عبدالقادر حسنبااصول، معتبر صحافی

یہ نوازشریف کا بطور وزیراعظم پہلا دورِ حکومت تھا۔ پنجاب میں غلام حیدر وائیں وزیراعلیٰ اور میاں اظہر گورنر تھے۔ نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر، یا وائیں کی طنابیں کھینچنے کی اپنی خواہش پر وزیراعلیٰ کے کچھ اختیارات کم کردیے تھے، جس پر وائیں کچھ جزبزبھی تھے۔ جبکہ نوازشریف خود وزیراعظم ہوتے ہوئے اپنے اختیارات کے علاوہ دوسروں کے اختیارات بھی استعمال کرنے کے عادی تھے۔ انہوں نے پنجاب کے کچھ اضلاع میں امن وامان کی صورتِ حال کی بہتری اور لاقانونیت کے خاتمے کے نام پر وزیراعلیٰ کے اختیارات گورنر پنجاب کو منتقل کردیے۔ یقیناً یہ کام کسی ضابطے کی کارروائی کے بجائے زبانی ہوا ہوگا۔ کونسلر کی ذہنی سطح کے حامل میاں اظہر سستی شہرت کے طلب گار تھے۔ چنانچہ انہوں نے وسطی پنجاب کے کچھ اضلاع میں اپنی ہی پارٹی کے منتخب ارکان کے خلاف کلہاڑا اُٹھا لیا۔ یقیناً ان ارکان کے خلاف کچھ شکایات موجود ہوں گی، مگر میاں اظہر نے تحقیقات اور قانونی کارروائی کرنے کے بجائے میڈیا ٹرائل کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اس زد میں آنے والے پہلے شخص حافظ آباد مسلم لیگ (ن) کے رکنِ پنجاب اسمبلی مہدی بھٹی تھے۔ وہ کوئی روایتی سیاست دان نہیں تھے، 1979ء میں پہلی بار ضلع کونسل گوجرانوالہ کے رکن کے طور پر سامنے آئے تھے۔ پھر انہوں نے 1983ء کا بلدیاتی انتخاب جیتا، اور 1985ء، 1988ء اور 1990ء کے عام انتخابات میں ڈویژن اور ضلع کے روایتی سیاست دانوں کو شکست دے کر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ ہر دم عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیے سرگرم تھے۔ اپنے علاقے حافظ آباد اور پنڈی بھٹیاں میں رشوت خور اور کام چور اہل کاروں کا انہوں نے جینا دوبھر کردیا تھا۔ پولیس کی زیادتیوں اور واپڈا کے عملے کی رشوت ستانی کے خلاف انہوں نے کھلم کھلا آواز اٹھائی تھی۔ ایک گائوں میں ٹرانسفارمر لگانے پر واپڈا کے عملے نے پورے گائوں سے کثیر رقم اکٹھی کی۔ انہوں نے نہ صرف یہ رقم واپس کروائی بلکہ واپڈا اہلکاروں کی سرزنش بھی کی۔ علاقے کے روایتی سیاست دان پہلے ہی اُن کے مخالف تھے، انہوں نے سیاسی اہلکاروں کے ساتھ مل کر مہدی بھٹی کے خلاف ایک پراپیگنڈہ مہم چلائی، لیکن عوام انہیں بھاری اکثریت سے انتخاب جتواتے رہے۔ ہر انتخابی مہم میں ان کے خلاف ایسی خوفناک مہم چلائی جاتی کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے، مگر مہدی بھٹی جو 1985ء کے انتخاب میں آزاد حیثیت میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، بعد میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور پھر تحریک انصاف میں شامل رہے۔ ہر بار ایسا ہوتا کہ وہ جس پارٹی میں موجود ہوتے، ضلع کے روایتی سیاست دان انہیں اپنی ہی پارٹی کے ٹکٹ سے محروم کرا دیتے۔ چنانچہ وہ کسی مخالف جماعت میں شامل ہوتے اور انتخاب جیت جاتے۔ اُن کا دعویٰ ہوتا کہ ان کے مقابلے میں نوازشریف اور بے نظیر بھی انتخاب جیت جائیں تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ ان کے مخالفین ہر انتخاب کے موقع پر ان کے خلاف رکیک اور خوفناک الزامات پر مبنی جو مہم چلاتے، گورنر پنجاب میاں محمد اظہر نے اُن ہی الزامات کی بنا پر اُن کے خلاف پہلے میڈیا مہم چلائی اور پھر قانونی کارروائی کی۔ اُن پر ڈکیتی، لوٹ مار، زنا کے علاوہ ایک بھری بارات سے دلہن کے اغوا کا الزام بھی میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا۔
