خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں آکسیجن ختم ہونے سے جاں بحق ہونے والے 6 مریضوںکی ذمہ داری ہسپتال انتظامیہ نے آکسیجن فراہم کرنے والی کمپنی پر عائد کی ہے، جب کہ صوبائی حکومت نے وزیراعلیٰ کے حکم پر کی جانے والی انکوائری کے نتیجے میں ہسپتال ڈائریکٹر کے علاوہ عملے کے 6 دیگر افراد کو معطل کردیا ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں پانچ مریض کورونا، ایک مریضہ میڈیکل آئی سی یو میں زیر علاج تھی۔ وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کے مطابق رپورٹ سے مطمئن نہ ہوئے تو آزاد انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات خیبرپختون خوا کامران بنگش نے کہا کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ ہسپتال ڈائریکٹر کے مطابق واقعے کی رات آکسیجن کی فراہمی معطل ہونے کے بعد بیشتر مریضوں کو دوسرے وارڈ میں منتقل کیا گیا، جبکہ متعدد مریضوں کو دوسرے ہسپتالوں میں بھی منتقل کردیا گیا تھا، تاہم دوسرے ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کے لیے بیڈز کی کمی کے باعث مریضوں کو علاج کی فراہمی سے معذرت کی گئی۔ ان کے مطابق پاکستان آکسیجن لمیٹڈ کمپنی کی جانب سےفراہمی بروقت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے گزشتہ روز کا اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ آکسیجن ختم ہونے سے 6 مریض جاں بحق ہوئے۔
خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں آکسیجن سے متعلق ابتدائی رپورٹ 92 نیوزکو موصول ہوگئی۔ بعض ذرائع کاکہنا ہے کہ آکسیجن بارہ بجے کم ہونا شروع ہوئی جس پر پلانٹ ٹیکنیشن کو بلایا گیا جو موجود نہیں تھا۔ پلانٹ کے تالے توڑ کر 30 سلنڈر اور گیج حاصل کیے گئے۔ سلنڈروں کو خاکروبوں اور سیکورٹی گارڈ کے ذریعے کورونا وارڈ منتقل کیا گیا۔ آکسیجن پریشر کم ہونے کی سب سے پہلے اطلاع آپریشن تھیٹر سے آئی۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کے باعث مریضوں کی اموات کے واقعے میں ہسپتال کے 7 ذمہ داروں کی معطلی کو ناکافی اور رسمی کارروائی قرار دیتے ہوئے ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کو ہدایت کی ہے کہ ایک ہفتے کے اندر معاملے کی تمام پہلوؤں سے مزید تحقیقات مکمل کرکے غفلت کے مرتکب ذمہ داروں کو ملازمتوں سے فارغ کرنے اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کے لیے ضروری کارروائی عمل میں لائی جائے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ اس مجرمانہ غفلت کے مرتکب افراد کے ساتھ کسی صورت کوئی رعایت نہیں کی جائے گی، اگر بورڈ آف گورنرز نے اس مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی نہیں کی تو صوبائی حکومت اپنی سطح پر ایک آزادانہ تحقیقات کرواکر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال کی حد تک انتظامی کوتاہیوں کی وجہ سے پیش آیا ہے جس کو صوبے میں صحت کے پورے نظام سے جوڑنا درست نہیں، تاہم حکومت اس واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے تمام تدریسی ہسپتالوں کے ایسے معاملات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے گی، اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ آئندہ ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔ وزیراعلیٰ نے اس واقعے سے متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں صوبائی حکومت کی طرف سے فی خاندان دس لاکھ روپے مالی امداد دینے کا اعلان کیا، اور کہا کہ مالی امداد کسی صورت انسانی جانوں کا نعم البدل نہیں ہوسکتی، لیکن یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے مواقع پر متاثرین کے سر پر دستِ شفقت رکھے۔ وزیر صحت کا خیبر تدریسی ہسپتال کے واقعے پر کہنا تھا کہ ایسے واقعات ہوں گے تو ہمارے سرشرم سے جھکیں گے، لیکن تنقید برداشت کرنے کے باوجود نظام کو ٹھیک کرنا ہے کیونکہ صحت کا نظام مضبوط ہوگا تو جانیں بچیں گی، دنیا میں ہسپتالوں کو چلانے کا یہ طریقہ نہیں ہے، اگر مطمئن نہ ہوئے تو حکومت ایم ٹی آئی کو ٹیک اوور کرسکتی ہے۔
