دنیا کی طرح وطن عزیز میں کورونا وائرس کی دوسری لہر پہلے سے زیادہتباہ کن اور ہلاکت خیز ثابت ہورہی ہے وائرس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 4 لاکھ 23 ہزار 179 ہے جس میں سے 3 لاکھ 70 ہزار 474 صحتیاب ہوئے ہیں جبکہ اموات کی تعداد 8 ہزار 487 تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ 13 ہزار 932 افراد ایسے تھے جو شفایاب ہوئے، جس کے بعد مجموعی طور پر فعال کیسز 44 ہزار 218 ہوگئے۔
صرف سندھ میں نومبر کے مقابلے میں دسمبر کے پہلے ہفتے میں کورونا وائرس کے7ہزار سے زائد مریضوں کا اضافہ ہوا ہے۔محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دسمبر کے پہلے ہفتے میں کورونا وائرس کے 11,952 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ نومبر کے پہلے ہفتے میں کورونا وائرس کے 3691 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ نومبر کے مقابلے میں دسمبر میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں میں 35 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔سندھ میں دسمبر کے پہلے ہفتے میں 98 افراد کورونا وائرس سے جاں بحق ہوئے جبکہ نومبر کے پہلے ہفتے میں 61 افراد کورونا سے جاں بحق ہوئے تھے۔محکمہ صحت کے مطابق وائرس کی شرح 3.13 فیصد سے بڑھ کر 8.53 فیصد تک جاپہنچی ہے۔ امریکہ میں اس وائرس کے باعث اب تک دو لاکھ 70 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ ایک کروڑ 39 لاکھ سے زیادہ سے زیادہ متاثرین کے ساتھ امریکہ ہی دنیا میں اس وبا کا سب سے بڑا مرکز ہے۔انڈیا 94 لاکھ سے زائد متاثرین کے ساتھ دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے متاثرہ ملک ہے جبکہ اموات کے اعتبار سے برازیل ایک لاکھ 74 ہزار سے زیادہ ہلاکتوں کے ساتھ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔پاکستان میں کورونا کاپہلا کیس 26 فروری 2020 کو رپورٹ ہوا تھا جون میں صورت زیادہ خراب ہوئی اور کیسز عروج پر پہنچ گئے تھے لیکن جولائی میں کیسز میں کمی آئی اور بہت تیزی سے کمی آئی لگنے لگا کورونا ختم ہونے جارہا ہے اور ستمبر تک ایسا ہی رہا لیکن اکتوبر اور خاص طور پر نومبر میں وبا کی شدت میں دوبارہ تیزی آگئی ہے اور پھر حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی بندش کے علاوہ متعدد پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔اس سلسلے میں پنجاب پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ ڈپارٹمنٹ نے ایک کروڑ 10 لاکھ آبادی پر مشتمل صوبائی دارالحکومت لاہور کے مختلف مقامات پر رواں ہفتے ’اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا ہے ۔یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو حکومت کے علم میں ہیں ایک بہت بڑی تعداد ٹیسٹ نہیں کروارہی ہے اور ایک تعداد وہ بھی ہے جو گھروں میں ہی موجود ہیں اور ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق علاج کررہے ہیں۔ماہرین بار بار کہہ رہے ہیں کہ اس دوسری لہر کا ابھی آغاز ہے اور صورت حال اس سے زیادہ خراب ہوسکتی پاکستان کے بڑے شہروں میں ہسپتال بھر چکے ہیں،اور لوگ اپنے عزیز و قارب کو ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال لیے مارے مارےپھر رہے ہیں۔سرکار کے ہسپتال کی یہ صورت حال ہے کہ خیبر ٹیچنگ اسپتال میں آکسیجن کی کمی سے چھ افراد کی اموات ہوئی بعد میں غفلت پر اسپتال ڈائریکٹر سمیت 7 افسران کو معطل کر دیا گیا، حادثے کی وجہ سپلائی چین، فیسلٹی مینجمنٹ کی ناکامی، بیک اپ کا نظام نہ ہونا اور آکسیجن پلانٹ کا نظام ناکام ہوناقرار دی گئی ہے۔آکسیجن کی کمی کی بروقت نشاندہی ہونی چاہے تھی جبکہ اسٹاف کی ٹریننگ نہ ہونے کے باعث بروقت اقدامات نہ اٹھائے جا سکے جس سے یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔یہ صرف ایک ہسپتال کی صورت حال لیکن پورے ملک کے چند سرکاری ہسپتال کو چھوڑ کر جن کی کارکردگی مثالی ہے صورت حال اچھی نہیں ہے ۔اس صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن انتہائی غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں،عمران خان پی ڈی ایم کو ذمہ دار قراردے رہے ہیں کہ اپوزیشن کورونا کا باعث بن رہی ہے ، اور پی ڈی ایم حکومت کو کورونا سے زیادہ خطرناک قراردے کر کہہ رہی ہے کہ جلسے ہر صورت میں ہونگے۔ اور اب لاہور جلسہ ہونے جارہا ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ وزیر اعظم تو خود جلسے کررہا تھا یہ بات ٹھیک بھی ہے تو اگر وزیر اعظم خود بھی جلسے کررہے ہیں تو یہ ان کی اور حکومت کی اخلاقی ساخت خراب ہورہی ہے لیکن ضد میں اپوزیشن بھی ایسے اجتماع کرے جس سے کورونا تیزی کے ساتھ پھیلے تو کسی طور پر درست نہیں کیونکہ ماہرین کہہ رہے ہیں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس لہر میں اموات بھی زیادہ ہورہی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسینیشن کے آغاز کے باوجود کورونا وائرس کی نئی لہر کا مقابلہ صرف عوامی صحت سے متعلق اقدامات اور احتیاط سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ترجمان عالمی ادارہ صحت ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسینیشن کا آغاز اچھی علامت ہے، ویکسینیشن وائرس کیخلاف مددگار بھی ثابت ہوتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسینیشن کے آغاز کے باوجود کورونا وائرس کی نئی لہر کا مقابلہ صرف عوامی صحت سے متعلق حفاظتی اقدامات اور احتیاط سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ویکسین ایک اچھی امید ہے لیکن لگتا ہے یہ بھی عالمی سطح پر سیاست کا شکار ہے اور تیار ہونے کے باوجود اس کا تیزی سے ہر شخص تک پہنچنا مشکل امر نظر آتا ہے ۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کے حکام کورونا وائرس ویکسین کے حصول کے لیے چین، روس سمیت دیگر ممالک سے بات چیت کر رہے ہیں۔ان کے مطابق ویکسین، پاکستان میں آئندہ سال جنوری سے مارچ کے درمیان میں دستیاب ہوجائے گی اور پہلے مرحلے میں طبی عملے اور زیادہ عمر کے افراد کو دی جائے گی۔ ویکسین کب آتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت صورت حال قابو سے باہر ہے جس کا صرف ایک ہی سبب ہے کہ نہ تو عوام احتیاط کررہے ہیںاور نہ ہی حکومت کی کسی جگہ رٹ نظر آتی ہے ایسا لگتا ہے حکومت نے سب کچھ حالات پر چھوڑ دیا ہے ۔کوحکومت کو مزید کورونا کے مریضوں کے علاج کی صلاحیت کو ہنگامی صورت حال کا اعلان کرکے بڑھانا چاہئیے۔ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور میڈیا بھی لوگوں میں شعور پیدا کریں کے وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں یہ ایک حقیقت ہے کہ کورونا کی وبا نے سائینس کو مجبور اور لاچار کردیا ہے اور ابھی تک کورونا پر کوئی حتمی تحقیق سامنے نہیں آسکی ہے لیکن یہ وبایا بیماری
(باقی صفحہ 41پر)
ایک حقیقت ضرور ہے اور لوگ ہمارے اردگرد متاثر ہوکر مربھی رہے عوام کو کورونا ہے یا نہیں کی بحث سے باہر آنا چاہئیے پوری دنیا میں انسان متاثر ہوچکے ہیں اس لیے لوگ ایک وبا کو حقیقت مان کر اس سے بچنے کے لیے احتیاط کریں اور احتیاط کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا کریں کیونکہ پاکستان میں موسم سرما کی آمد ہے اور ایسے میں ہر قسم کی انفیکشنز بڑھ جاتے ہیں اس لیے آنے والے دنوں میں اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہو گی۔اس لیے کم از کم ہاتھ دھوتے رہیں اور ماسک کا استعمال کریں۔ماسک کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کا سستا اور موثر طریقہ ہے ،اس کے استعمال کے فوائد نظر آرہے ہیں اور ماہرین کہہ رہے کہ کسی بھی علاقے میں بڑے پیمانے پر فیس ماسک کا استعمال چند دنوں میں کورونا وائرس کے نئے کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی لاسکتا ہے۔طبی جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع تحقیق میں ایک جرمن شہر میں فیس ماسک کی پابندی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔نتائج سے معلوم ہوا کہ فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دینے پر اس جرمن شہر میں 20 دن کے اندر نئے کیسز کی شرح میں 45 فیصد تک کمی آئی۔محققین نے دریافت کیا کہ اس پابندی کے بعد آنے والے ہفتوں میں نئے کیسز کی تعداد لگ بھگ صفر تک پہنچ گئی۔ خدا نے آزمائش ہے تو وہی راستہ بھی دکھائے گااور جلد اس وبا کا خاتمہ ہوجائے گا۔