دوسری جانب مہدی بھٹی کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ وزیراعلیٰ وائیں اپنی ہی پارلیمانی پارٹی کے رکن سے ملاقات نہیں کررہے تھے، گورنر اُن کی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔ میڈیا اُن کے خلاف خام صحافیوں سے خبری مہم چلا رہا تھا، جسے کالم نگار کسی تحقیق کے بغیر آگے بڑھا رہے تھے۔ علاقے کے عوام تو مہدی بھٹی کے ساتھ تھے، مگر انتظامیہ، روایتی سیاست دان اور ایجنسیاں سب اُن کے خلاف سرگرم تھے۔ میڈیا اُن کا نقطہ نظر تک شائع نہیں کررہا تھا۔ ایسے میں ایک صحافی دوست کے ذریعے مہدی بھٹی نے مجھ سے رابطہ کیا۔ میں اس میدان میں کوئی مؤثر آدمی نہیں تھا۔ مہدی بھٹی کا کہنا تھا کہ میڈیا اُن کی بات سن لے اور اگر مناسب سمجھے تو اُسے شائع بھی کردے۔ مگر ایسا ہو نہیں سکا تھا۔ مہدی بھٹی کے خلاف کالم لکھنے والوں میں جناب عبدالقادر حسن بھی شامل تھے۔ مہدی بھٹی نے کسی طرح اُن سے ملاقات کا وقت لے لیا۔ اس ملاقات میں مَیں بھی شامل تھا۔ مہدی بھٹی کی بات سننے کے بعد عبدالقادر حسن صاحب نے افسوس کا اظہار کیا کہ انہوں نے کسی تحقیق کے بغیر محض بعض خبروں پر یہ کالم لکھ دیا۔ چنانچہ انہوں نے مہدی بھٹی کا جوابی خط بھی اپنے کالم میں من و عن شائع کردیا جو عملاً اُن کے پہلے کالم کی تردید تھی۔ اس ملاقات میں مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ بڑا صحافی کیسا ہوتا ہے، وہ جو اپنے مؤقف پر ضد نہیں کرتا، کوتاہی کو تسلیم کرلیتا ہے اور دوسرے کے نقطہ نظر کو شاملِ کالم کرنا اپنی توہین نہیں سمجھتا۔ اس ملاقات کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ وہ بااصول اور معتبر صحافی ہیں۔ اس واقعے سے پہلے اور بعد میں اُن سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر بار وہ محبت سے ملتے، ’’تاثیر بھائی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے، اور احساس ہوتا کہ وہ سرگودھا کے پتھریلے علاقے وادی سون کے لحیم شحیم اعوان ہونے کے باوجود انتہائی شفیق اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔
جناب عبدالقادر حسن سے میرا ابتدائی تعارف اُن کے کالموں کے مطالعے سے بھی پہلے ہوگیا تھا۔ وہ 1970ء کی دہائی کے قدآور اور جرأت مند صحافی تھے۔ سندھ کی شہری آبادی کے لوگ چونکہ مزاجاً اپوزیشن مائنڈڈ ہیں، اس لیے ان علاقوں میں آباد ہمارے اعزہ لاہور آتے تو عبدالقادر حسن صاحب سے ملاقات یا کم از کم اُن کی زیارت کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے۔ مگر ہماری اُن تک رسائی نہیں تھی، لیکن اپنے عزیزوں کی اس عقیدت اور وارفتگی سے اندازہ ہوتا تھا کہ عبدالقادر حسن اپنے قارئین کے دلوں میں بستے ہیں۔ یہیں سے اُن کے کالم پڑھنے کا چسکا پڑا جو تاحال جاری ہے۔ ان ہی دنوں مولانا مودودیؒ کے انٹرویوز پر مبنی ایک کتاب شائع ہوئی تو مجھے ذاتی طور پر اس کتاب میں حسنین ہیکل اور عبدالقادر صاحب کے انٹرویوز نے متاثر کیا۔