خیبر تدریسی ہسپتال پشاور جو صوبے کا طبی سہولیات اور بیڈز کے حوالے سے دوسرا بڑا ہسپتال ہے، اس میں گزشتہ روز آکسیجن کی عدم دستیابی سے چھے مریضوںکی ہلاکت نے جہاں کورونا وبا سے ملک بھر میںبالعموم اور خیبر پختون خوا میں بالخصوص پھیلی غم اور افسوس کی فضا کو مزید گہرا کردیا ہے، وہیں اس سانحے نے موجودہ حکومت کے صحت کے نظام میں اصلاحات اور عام لوگوں کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کے دعووں کا بھرم بھی کھول کر رکھ دیا ہے۔ صوبے کے کسی ہسپتال میں بدانتظامی یا پھر لوگوں کی صحت اور زندگی سے کھیلنے کا نہ تو یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی ہمارے رویوں، نیز ہمارے ہاں رائج صحت کے فرسودہ اور خدمت کے جذبے سے عاری نظام کے حوالے سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا آخری واقعہ ثابت ہوگا، کیونکہ ہم جس نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں اور ہمارے ہاں سرکاری اداروں میں عام لوگوں کا جو استحصال کیا جاتا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی فرد اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا کہ آئندہ ہمارے ہاں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوگا، اور یہ کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو ملنے والی عارضی سزا سے یہ نظام خودبخود ٹھیک ہوجائے گا۔ دراصل خیبر تدریسی ہسپتال میں ہونے والے اس واقعے کے کئی عوامل پر بات ہوسکتی ہے، اور اصل میں ان سب عوامل کی بدولت ہی جو درحقیقت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، یہ سانحہ رونما ہوا ہے۔ لیکن اگر فی الوقت ہم زیادہ تفصیل یا گہرائی میں جائے بغیر اس کے بعض واضح اور ظاہری اسباب پر ہی نظر ڈال لیں تو ہمیں اس طرح کے واقعات کی تہ تک پہنچنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں جو بھی نئی حکومت برسراقتدار آتی ہے اُس کا مطمح نظر حقیقی معنوں میں کبھی بھی فلاحِ عامہ اور لوگوں کی زندگی کو مختلف شعبوں میں بہترین خدمات بہم پہنچانا نہیں رہا، بلکہ ان حکومتوں کے ہر فیصلے اور اقدام کے پیچھے اصل محرک اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کا تحفظ اور اپنے لیے زیادہ سے مفادات کا سمیٹنا ہوتا ہے، لہٰذا جب بھی کوئی حکومت کوئی نیا لائحہ عمل یا پروگرام ترتیب دیتی ہے اُس میں عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ فرد یا پارٹی کی تشہیر کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی مالی منفعت سمیٹنا ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جو بھی نئی حکومت برسرِاقتدار آتی ہے وہ سب سے پہلے عوام الناس سے براہِ راست متعلق دو شعبوں یعنی تعلیم اور صحت کو تختۂ مشق بناتی ہیں۔ موجودہ حکومت جو صوبے میں پانچ سال تک برسراقتدار رہنے والی سابقہ حکومت کا تسلسل ہے، کے بارے میں شروع میں ایک خوش گمانی یہ تھی کہ اسے چونکہ پچھلی حکومت کے برعکس وفاقی حکومت کی حمایت اور سرپرستی بھی حاصل ہوگی اس لیے اس کے وعدوں اور اعلانات پر ماضی کی حکومتوں کے برعکس اعتبار نہ کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ لیکن اگر اس کی کارکردگی کا جائزہ صرف شعبۂ صحت کی حد تک ہی لیا جائے تو نتائج کچھ زیادہ خوشگوار نظر نہیں آئیںگے۔ شعبۂ صحت کو پچھلے کئی سال سے بازیچۂ اطفال بنائے رکھنے کا اندازہ اگر ایک طرف صوبائی وزرائے صحت اور سیکرٹری صحت صاحبان کی بار بار کی تبدیلیوں سے لگایا جا سکتا ہے تو دوسری طرف یہاں بلا سوچے سمجھے پچھلے چند سال کے دوران جو نت نئے تجربات کیے جاتے رہے ہیں اُن سے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ حکومت عوام کی صحت کے حوالے سے کتنی سنجیدہ اور مخلص ہے۔ حکومت کی اس بے اعتنائی کا شاید اس سے بڑا اور کوئی ثبوت نہیں ہوگا کہ صوبے کا صحت کا نظام پچھلے سات سال سے ایک ایسے فرد کے ہاتھوں یرغمال ہے جو نہ صرف یہ کہ دہری شہریت کے حامل ہیں بلکہ اُن کا قیام پاکستان میں کم اور بیرونِ ملک زیادہ ہوتا ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ یہاں حسبِ ضرورت ہی تشریف لاتے ہیں، جبکہ ان کے حوالے سے ایک حیران کن امر یہ بھی ہے کہ ان کا تعلق خیبرپختون خوا کے بجائے پنجاب سے ہے۔ ڈاکٹر ہونے کے علاوہ ان کی واحد اور بڑی قابلیت یہ ہے کہ وہ وزیراعظم کے فرسٹ کزن اور شوکت خانم ہسپتال کے بڑے اسپانسرز میں سے ہیں۔ واضح رہے کہ ان کی تعیناتی اور فیصلوں پر صوبے کے ڈاکٹروں، نرسوں، پیرامیڈیکس اور کلاس فور ملازمین کے ساتھ ساتھ پشاور ہائی کورٹ میں بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، لیکن ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف مسلسل صوبے کے نظامِ صحت کو تلپٹ کرتے ہوئے اس سے انتقام لیتے رہے ہیں بلکہ وفاق میں جب پی ٹی آئی کی حکومت برسر اقتدارآئی تو ان کے لیے ایک نیا عہدہ تخلیق کرکے انہیں ملک کے طبی نظام کا تیاپانچہ کرنے کا ٹاسک بھی سونپا گیا، جس کے مظاہر کئی دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز میں طبی تعلیم کو ریگولیٹ کرنے کے عالمی شہرت یافتہ ادارے پی ایم ڈی سی کو راتوں رات تحلیل کرکے اُس کی جگہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایک نئے ادارے کی تشکیل کے عاجلانہ اور طفلانہ فیصلے کے صورت میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ محکمہ صحت کو تجربہ گاہ بنانے کی اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ محکمہ صحت کے ہزاروں ملازمین پچھلے کئی سال سے بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہیں، بلکہ بددلی اور خوف کی اس فضا کا اثر طبی خدمات اور سہولیات کے متاثر ہونے کی صورت میں بھی سامنے آیا ہے۔ صوبے کے تدریسی ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی کا متنازع نظام متعارف کرائے جانے کے بعد ریجنل اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹیز کے قیام کے ذریعے محکمہ صحت میں جن تجربات کا ڈول ڈالا گیا اس کو تاحال نہ تو طبی ملازمین نے دل سے قبول کیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ عوام کو بہتر طبی خدمات کی صورت میں ملا ہے، جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں بعض رعایتی سہولیات کے خاتمے اور بعض سہولیات کی فیسوں میں کئی گنا اضافے نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے سرکاری ہسپتالو ں میں علاج معالجے کی سہولیات کو عام لوگوں کی دسترس سے باہر کردیا ہے۔ زیر نظر واقعے کا ملبہ روایتی طور پر ہسپتال کی انتظامیہ پر گرا کر ان ملازمین کی معطلی کے ذریعے صوبائی حکومت نے صحت کے تعفن زدہ نظام کی جو پردہ پوشی کی ہے اور اس میک اپ کے ذریعے اس بوسیدہ نظام کے بھیانک چہرے کو جس روایتی انداز میں چھپانے کی کوشش کی گئی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہاںکسی کو بھی عام لوگوں کی زندگیوںکے تحفظ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ محض لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کیاگیا ہے لہٰذا اگر ہم حقیقی معنوں میں معاشرے کے عام لوگوں کو صحت کے حوالے سے کوئی ریلیف دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سطحی فیصلوں کے بجائے مسائل کی جڑوں تک پہنچ کر زمینی حقائق کی روشنی میں بڑے بڑے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
nn