60ء اور70ء کی دہائی میں افغانستان کا علمی طبقہ فکری اور علمی تغیر کے نازک مراحل کا سامنا کررہا تھا۔ قندھار کابل کی طرح سوویت یونین سے چلنے والی ہواؤں سے گو کہ زیادہ متاثر نہیں ہوا تھا، مگر قدامت اور تجدد کی کشمکش نے پڑھے لکھے اذہان کو متاثر ضرور کیا تھا۔ کابل کی علمی اور فکری دنیا میں اُن دنوں خاموش طوفان کی سی کیفیت تھی۔ ڈارون اور کارل مارکس کے افکار نے کابل یونیورسٹی کے اساتذہ اور طالب علموں کی ایک کثیر تعداد کو گرویدہ بنا رکھا تھا۔ تین علمی اور فکری طبقے ابھر رہے تھے۔ ایک طبقہ خود کو ترقی پسند مارکسسٹ کہنے والوں کا تھا۔ اس طبقے کے لوگ مذہبِ اسلام سے منحرف دکھائی دیتے تھے، جو مادے کو ہی حقیقت اور سچائی تسلیم کر بیٹھے تھے۔ الحاد اور لادینی نے جدید نصابِ تعلیم کے حامل اساتذہ اور طلبہ کو افغانستان کے مذہبی اور سماجی نظام زندگی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کردیا تھا۔ مارکسی گروہ کے مقابلے میں ایک مضبوط علمی طبقہ اُن افراد کا تھا جو اسلامی سوچ اور فکر سے جڑے ہوئے تھے۔ ان میں مصر کی جامعہ الازہر کے گریجویٹ زیادہ فعال تھے جو الاخوان المسلمون کے افکار کے ترجمان تھے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے قدیم مدارس اور مساجد سے وابستہ علماء بھی کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کو بھانپ چکے تھے اور دین اسلام کے مبادی و اصول کے دفاع میں سرگرم ہوگئے تھے۔ تیسرا گروہ اُن لوگوں پر مشتمل تھا جو خود کو افغان قوم پرست کہتے تھے اور مغربی جمہوریت اور جدیدیت کے دلدادہ تھے۔ ان کی کوئی خاص علمی اور فکری بنیادیں نہیں تھیں، مگر سیاسی اصلاحات کی بات کیا کرتے تھے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی محرکین کا کابل کے علاوہ قندھار میں بھی اثر رسوخ تھا۔ علمی اور فکری دنیا کی کشمکش افغانستان کی سیاست کو متاثر کررہی تھی جس کے اثرات پاکستان کے علمی اور سیاسی طبقوں میں بھی پائے جاتے تھے۔ صوبہ بلوچستان اور سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) میں بھی مادہ پرستی اور سوشلسٹ رجحانات شدت کے ساتھ پروان چڑھنے لگے تھے۔ کمیونزم کی فکری جنگ سرمایہ دارانہ نظام سے زیادہ اسلام اور مذہبی اقدار کے خلاف محسوس ہونے لگی تھی۔ افغانستان اور پاکستان میں مارکسی فلسفے میں جو بدعات کی گئیں اُن میں ایک بڑی غلطی یہ تھی کہ سوشلسٹ انقلابی فلسفے کو اسلام کے آفاقی نظام زندگی سے متصادم کردیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ افغانستان ہی سوویت یونین کے انہدام کی وجہ بنا۔ ورنہ سوشلزم کی بین الاقوامی تحریک کو سرمایہ دارانہ نظام کی فرسودہ روایات و اقدار کے خاتمے کے لیے طویل سفر کرنا تھا۔ مولانا درانی کے مراسم علم و فراست سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ تھے۔ ایک عظیم علمی شخصیت علامہ عبیداللہ قندھاری کی تھی، جن کے ساتھ مولانا درانی کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ علامہ قندھاری دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے۔ دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے اس نابغۂ روزگار عالم اور مجتہدِ وقت نے 79-1978ء میں افغانستان کے ثور انقلاب کی حمایت کی اور نور محمد ترہ کئی کی حکومت کی تقویت کے لیے منبر و محراب کو استعمال کیا۔ انقلاب کے خلاف جب افغان عوام نے تشدد کا راستہ اختیار کیا تو علامہ قندھاری کو خطرہ لاحق ہوگیا اور انہوں نے پاکستان کے شہر کوئٹہ ہجرت کی۔ اُن دنوں کوئٹہ میں افغانستان کی جہادی تنظیموں نے… جن میں حزبِ اسلامی، حریتِ اسلامی، محاذ ملّی اسلامی افغانستان اور حزبِ اسلامی خالص شامل تھیں… دفاتر قائم کیے تھے۔ افغانستان کی کثیر آبادی نے پاکستان کی جانب ہجرت کی۔ مولانا نیاز محمد درانی حکومت ِ پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی آباد کاری کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے رکن تھے۔ ان کی رہائش گاہ پر افغان عوام (مہاجرین) کے علاوہ افغانستان کی سیاسی اور جہادی تنظیموں کے نمائندوں کا آنا جانا تھا۔ صبغت اللہ مجددی، پیر سید احمد گیلانی، مولانا محمد یونس خالص، مولوی محمد نبی اور دوسرے افغان راہنما ان کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔کوئٹہ میں علامہ قندھاری کی جان اسی طرح غیر محفوظ تھی جس طرح وہ قندھار میں خطرے سے دوچار تھے۔ دوسرا، حکومتِ پاکستان نے افغان مزاحمت کی حمایت کی تھی اور سوویت یونین کے خلاف جہاد کی حمایت خارجہ پالیسی کا حصہ تھی۔ ان حالات میں علامہ قندھاری کا پاکستان میں رہنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ مولانا درانی نے علامہ قندھاری کی حفاظت کے لیے تمام جہادی تنظیموں سے رابطے کیے اور پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ضمانت دی کہ علامہ قندھاری گوشہ نشینی کی زندگی گزاریں گے۔ علامہ صاحب تادمِ مرگ کوئٹہ میں مقیم رہے۔ مولانا نیاز محمد درانی کی وفات پر علامہ قندھاری فاتحہ کے لیے تشریف فرما ہوئے تو انہوں نے راقم الحر
وف کو یہ روداد سنائی کہ کس طرح مولانا درانی نے ان کا مشکل میں ساتھ دیا۔ اس دوران اُن کی بوڑھی، نیلی آنکھوں میں آنسو موتی کی طرح چمک رہے تھے۔
مولانا درانی کئی دہائیوں پر محیط افغانستان کی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا بغور مشاہدہ کررہے تھے۔ افغانستان میں 1964ء کی آئینی اصلاحات کے بعد ایک سیاسی تلاطم بپا ہوا۔ شاہ کی حکومت نے آئینی اصلاحات کرکے آزادیِ رائے اور سیاسی آزادی کا حق عوام کو دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی کشمکش نے زور پکڑنا شروع کیا، جس کا نتیجہ قومی نفاق اور تقسیم نکلا۔ بائیں بازو میں خلق اور شعلہ جاوید کے فکری حلقے نمودار ہوئے۔ خلقی زیادہ تر پشتون تھے۔ آئینی اصلاحاتی دور سے لے کر سردار داؤد خان کی تنزلی تک افغانستان کے سیاسی افق پر طوفانی بادلوں نے ڈیرے جما لیے تھے۔ ایک گروہ ’’پرچم‘‘ کے نام سے مستعد ہوگیا، جس کے زیادہ تر راہنما ماؤزے تنگ کے سیاسی افکار سے متاثر تھے۔ اسلامی خیالات رکھنے والے عناصر خلق اور پرچم پارٹیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کو دیکھ کر میدان میں اتر گئے۔ اسی دوران سردار داؤد نے بادشاہت کا خاتمہ کرکے ری پبلکن نظام سیاست ملک میں نافذ کردیا۔ انھوں نے زمام حکومت سنبھالتے ہی اسلامی سوچ رکھنے والے عناصر کے خلاف اقدامات شروع کیے۔ متعدد راہنما پابندِ سلاسل کردیئے گئے۔ بہت سوں کو قتل کردیا گیا، یا لاپتا کردیئے گئے۔ گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود افغانستان سے فرار ہوکر پاکستان میں مقیم ہوگئے، جہاں سے انہوں نے 1975ء میں گوریلا کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ پاکستان کی حکومت نے افغانستان میں گوریلا کارروائیوں کی سرپرستی کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پشتونستان اور آزاد بلوچستان کی تحریکوں کو افغانستان کی کمک اور حمایت حاصل تھی۔ یہ غور طلب پہلو ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اُن دنوں پاکستان میں قائم تھی جو خود سوشلسٹ خیالات و نظریات رکھتے تھے۔ مگر انہوں نے اسلام پسندوں کی افغان حکومت کے خلاف کارروائیوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان کو عملی طور پر مدد بھی فراہم کی۔ پاکستان اور افغانستان کے خارجہ تعلقات کے اس کٹھن دور میں افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب کے لیے ماحول سازگار ہوتا جارہا تھا۔ سوویت یونین کا اثر رسوخ افغانستان میں کافی حد تک بڑھ چکا تھا۔ سردار داؤد خان نے پشتونستان کارڈ اور ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو استعمال کرکے اپنی حکومت کو دوام دینے اور افغان عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مگر کابل کی گلیوں میں موجود پلتے عفریت کا انہیں شاید اندازہ نہیں تھا۔ بعد میں اگرچہ سردار داؤد خان نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کردیا، مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس دوران پرچم پارٹی کے راہنما میر اکبر خیبر کا قتل ہوا، جس نے حالات خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عوامی مظاہروں نے سردار داؤد کو پریشان کردیا، ابھی وہ لائحہ عمل طے کررہے تھے کہ میجر محمد اسلم وطن جار اور کرنل عبدالقادر ڈگروال کی مدد سے ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔ سردار داؤد کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے سوشلسٹوں پر بھروسا کیا جنہوں نے حکومتی مشینری کو اسلام پسندوں کے خلاف استعمال کرایا، دینی افکار و اقدار کے خلاف سرکار ی سطح پر پروپیگنڈا کیا گیا اور ساتھ ساتھ سردار داؤد خان کی حکومت کے خلاف سازشوں کا جال بھی ُنتے رہے۔ نتیجتاً 1978ء میں افغانستان میں نورمحمد ترہ کئی کی قیادت میں اشتراکی نظریے پر مبنی حکومت قائم ہوگئی، جس کو کے جی بی(KGB) کی کھلم کھلا حمایت و نصرت حاصل تھی۔ نور محمد ترہ کئی نے اقتدار سنبھالتے ہی افغان سماجی کلچر اور اسلامی شعائر کے خلاف اقدامات کا آغاز کردیا۔ اُن کے زیادہ تر پالیسی اقدامات افغانستان کے زمینی حقائق اور عوام کے مزاج کے برعکس تھے۔ اس دوران کابل میں خلق اور پرچم کے درمیان بھی اختلافات بام عروج پر تھے۔ نور محمد ترہ کئی کو مبینہ طور پر حفیظ اللہ امین کے حامیوں نے قتل کیا۔ حفیظ اللہ امین کو کے جی بی نے مبینہ طور پر پاکستان کے ساتھ مراسم کے شک میں قتل کرا دیا اور ببرک کارمل مسندِ اقتدار پر براجمان ہوگئے۔ ببرک کارمل کی کابینہ میں خلق اور پرچم دونوں دھڑوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ ببرک کارمل نے افغان مزاحمت کو کچلنے کے لیے روسی افواج کو ملک آنے کی دعوت دی۔ اُس وقت کے روسی صدر نے ببرک کارمل سے شروع میں روسی افواج افغانستان بھیجنے کے معاملے پر اختلاف کیا، مگر کارمل نے ان کو قائل کرلیا۔ روسی افواج کے افغانستان منتقل ہونے کے فیصلے نے افغان مزاحمتی تحریک کو مزید تقویت دی۔ یہ وہی وقت تھا جب سی آئی اے بھی میدانِ عمل میں داخل ہوگئی تھی اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر افغان مزاحمتی تحریک یعنی مجاہدین کی باقاعدہ مدد کا آغاز کیا۔ 1986ء میں ببرک کارمل کو ہٹا کر ڈاکٹر نجیب اللہ کو افغانستان کا صدر بنایا گیا جن کا تعلق افغان خفیہ ایجنسی ’خاد‘ سے تھا۔ وہ پشتون تھے اور نظریاتی طور پر پرچم سے تعلق رکھتے تھے۔
