اردو ہے میرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
میں میرؔ کی ہمراز ہوں غالبؔ کی سہیلی
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی
اردو ہے میرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
آرٹس کونسل کراچی میں کورونا کے باعث سخت حفاظتی انتظامات میں ڈیجیٹل تیرہویں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد ہوا، جس میں شہر کی معروف علمی، ادبی شخصیات نے شرکت کرکے اپنی علم دوستی کا ثبوت دیا۔ افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کے صوبائی وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ نے… جو کہ ایک علمی، ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں… کہا کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ اردو کانفرنس میں ہمیشہ مَیں ایک وزیر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ادب کے شاگرد کے طور پر شریک ہوتا ہوں اور اپنے دانشوروں سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں، کیونکہ وزیر کی زندگی بہت مختصر جب کہ دانشوروں کی حیات ابدی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو پاکستان کو جوڑنے کی زبان ہے۔ عالمی اردو کانفرنس میں تمام زبانوںکے سیشنز منعقد کرنا دراصل حقیقی پاکستان کی عکاسی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم بہت جلد کراچی میں آرٹ یونیورسٹی کا قیام عمل میںلائیں گے۔ افسوس کا مقام ہے کہ دیگر زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے کا بل پچھلے دس سال سے اسمبلیوں میں رُل رہا ہے، اسے کبھی سینیٹ اور کبھی قومی اسمبلی میں بھیجا جاتا ہے، مگر حتمی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ اگر بھارت 26 زبانوں کو قومی زبان قرار دے سکتا ہے تو ہم اپنی مقامی زبانوں کو کیوں قومی قرار نہیں دے سکتے؟ انہوں نے ادیبوں، دانشوروں کو متوجہ کیا کہ سندھ میں بارہ ہزار نجی اسکولوں میں پینتیس لاکھ طلبہ پڑھتے ہیں اور بیشتر اسکولوں میں اردو اور سندھی نہیں پڑھائی جاتی۔ حکومت نے تو 1972ء میں ہی اردو اور سندھی پڑھانے کا بل پاس کیا لیکن آج تک نجی اسکولوں کی زیادہ توجہ انگریزی سکھانے پر ہے۔ آج آپ پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ آپ دیکھیں کہ ان کے بچے اسکولوں میں اپنی مادری زبان بھی پڑھتے ہیں کہ نہیں؟ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی نسل کو اردو اور سندھی بھی پڑھنا نہ آئے۔
صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ تیرہویں عالمی اردو کانفرنس کا تھیم زبانوں، فنونِ لطیفہ و ثقافت کے سو برس ہیں۔ ہماری ثقافت کسی ایک زبان پر نہیں کھڑی، بلکہ تمام زبانوں کا گلدستہ ہے۔ زبانوں کے نام پر جو سیاست کرنا چاہتے ہیں یہ اُن کا جھگڑا ہے، یہ لوگ نہیں چاہتے کہ تمام لوگ ایک مرکز پر بیٹھیں۔ انہوں نے بتایا کہ حالات بہتر ہونے پر ہم مارچ میں قومی ثقافتی کانفرنس منعقد کریں گے اور اس کانفرنس میں بھی تمام زبانوں پر بات ہوگی۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت محترمہ زہرہ نگاہ نے کی، جب کہ پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، شاہ محمد مری، نورالہدیٰ شاہ، یوسف خشک، پروفیسر سحر انصاری کے علاوہ ڈیجیٹل لنک پر گوپی چندنارنگ، افتخار عارف، شمیم حنفی، یاسمین حمید و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ افتتاحی تقریب کی ابتدا قاری حامد محمود قادری نے تلاوتِ کلام پاک اور نعتِ مبارکہ سے فرمائی۔ تقریب کی نظامت ہما میر نے کی۔ اس موقع پر مقررین نے صدر محمد احمد شاہ کی خدمات کو سراہا جو وہ آرٹ اور آرٹس کونسل کے لیے کررہے ہیں۔ انہوں نے جن مشکل مراحل سے گزر کر یہ کانفرنس منعقد کی وہ ادب و ثقافت کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے۔ مقررین نے آرٹس کونسل لائبریری کا نام ’’جوش ملیح آبادی لائبریری‘‘ اور لان کو ’’جون ایلیا‘‘ کے نام سے منسوب کرنے کو بھی سراہا۔
