حضرت جنید بغدادیؒ کی وفات

ابو محمد حریری کہتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادیؒ (متوفی 298ھ) کی وفات کے وقت میں ان کے پاس موجود تھا، یہ جمعہ کا دن تھا اور وہ قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے۔ میں نے کہا ’’ابوالقاسم! کچھ اپنی جان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجیے‘‘۔ حضرت جنیدؒ نے جواب دیا:


’’ابو محمد! کیا اس وقت آپ کو کوئی ایسا شخص نظر آتا ہے جو اس عبادت کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو؟ وہ دیکھو میرا نامہ اعمال لپٹ رہا ہے‘‘۔
وفات سے قبل حضرت جنیدؒ نے وصیت فرمائی کہ میری طرف جتنی علم کی باتیں منسوب ہیں اور لوگوں نے انہیں لکھ لیا ہے وہ سب دفن کردی جائیں۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ ’’جب لوگوں کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علم (حدیث) موجود ہے تو میری خواہش یہ ہے کہ اللہ سے میری ملاقات اس حالت میں ہو کہ میں نے اپنی طرف منسوب کوئی چیز نہ چھوڑی ہو۔
وفات کے بعد جعفر خلدیؒ نے انہیں خواب میں دیکھا اور پوچھا:
’’اللہ نے آپ کے ساتھ کیسا معاملہ کیا؟‘‘
حضرت جنیدؒ نے جواب دیا:
’’وہ اشارے ختم ہوئے، وہ عبارتیں غائب ہوگئیں، وہ علوم فنا ہوگئے، وہ نقوش مٹ گئے اور ہمیں نفع پہنچایا تو چند رکعتوں نے جو ہم سحری کے وقت پڑھ لیا کرتے تھے‘‘۔
(تقی محمد عثمانی۔ تراشے)