انٹرنیٹ کی اس دنیا کا تیسرا حصہ جو تاریک نیٹ یعنی ڈارک ویب کہلاتا ہے، انسانوں کے روپ میں چھپے درندوں کی آماج گاہ ہے۔ ایسے وحشی انسان کہ جنہیں دیکھ کر جنگلی درندے بھی خوف کے مارے اپنی کچھاروں میں جادبکیں اور درندگی بھول جائیں۔ تاریک نیٹ کا یہ حصہ ذہنی بیماروں اور انتہاپسندوں کی من پسند جگہ ہے۔ وحشیانہ جبلت کی تسکین کے مکروہ اعمال کی اس دنیا کو کھربوں ڈالر کی دنیا کہا جاتا ہے۔ تاریک نیٹ کے اس حصے میں اسلحہ، منشیات، قومی راز کی خریدو فروخت کے ساتھ ساتھ انسان کو درندگی کی انتہا پر پہنچ کر قتل کرنا، انسانی اعضا کی خرید و فروخت، خواتین اور بچوں کا جنسی تشدد کے بعد قتل اور ان کے اعضا کا استعمال بھی انٹرنیٹ کے اسی حصے سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر انہی تشدد زدہ اعضا کی تشہیر کی بنیاد پر مناظر کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ یہ تشدد پسند نفسیاتی مریض بچوں اور خواتین پر جنسی تشدد کی براہِ راست وڈیوز میں اگر تشدد کرنے والے کے طریقوں سے تسکین نہ پاسکیں تو اسے ٹاسک دے کر بھی تشدد کراتے ہیں۔ جنگلی درندے تو پیٹ بھر جانے پر اپنے شکار کو چھوڑ دیتے ہیں مگر انسان نما یہ درندے مرنے کے بعد بچوں اور خواتین کے مُردہ جسموں کو بھی مختلف استعمال میں لاتے ہیں۔ بین الاقوامی جریدوں کے مطابق 2007ء میں تاریک نیٹ کی اس دنیا سے تعلق رکھنے والے تشدد پسند ذہنی مریضوں کی تعداد 4.5 ملین تھی جو اب پانچ سو سے زائد گنا بڑھ چکی ہے۔ تاریک ویب کی بھیانک جرائم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے بھیڑیوں تک پہنچنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ عام برائوزر اور ویب کے بجائے خصوصی برائوزرز اور آئی پی ایڈریس استعمال کرنے والے یہ درندے سب سے پہلے اپنے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔
بین الاقوامی جریدے مسلسل بتارہے ہیں کہ اس مکروہ دنیا کے لیے خواتین و بچے تیسری دنیا کے ممالک بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان اور نیپال وغیرہ سے اغوا کیے جاتے ہیں۔ ان مجرموں کا طریقہ بھی عام مجرموں سے الگ ہوتا ہے، ایسے بچوں کو ہدف بنایا جاتا ہے جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے پیچھے آواز اٹھانے والے یا تو ہوتے ہی نہیں، یا پھر معاشرے کے بے ضرر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ گھر سے بھاگ جانے والے بچے، فٹ پاتھ پر سونے والے غریب بچے، اور نشہ کرنے والے بچے ایسے گروہوں کا پہلا ہدف ہوتے ہیں۔ ان سب رپورٹوں کے بعد بھی تیسری دنیا کے یہ ممالک اپنے ملک میں ہونے والی اغوا کی واردات کو عام سا جرم قرار دے کر فائل بند کردیتے ہیں۔ بھارت کی آنکھیں تو تب کھلی تھیں جب 2009ء میں ممبئی کے ایک فلیٹ سے 6سالہ رادھا نامی بچی کی لاش ملی جسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، تشدد زدہ لاش کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور نسیں کاٹ دی گئی تھیں۔ بھارتی پولیس نے اس قتل کو کسی نفسیاتی مریض کا عمل قرار دے کر فائل داخلِ دفتر کردی، لیکن پھر ہوا یہ کہ کچھ عرصے بعد ایک ہیکر نے ڈارک نیٹ کی دنیا سے کچھ ڈیٹا چوری کیا تو اس میں رادھا کے ساتھ زیادتی اور اس کے وحشیانہ قتل کی لائیو نشر کی گئی وڈیو بھی شامل تھی۔ جب اس ہیکر نے یہ وڈیو بھارتی حکمرانوں کو دی تو انتظامیہ کو ہوش آیا، مگر جب اس کیس کی دوبارہ تحقیقات کی گئیں تو ایسی ایسی بھارتی شخصیات زد میں آئیں کہ پولیس کو ایک بار پھر فائل بند کرتے ہی بن پڑی۔ رادھا جیسا سلوک ہی پاکستان میں قصور کی زینب کے ساتھ ہوا تھا، مگر یہاں بھی کیس بھارتی پولیس کے سے انداز میں ہی ہینڈل کیا گیا۔ مجرم عمران کو ذہنی مریض قرار دیتے ہوئے سزائے موت دے دی گئی اور سمجھ لیا گیا کہ بات ختم ہوگئی ہے۔ کبھی اس سے آگے کام کرنے کا کسی کو خیال نہ آیا۔ اگر کچھ لائحہ عمل بنا کر اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی تو یقین مانیں زینب کے بعد مزید 33گھرانوں کے بچے ایسے درندوں کی بھینٹ نہ چڑھتے۔
ویسے تو ادارے کسی بھی جرم کی تحقیقات کے دوران کڑیاں ملانے کے عادی ہوتے ہیں، مگر نجانے اپنے بچوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کڑیاں ملانے سے گریز کیوں کرتے ہیں؟ کیوں یہ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ 1999ء میں 100 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر تیزاب میں ڈال دینے اور کسی شرمندگی کے بغیر ایک اخبار کے دفتر پہنچ کر اس بھیانک واردات کا اعتراف کرنے والا جاویداقبال جیل میں کیسے مرا؟ کہا جاتا ہے اُس نے اپنے ساتھی کے ساتھ زہر کھا کر خودکشی کرلی تھی۔ یہی تو حیرت کی بات ہے کہ ایسا شخص جس نے عدالت کی جانب سے سو دفعہ پھانسی دینے کی سزا سن کر بھی کوئی پشیمانی ظاہر نہیں کی، اس نے خودکشی کیسے کرلی! صحافی چلّاتے رہے کہ اس نے مختلف صحافیوں کو بچوں سے زیادتی کے بعد ان کے اعضا فروخت کرنے کے لیے اجسام کی کاٹ پیٹ کے حوالے سے بھی بتایا تھا، مگر صحافیوں کی سنتا کون ہے! کیس بند کیا جانا تھا، سو بند کردیا گیا۔ پھر ”اہلِ علم“ اپنا غصہ یہ کہہ کر بھی نکالتے رہے کہ بچوں سے زیادتی اور ان کے اعضا کی خرید و فروخت میں اہم شخصیات ملوث تھیں اسی لیے کیس بند کرایا گیا، کچھ سیاسی و سرکاری ناموں کی گونج بھی سنائی دی، کئی برطرفیاں بھی سننے میں آئیں۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ اس کے بعد قصورا سکینڈل سامنے آیا جہاں 2015ء میں بچوں سے زیادتی کی وڈیوز پکڑی گئیں، جبکہ ان کے ساتھ یہ عمل 2006ء سے ہورہا تھا۔ یہ وڈیوز کھلے عام فروخت ہوتی رہیں مگر ہمارے ادارے 9 سال میں کوئی سن گن بھی نہ لے سکے۔ یہ نااہلی کا ہی نتیجہ تھا کہ وقفے وقفے سے قصور شہر سے 7 بچیاں اغوا ہوئیں اور زیادتی کے بعد وحشیانہ طریقے سے قتل کردی گئیں۔ شاید زینب کا معاملہ بھی دبا دیا جاتا اگر اس پر سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر آواز نہ اٹھائی جاتی۔ ہمارے معاشرے میں موجود ذہنی مریضوں کی حالت کا اندازہ اٹلی و برطانیہ سے سزا پانے کے بعد پاکستان میں تیس بچوں سے زیادتی کا اعتراف کرنے والے سہیل ایاز کے باپ کا بیان سن کر بھی کیا جاسکتا ہے، جس نے میڈیا کو بڑے بھرم سے کہا تھا کہ ہم ہلکے لوگ نہیں ہیں، ہمارے خاندان کے بیس پچیس لوگ اچھے عہدوں پر ہیں، یہ کوئی اتنا بڑا کیس نہیں ہے جتنا میرے بیٹے کے خلاف شور کیا جارہا ہے۔ اس کی گفتگو سن کر مجھے بزرگوں کے کہے پر یقین ہوگیا کہ گفتگو نسلوں کا پتا دیتی ہے۔
(طارق حبیب۔ دنیا نیوز۔ 8دسمبر2020ء)