اس کانفرنس میں 32 اجلاس منعقد ہوئے، اور 21 کتابوں کی رونمائی ہوئی۔ ان نئی کتابوں اور ان کے مصنفین کے نام ہیں:
’’ارژنگ‘‘ مبین مرزا، ’’نئی زبان کے حروف‘‘ ناصر عباس نیر، ’’دو پاکستان‘‘ کاظم سعید، ’’کلامِ رابعہ پنہاں‘‘ حمرا خلیق، ’’بارش بھرا تھیلا‘‘ مسعود قمر، ’’کنول، پھول اور تتلیوں کے پنکھ‘‘ طاہرہ کاظمی، ’’درویش نامہ‘‘ اقبال نظر، ’’گوشۂ دل‘‘ حمرا خلیق، ’’اوجِ کمال‘‘ سیدہ ہما طاہر، ’’جمال آب سے وصال‘‘ صابر ظفر، ’’اداسی کے گھائو‘‘ عذرا عباس، ’’دریا کی تشنگی‘‘ کشور ناہید، ’’کلیاتِ جوش‘‘، ’’اور پھر یوں ہوا‘‘ مظہر عباس، ’’خواب ریزے‘‘ کرامت بخاری، ’’شاعر، مصور، خطاط صادقین‘‘ سلطان احمد نقوی، ’’راگنی کے کھوج میں‘‘ نجیبہ عارف، ’’امرتسر آگیا ہے‘‘ مترجم انعام ندیم، ’’دنیازار‘‘ آخری شمارہ آصف فرخی، ’’نمی دانم‘‘ شکیل جاذب اور ’’سہ ماہی ورثہ نیویارک‘‘ نصیر وارثی۔
بیادِ رفتگاں میں آصف فرخی مرحوم کے بارے میں زہرہ نگاہ، شمیم حنفی، افتخار عارف، افضال احمد سید، فاطمہ حسن، عذرا عباس، مبین مرزا، شیر شاہ سید، امینہ سید، غزل آصف، وجاہت مسعود نے گفتگو کی۔ جب کہ ندیم ظفر صدیقی کی نظامت میں ’’مسعود مفتی مرحوم‘‘، ’’مظہر محمود شیرانی‘‘، ’’سرور جاوید‘‘، ’’پروفیسر عنایت علی خان‘‘، ’’راحت اندوری‘‘، ’’اطہر شاہ خان جیدی‘‘ پر مختلف معاصرین نے گفتگو کی۔
’’نعتیہ اور رثائی ادب کی ایک صدی‘‘ میں ریاض مجید، کاشف عرفان، فراست رضوی اور شہزاد احمد نے اظہارِ خیال کیا۔ صدارت ڈاکٹر عالیہ امام، محمد رضا کاظمی، صبیح رحمانی نے کی۔ نظامت عزیز الدین خاکیؔ، ’’سرائیکی تریمت، کل، آج تے صباحیں‘‘ میں عابدہ بتول، کرن لاشاری، سعدیہ شکیل، نسرین گل نینا نے اظہار ِخیال کیا۔ نظامت ساجدہ پروین نے کی۔ ’’بلوچی زبان و ادب کے سو برس‘‘ میں شاہ محمد مری، افضل مراد نے گفتگو کی۔ نظامت کے فرائض وحید نور نے انجام دیئے۔ ’’سندھی زبان و ادب کے سو برس‘‘ میں کلیدی مقالہ جامی چانڈیو نے پڑھا، جب کہ سید مظہر جمیل، امداد حسینی، نورالہدیٰ شاہ، قاسم بگھیو، غلام اکبر لغاری نے اظہار خیال کیا۔ نظامت ایوب شیخ نے کی۔ ’’پشتو زبان و ادب کے سو برس‘‘ میں اباسین یوسف زئی نے گفتگو کی، میزبان فوزیہ خان تھیں۔ ’’پنجابی ادب کے سو سال‘‘ میں ثروت محی الدین، بشریٰ اعجاز، صغری ٰصدف، توقیر چغتائی، بشریٰ ناز نے گفتگو کی، نظامت عاصمہ شیرازی نے کی۔ ’’ہماری تعلیم کے سو برس‘‘ میں پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، امینہ سید، یوسف خشک (چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان)، نعمان احمد، اعجاز احمد فاروقی نے گفتگو کی۔ نظامت و مقدمہ سید جعفر احمد نے پیش کیا۔ ’’نوجوانوں کا مشاعرہ‘‘ میں شکیل خان کی خوبصورت نظامت میں مقامی شعرا نے کلام پیش کیا۔