1930ء میں سنگلاخ پہاڑیوں کی وادیٔ سون کے ایک صحت افزا گائوں میں پیدا ہونے والے عبدالقادر صاحب نے جن کا اصل نام ملک عبدالقادر بخش اعوان تھا، ابتدائی تعلیم گھر اور گائوں میں حاصل کی۔ ان کا زمیندار گھرانہ دینی روایات سے جڑا ہوا تھا۔ چنانچہ انہوں نے کسی کالج یا یونیورسٹی کے بجائے ایک دینی مدرسے سے درسِ نظامی کی تعلیم مکمل کی۔ دورانِ تعلیم ہی انہوں نے عربی اور فارسی زبانوں پر دسترس حاصل کرلی۔ وہ ہماری صحافت کی اُس آخری لاٹ کا حصہ تھے جس کی تحریروں میں عربی زبان اور فارسی ادب کا رنگ نمایاں ہوتا۔ اُن کا اردو ادب اور شاعری کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ اوائل جوانی میں اُن کے چہرے پر داڑھی بھی ہوتی تھی اور اُن کی شخصیت اور عادات و اطوار میں دینی رنگ بھی غالب تھا۔ وہ اُس دور میں جماعت اسلامی کے رکن بنے جب رکن بننا خاصا مشکل تھا۔ بعد میں انہوں نے رکنیت تو چھوڑ دی لیکن جماعت سے اُن کی محبت آخری دم تک قائم رہی۔ دیگر دینی جماعتوں کے ساتھ بھی اُن کا محبت کا رشتہ تھا۔ انہوں نے شاید کچھ عرصہ جماعت اسلامی کے پرچوں ’’کوثر‘‘ اور ’’تسنیم‘‘ میں بھی کام کیا۔ لیکن ان کی اصل صحافت کا آغاز 1960ء کی دہائی میں ہفت ’’روزہ لیل و نہار‘‘ سے ہوا جس کے ایڈیٹر جناب فیض احمد فیضؔ تھے۔ 1970ء میں وہ روزنامہ ’’ندائے ملت‘‘ کے شعبہ رپورٹنگ سے وابستہ ہوگئے۔ ’’ندائے ملت‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ کے ادغام کے بعد نوائے وقت میں آگئے۔ یہی اُن کی صحافت کا سنہری دور تھا۔ انہوں نے اپنی محنت، لگن، جرأت اور اسلوب سے رپورٹنگ خصوصاً سیاسی رپورٹنگ کی عزت و توقیر میں اضافہ کیا۔ اُس زمانے میں لاہور کے موجودہ آواری ہوٹل کی جگہ پر ہوٹل نیڈرز ہوتا تھا۔ یہیں انہوں نے بعض دیگر اخبار نویسوں کے ساتھ مل کر لاہور پریس کلب کی بنیاد رکھی۔ سیاسی اور پارلیمانی رپورٹنگ کے دوران انہوں نے بعض نئی سیاسی و صحافتی اختراعات بھی وضع کیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے ابتدائی دور میں کابینہ کے ارکان کے لیے چینی طرز کا بند گلے کا کوٹ پتلون متعارف کرایا، وہ خود بھی یہ لباس پہنتے تھے۔ عبدالقادر حسن نے اس لباس پر بینڈ ماسٹرز یونیفارم کی پھبتی کسی جو اُس وقت خاصی مقبول ہوئی۔ وہ اُس دور میں آزادیِ صحافت کی لڑائی لڑنے والے نوائے وقت گروپ کے ہراول دستے میں شامل تھے، لیکن حکومت کی تمام تر مخالفت کرنے کے باوجود ادب و احترام کا دامن تھامے رکھتے۔ وہ طویل عرصے تک روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر رہے۔ اس دوران انہوں نے ’’سیاسی باتیں‘‘ کے نام سے اپنا کالم شروع کیا جو سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بے حد مقبول ہوا۔ ان کالموں میں وہ عام طور پر خبروں کی اندرونی کہانی بیان کرتے یا اُن واقعات کو زیربحث لاتے جو خبروں کا حصہ بننے سے رہ جاتے تھے۔ بھٹو حکومت اور تحریک نظام مصطفیٰ کی بیشتر اندرونی کہانیوں کے وہ واقعاتی شاہد تھے۔ 1977ء میں ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد بھی وہ کچھ عرصے تک نوائے وقت میں چیف رپورٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس دوران اُن کا کالم ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے لگا، مگر پھر انہوں نے نوائے وقت چھوڑ کر کمرشل بلڈنگ لاہور سے اپنا ہفت روزہ ’’افریشیا‘‘ جاری کرلیا جو بوجوہ نہ چل سکا۔ بعد میں اس پرچے کو بیدار ملک مرحوم نے ان سے لے کر چلانے کی کوشش کی مگر وہ بھی ناکام رہے۔ اس دوران عبدالقادر حسن کو پریس ٹرسٹ کے اخبار روزنامہ ’’امروز‘‘ کا ایڈیٹر انچیف مقرر کردیا گیا۔ تین چار سال تک انہوں نے یہ ذمہ داری نبھائی۔ 1981ء میں لاہور سے روزنامہ جنگ کے اجرا کے بعد انہوں نے اس اخبار میں ہمزاد کے قلمی نام سے اپنا کالم ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ جاری کیا جو جنگ کے بعد اُن کی موت تک روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوتا رہا۔ افریشیا کے بعد انہوں نے ’’آواز جہاں‘‘ کے نام سے بھی ایک میگزین شروع کیا۔ ان دونوں پرچوں سے شاید انہیں تو کوئی آمدنی نہ ہوتی ہو، مگر عملے کو وہ ہمیشہ بروقت معاوضہ ادا کردیتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ جج اپنے فیصلوں میں بولتے ہیں، عبدالقادر حسن بھی اپنے کالم میں بولتے تھے۔ عام زندگی میں وہ بہت کم گو تھے۔ پریس کانفرنس اور مجالس میں بھی شاذ ہی کوئی بات کرتے۔ بیدار ملک نے روزنامہ امروز کے ایڈیٹر بننے پر اُن کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ وہ تقریب میں آ تو گئے مگر لوگوں کی باتیں سنتے اور خود خاموش بیٹھے رہے۔ عباس اطہر کے پروگرام ’’قلم کار‘‘ میں بھی وہ بہت کم گفتگو کرتے تھے۔
جس طرح آج کی صحافتی دنیا میں جناب نجم سیٹھی کی چڑیا مشہور ہوئی ہے، عبدالقادر حسن نے اپنے کالموں میں بھولا کے نام سے ایک کردار متعارف کرایا تھا جس کے منہ سے وہ بڑی بڑی باتیں کہلوا دیتے تھے۔ عام تاثر تھا کہ یہ کوئی خیالی کردار ہے، لیکن بھولا ایک جیتا جاگتا ایکسائز انسپکٹر، عبدالقادر حسن کا دوست اور بہت حاضر جواب انسان تھا۔
ایوبی دور میں سیاسی اور انتظامی ضرورتوں کے تحت ’’محمد خاں ڈاکو‘‘ نامی ایک شخص کو خوف کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔ اخبارات میں اس کے دیومالائی قصے شائع ہوتے تو لوگ مزید خوف زدہ ہوجاتے۔ محمد خاں جناب عبدالقادر حسن کے علاقے خوشاب کا رہنے والا تھا۔ وہ طویل قید کے بعد رہا ہوا تو عبدالقادر حسن اسے لاہور لائے اور آواری ہوٹل میں بھولا سمیت اپنے بہت سے دوستوں سے اُس کی ملاقات کرائی۔
اسلام، پاکستان، نظریۂ پاکستان اور ایٹمی پروگرام کے ساتھ عبدالقادر حسن کی محبت لازوال تھی۔ ایٹمی پاکستان کے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ وہ اپنی موت تک کھڑے رہے اور برے وقتوں میں بھی اُن کا ساتھ دیا۔
روزنامہ امروز کی ادارت سے فراغت کے بعد وہ عملاً گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ آنکھوں کی تکلیف انہیں پہلے ہی تھی جس کے بارے میں وہ کہتے تھے اس معاملے میں وہ خان عبدالولی خان کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ بھی آشوبِ چشم کی اسی بیماری کا شکار تھے۔ عبدالقادر حسن نے اپنی زندگی کے 20 سال اپنے گھر میں گزار دیے، اس دوران وہ بہت کم باہر نکلتے۔ سال چھے مہینے میں گائوں جاتے تو اس کا احوال اپنے کالم میں لکھ دیتے۔ البتہ اخبار بینی اور کتب بینی انہوں نے آخری وقت تک کالم نویسی کی طرح جاری رکھی۔
اپنی موت سے صرف دو روز قبل روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے اُن کے آخری کالم کا عنوان تھا ’’اچھا دوستو، خدا حافظ‘‘۔ اپنے دیرینہ صحافتی و سیاسی ساتھیوں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، سید سعود ساحر اور چودھری انور عزیز کے انتقال پر دل گرفتگی کے عالم میں انہوں نے لکھا تھا ’’جو لوگ چلے جاتے ہیں اُن کے لیے ہمارے پاس اس کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا کہ ہم بہ چشمِ غم اُن کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ انہیں اچھے الفاظ میں یاد کریں اور ان سے وابستہ یادوں کو تازہ کریں‘‘۔
غالباً انہیں بہت جلد اپنی روانگی کا احساس ہوگیا تھا، اور شاید انہیں ادراک ہوگیا تھا کہ جانے والے کہہ رہے ہیں:
’’کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد‘‘