سوشل میڈیا قانون سازی عدالت عالیہ اسلام آباد میں ایک اہم مقدمہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا سے متعلق بنائے گئے حکومتی قواعد و ضوابط کے خلاف دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت کرکے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کو سوشل میڈیا قواعد کے حوالے سے پاکستان بار کونسل کے تحفظات کو مدنظر رکھنے کی ہدایت اور جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ سوشل میڈیا سے متعلق بنائے گئے حکومتی قواعد و ضوابط کیس میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ تنقید جمہوریت اور آزادیِ اظہار کا اہم جزو ہے، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، عدالتی فیصلوں پر رائے دی جاسکتی ہے، پی ٹی اے کے لا (LAW) افسر آئندہ سماعت پر عدالت کو مطمئن کریں کہ یہ قواعد وضوابط آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متصادم نہیں ہیں؟ اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جمہوریت میں احتساب کو یقینی بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو معلومات تک رسائی حاصل ہو، جب عدالتوں اور ججوں کو بھی تنقید سے تحفظ حاصل نہ ہو تو حکومت کیسے تنقید سے استثنیٰ لے سکتی ہے!
حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر اپنے شہریوں کی زبان بندی کی خواہش ہمیشہ مطلق العنان بادشاہتوں اور ڈکٹیٹروں کے فرسودہ آمرانہ طرزِ حکومت کا خاصہ ہوتی ہے۔ تنقید اور استفسار کی یہ آزادی حکومتی فیصلوں اور اقدامات کی اصلاح اور بہتری کا ایک خودکار نظام تشکیل دیتی ہے، جبکہ تنقید کے عمل پر پابندیاں عائد کردی جائیں تو چند افراد عقلِ کُل بن کر قوم کی قسمت کے من مانے فیصلے کرنے لگتے ہیں، اور جب ان کے تباہ کن نتائج سامنے آتے ہیں تو ازالے کی کوئی صورت نہیں ہوتی، چنانچہ ان کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں بھی ہر شہری کو حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور اظہار رائے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اسی بنیاد پر پی ٹی اے کی جانب سے سوشل میڈیا پر عائد کی گئی پابندیوں کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی اے کے لا افسر نے آزادیِ اظہار کے حوالے سے بھارت کی مثال دی تو فاضل چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور انہیں آزادیِ اظہار کو دبانے والے ملکوں کی مثالیں دینے سے روک دیا، اور کہا کہ یہاں پر بھارت کا ذکر نہ کریں، ہم بالکل واضح ہیں کہ ہمارے ملک میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے، اگر بھارت غلط کررہا ہے تو کیا ہم بھی اُس کی نقل میں غلط کرنا شروع کردیں؟ ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے نمائندے کے استدلال پر چیف جسٹس کی یہ گرفت درحقیقت وقت کے حکمرانوں کے لیے دعوتِ فکر ہے۔ عدالتِ عالیہ کے سربراہ نے دورانِ سماعت صراحت کی کہ اس ملک میں کوئی بھی قانون اور تنقید سے بالاتر نہیں، پی ٹی اے کو تنقید کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ یہ اظہارِ رائے کا اہم ترین جزو ہے، تنقید سے خوف زدہ ہو نے کے بجائے ہر ایک کو تنقید کا سامنا کرنا چاہیے، عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہوسکتی ہے، صرف فیئر ٹرائل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
تنقیدکی آزادی کے حوالے سے عدالتِ عالیہ اسلام آباد میں زیر سماعت یہ مقدمہ فی الحقیقت نہایت بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ آئینی آزادیوں کا تحفظ عدلیہ کی منصبی ذمہ داری ہے، اور امید ہے کہ یہ مقدمہ اس ضمن میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگا۔ تنقید کے تعمیری ہونے کی شرط بھی دراصل آمرانہ مزاج رکھنے والے حکمرانوں کو ناقدین کے خلاف کارروائی کا بہانہ فراہم کردیتی ہے، حالانکہ انہیں بھی اپنا مؤقف پیش کرنے کی اتنی ہی آزادی حاصل ہوتی ہے جتنی ان کے ناقدین کو۔ لہٰذا یہ شرط بھی غیرضروری ہے۔