکار ہے۔ اس کے کاٹے کا منتر ہی نہیں۔ ہاتھ کی صفائی میں ایسا استاد کہ کپڑا تو کپڑا آنکھوں کا کاجل تک چرا لے اور چوری کا پتا نہ لگنے دے‘‘۔
ترک کہنے لگا: ’’لگالو مجھ سے شرط، میں اس کے پاس کپڑا لے کر جائوں گا اور دیکھوں گا کہ وہ کیونکر میری آنکھوں میں دھول جھونک کے کپڑا چراتا ہے۔ میاں کپڑا تو درکنار ایک تار بھی غائب نہ کرسکے گا‘‘۔
دوستوں نے جب یہ سنا تو کہنے لگے: ’’اے بھائی زیادہ جوش میں نہ آ۔ تجھ سے پہلے بھی بہت سے یہی دعویٰ کرتے آئے اور اس درزی سے چوٹ کھا گئے۔ تُو اپنی عقل و خرد پر نہ جا، دھوکا کھائے گا‘‘۔ محفل برخاست ہونے کے بعد ترک اپنے گھر چلا گیا، اسی پیچ و تاب اور فکر و اضطراب میں ساری رات گزاری۔ صبح ہوتے ہی قیمتی اطلس کا کپڑا لیا اور پورش درزی کا نام پوچھتا پوچھتا اس کی دکان پر پہنچ گیا۔
درزی اس ترک گاہک کو دیکھتے ہی نہایت ادب سے کھڑا ہوکر تسلیمات بجا لایا۔ درزی نے خوش اخلاقی اور تعظیم و تکریم کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ترک بے حد متاثر ہوا۔ دل میں کہنے لگا: یہ شخص تو بظاہر ایسا عیار اور دغا باز نظر نہیں آتا۔ لوگ بھی خوامخواہ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں۔ یہ سوچ کر قیمتی استنبولی اطلس درزی کے آگے دھر دی اور کہنے لگا: ’’اس اطلس کی قبا مجھے سی دیں‘‘۔
درزی نے دونوں ہاتھ ادب سے سینے پر باندھے اور کہنے لگا: ’’حضور قبا ایسی سیوں گا جو نہ صرف آپ کے جسم پر زیب دے گی بلکہ دنیا دیکھے گی‘‘۔ اس نے کپڑا گز سے ناپا، پھر کاٹنے کے لیے جابجا اس پر نشان لگانے لگا۔ ساتھ ساتھ اِدھر اُدھر کے پُرلطف قصے چھیڑ دیئے۔ ہنسنے ہنسانے کی باتیں ہونے لگیں، جن میں ترک کو بے حد دلچسپی ہوگئی۔ جب درزی نے اس کی دلچسپی دیکھی تو ایک مزاحیہ لطیفہ سنایا جسے سن کر ترک ہنسنے لگا۔ اس کی چندھی چندھی آنکھیں اور بھی مچ گئیں۔ درزی نے جھٹ پٹ کپڑا کاٹا اور ران تلے ایسا دبایا کہ سوائے خدا کی ذات کے اور کوئی نہ دیکھ سکا۔
غرض درزی کی پُر لطف داستان سرائی میں ترک اپنا اصل مقصد اور دعویٰ فراموش کر بیٹھا۔ کدھر کی اطلس، کہاں کی شرط، ہنسی مذاق میں سب سے غافل ہوگیا۔ ترک درزی سے کہنے لگا کہ ایسی ہی مزیدار کوئی اور بات سنائو، واللہ میرا جی خوش ہوگیا۔ درزی نے دیکھا کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے تو ایک قصہ اس سے بھی زیادہ پُرلطف سنایا۔ ترک کا مارے ہنسی کے یہ حال تھا کہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے قہقہے پر قہقہے لگا رہا تھا۔ درزی نے پھر اپنے ہاتھ کی صفائی دکھائی اور ایک اور پیس کاٹ کر ران تلے دبا لیا۔ ترک نے بے تاب ہوکر پھر کہا: کوئی اور بات سنائو۔ درزی نے پھر چرب زبانی کا مظاہرہ کیا۔ ترک اتنا ہنسا کہ اس کی آنکھیں بالکل بند ہوگئیں۔ ہوش و حواس رخصت، عقل و خرد الوداع۔ اس مرتبہ درزی نے پھر کپڑا کاٹ کر ران تلے دبالیا۔ ترک نے جب چوتھی بار مذاق کا تقاضا کیا تو درزی کو کچھ حیا آگئی اور کہنے لگا: مزید تقاضا نہ کر، اگر ہنسی کی اور بات کہوں گا تو تیری قبا تنگ ہوجائے گی۔
درسِ حیات: وہ ترکی کون ہے؟
دغا باز درزی کون ہے؟
قینچی کیا ہے اور وہ قبا کیا چیز ہے؟
وہ غافل ترک تیری ذات ہے، جسے اپنی عقل و خرد پر بڑا بھروسا ہے۔
وہ عیار دھوکے باز درزی یہ دنیائے فانی ہے۔ ہنسی مذاق، نفسانی جذبات ہیں۔
تیری عمر کی اطلس پر دن رات، درزی کی قینچی کی مانند چل رہے ہیں۔ دل لگی کا شوق تیری غفلت ہے۔
اطلس کی قبا تجھے تقویٰ، بھلائی اور نیکی کے لیے سلوانی تھی۔وہ فضول مذاق اور قہقہوں میں تباہ و برباد ہوگئی۔
اے عزیز! اپنے ہوش و حواس درست کر۔ ظاہر کو چھوڑ، باطن کی طرف توجہ کر۔ تیری قیمتی عمر کی اطلس لیل و نہار کی قینچی سے دنیا کا مکار درزی ٹکڑے ٹکڑے کرکے چرانے جارہا ہے، تُو ہنسی مذاق میں مشغول ہے۔
nn