جب کہ عالمی مشاعرہ میں عنبرین حسیب عنبر کی نظامت میں ملک کے معروف شعرائے کرام نے کلام پیش کیا۔ ’’یارکشائر ادبی فورم‘‘ کی صدارت پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کی، جب کہ معروف دانشور، نقاد ڈاکٹر یونس حسنی اور آزاد کشمیر مظفر آباد کے معروف شاعر محمد یامین کو اعترافِ کمال ایوارڈ دیے گئے۔ میزبان تھیں غزل انصاری۔ اس کانفرنس میں آزاد کشمیر سے خواجہ خورشید احمد اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے۔ راقم سے گفتگو میں انہوں نے فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہونے والے تبصرۂ کتب اور ادبی رپورٹوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم انٹرنیٹ پر اسے باقاعدگی سے دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ ’’بچوں کا ادب‘‘ میں رضا علی عابدی، محمود شام، رئوف پاریکھ، نیر رباب، پروفیسر سلیم مغل نے گفتگو کی، میزبان تھے علی حسن ساجد۔ رئوف پاریکھ نے کہا کہ ’’کہانی کہنا اور سننا انسان کی فطرت ہے۔ کہانیوں سے بچوں کی اخلاقی و دینی تربیت بھی ہوتی ہے۔ بڑے ادیب اگر بچپن میں کہانیاں نہ سنتے اور پڑھتے تو وہ ادیب نہیں بن سکتے تھے۔ پڑھنے لکھنے سے ہی بڑی قوم بنتی ہے‘‘۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ آرٹس کونسل ہر سال بچوں کے لیے ایک کتاب شائع کرے گی اور بچوں کے ایک رسالے کی بھی معاونت کرے گی۔
اختتامی اجلاس سے قبل معروف اداکار سہیل احمد (عزیزی) کے ساتھ نشست منعقد ہوئی۔ میزبانی اداکار یاسر حسین نے کی۔ سہیل احمد نے کراچی کو پاکستان کا چہرہ قرار دیا۔ اختتامی اجلاس میں صدر آرٹس کونسل محمود احمد شاہ نے قراردادیں پیش کیں:
٭کورونا کی اس عالمی وبا کی دوسری لہر کے دنوں میں حکومت عوام خصوصاً نچلے طبقے کی روزمرہ ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر ممکن حفاظتی حکمت عملی تیار کرے، اور عوام کو مفت ویکسین کی فراہمی کا انتظام کیا جائے۔
٭اہلِ کشمیر کے انسانی حقوق اور حقِ خودارادیت کو فوری بحال کیا جائے۔
٭ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، فنکاروں کے باہمی میل جول اور انفرادی و اجتماعی ملاقاتوں کے لیے آمد و رفت ویزا کے حصول کو آسان کیا جائے۔ نوجوانوں کو اپنی تہذیب اور ثقافتی اقدار سے روشناس کرانے کے لیے حکومتی سطح پر خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ پورے ملک میں ایک ہی تعلیمی نظام رائج کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر ’’دارالترجمہ‘‘ قائم کیے جائیں۔ کتاب کلچر کے فروغ کے لیے کالجوں، یونیورسٹیوں کے ساتھ پبلک لائبریریوں کو نئی کتابوں کی فراہمی کا مستقل بنیادوں پر بندوبست کیا جائے۔ ملک میں ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اردو اور دوسری قومی زبانوں کے ادیبوں، شاعروں کا میل جول بڑھایا جائے۔ صوبوں کے مابین ان کے دورے کرائے جائیں۔ پرائمری تک مادری زبان میں تعلیم کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کیا ہے اور حکومتی سطح پر بھی اس کا اعلان کیا گیا ہے، اب اس پر عمل درآمد کے لیے ضروری اور سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔
٭ہم ذرائع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ زبان کی درستی اور تہذیبی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرے۔
کانفرنس کے شرکاء نے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے غیرمعمولی حالات میں کانفرنس کا انعقاد کیا۔ محمد احمد شاہ نے کہا کہ آئندہ سال چودھویں عالمی اردو کانفرنس 2 تا 5 دسمبر کو منعقد ہوگی۔ جب کہ کورونا کی وبا اگر کنٹرول میں آجاتی ہے تو ہم 23 مارچ سے پہلے ’’قومی ثقافتی کانفرنس‘‘ منعقد کریں گے، جس میں تمام زبانوں اور ثقافتوں کو جمع کیا جائے گا۔ کورونا کی صورت حال کی وجہ سے کانفرنس سخت حفاظتی انتظامات میں منعقد ہوئی۔ میڈیا سیل کے بشیر سدوزئی اور مس شہلا نے صحافیوں کے لیے خصوصی نشست گاہ کا اہتمام کیا۔
nn