دنیا دائیں اور بائیں کے فکری تضادات سے گزر رہی تھی۔ افغانستان کے سماجی، سیاسی اور فکری حالات پاکستان پر براہِ راست اثرات مرتب کررہے تھے۔ دوسری جانب مسلم ممالک میں موجود اسلامی تحریکیں جن میں مصر کی الاخوان المسلمون اور ہندوستان و پاکستان کی جماعت اسلامی مغربی جمہوری فلسفوں کے ساتھ ساتھ مارکسزم کو بھی اسلام کے لیے خطرہ سمجھتی تھیں۔ مفکرینِ اسلام نے ڈارون ازم اور مارکسزم کے خلاف عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے تحریک و تقریر کے ذریعے جہاد شروع کررکھا تھا۔ مولانا درانی کے بقول افغانستان کے کمیونسٹ انقلاب نے اسلام پسندوں اور اسلامی تحریکوں میں نئی جان ڈال دی۔ سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے خلاف اسلام پسندوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اقدامات کی حمایت کی۔ اور دنیائے اسلام سے مجاہدین نے افغانستان کا رخ کیا۔ اس طرح افغانستان کی اندرونی مزاحمتی تحریک نے عالمی جہاد کی شکل اختیار کی۔ مسلمان ممالک خصوصاً عرب ممالک سے مجاہدین افغانستان گئے اور سوویت یونین اور افغان کمیونسٹ حکومت کے خلاف جنگ میں افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ یہی جہاد اور مجاہدین بعد میں امریکہ کے لیے خطرہ بن گئے۔ 70ء کی دہائی کے اواخر میں ایران اور افغانستان میں انقلابات بپا ہوئے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرکے جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کردیا۔ مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی تبدیلیاں واقع ہوچکی تھیں۔ سعودی عرب میں مذہب (سلفی) پسندوں کا اثر رسوخ بڑھ چکا تھا۔ ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں جو انقلاب رونما ہوا اُس نے خطے کی سیاست کو نئے رخ پر ڈال دیا تھا۔ ایران، عراق جنگ اور اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے خلاف پائے جانے والے رجحانات کی وجہ سے دنیائے اسلام متاثر ہورہی تھی۔ کمیونسٹ افکار نے بحر میں تلاطم مچایا ہوا تھا۔ بدلتے فلسفیانہ اور سیاسی تبدیلیوں پر مبنی افکار نے بہت سے اذہان کو تذبذب اور ہیجان میں مبتلا کردیا تھا۔ جدت پسندی اور مذہب پسندی کے درمیان جنگ نے تشدد کا راستہ اختیار کررکھا تھا۔ افغانستان میں مذہبی طبقوں کی جانب سے خلق اور پرچم سے تعلق رکھنے والے کافر ٹھیرائے گئے۔ مولانا نیاز محمد درانی نے اسلامی تشخص کی بقاء اور عوام کو گمراہی سے بچانے کے لیے مسجد و منبر کا پُرزور استعمال کیا۔ وہ اس ضمن میں تشدد اور انتہا پسندی کے ہرگز قائل نہ تھے اور نہ ہی انہوں نے کبھی سوشلسٹ افکار رکھنے والوں پر کفر کے فتوے لگائے۔ بہت سے علماء نے نور محمد ترہ کئی اور ان کے ہم خیالوں کو کافر قرار دیا۔ مولانا درانی عوام کو گمراہی سے بچانے کے لیے مصروفِ عمل تھے، نہ کہ فتووں کے ذریعے فساد کو ہوا دینے میں۔ ان کا مؤقف تھا کہ مذہب پسندوں اور جدیدیت کے مابین کشمکش کو اگر مسلح جنگ میں بدل دیا گیا تو اس سے سماجی فتنے جنم لیں گے، اس کا زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوگا، غلط تعبیر کی وجہ سے دین کی اصل روح سے عوام غافل ہوتے جائیں گے۔ وہ جدت اور سائنسی ترقی کے بھی خلاف نہیں تھے، بلکہ سماجی اور ثقافتی جدیدیت، جو شعائر اسلام سے متصادم ہو، کے خلاف تھے۔ ثور انقلاب کو افغانستان کے لیے زہرِ قاتل سمجھتے تھے۔ ان کے بقول ثور انقلاب کے محرکین افغان سیاست، افغانیوں کے رسوم و رواج اور انقلاب کے اصول و قواعد سے ناواقف تھے۔ وہ محض ایک گروہ تھا، جن کی کوئی ٹھوس علمی و فکری بنیاد نہ تھی۔ روسی اور چائنیز لٹریچر کو فارسی اور پشتو میں ترجمہ کرنا ان کی قابلیت کی حد تھی۔ وہ کوئی قابلِ قدر تحریریں پیش نہ کرسکے۔ اگر کوئی تحریر یا تقریر تھی، اس پر بھی روسی افکار کے اثرات نمایاں تھے، جو افغان بودوباش اور رسم و رواج سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ مولانا درانی دلیل دیتے تھے کہ افغانستان میں کوئی سیاسی اور معاشی نظام اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ دین سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ ایک اہم نقطہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے، یہ ہے کہ مولانا اشتراکیت کو بطور ایک بین الاقوامی تحریک کے دیکھتے تھے۔ وہ اکثر مولانا عبیداللہ سندھی کے اشتراکیت سے متعلق افکار کا ذکر کیا کرتے تھے کہ اشتراکی فلسفے سے عالمی سیاسی افق پر بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ وہ کہتے تھے کہ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ اصولوں پر قائم مغربی جمہوری نظام کے مابین علمی اور فکری جنگ جاری ہے۔ اس جنگ یا تصادم کے نتیجے میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی۔ علمائے دین، مفکرینِ اسلام اور تحریکاتِ اسلامی کو اس فکری تصادم کا بغور جائزہ لیتے ہوئے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ دنیا کی کثیر آبادی ایک بہتر نظام کی متلاشی ہے۔ بعض لوگ سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی جمہوریت میں اپنی سلامتی تلاش کرتے ہیں، اور بعض اشتراکیت کے فلسفۂ مساوات میں نجات کا سامان ڈھونڈ رہے ہیں۔ علماء اور داعیانِ اسلام کو چاہیے کہ اسلام کو دنیا کے سامنے متبادل کے طور پر پیش کریں۔ اس وقت مغرب اور دیگر ممالک میں اسلام کی پہچان محض ایک مذہب کی ہے جس میں عبادات اور روحانی رسوم کے سوا کچھ نہیں۔ جبکہ اسلام ایک کامل دین ہے، مکمل ضابطۂ حیات ہے اور انسان کے باطن اور ظاہر، انفرادیت اور اجتماعیت کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں عبادات، معاملات، اخلاقیات، سماجیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے حوالے سے تعلیمات موجود ہیں۔ اسلام حقِ ملکیت کو بھی تسلیم کرتا ہے اور انسانوں میں مساوات و عدل کا نظام بھی پیش کرتا ہے۔ اسلام کے فلسفۂ حیات کو اگر دلیل کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا جائے تو انسان تذبذب سے نکل کر اسی کو فلاح وسلامتی کا نظام پائیں گے۔ مولانا فرماتے تھے کہ علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاد اور تبلیغ کے ذریعے حالات کا مقابلہ کریں۔ جہاد ضروری نہیں کہ مسلح ہو، بلکہ قلم اور دلائل کی بنیاد پر انسانوں کو اسلامی فلسفے کی بنیاد پر جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ اشتراکیت بطور سیاسی نظام کے شاید اتنی خطرناک نہیں، جتنا اس کے مادے کی بنیاد پر فلسفیانہ رجحانات ہیں۔ یہ وہ رجحانات ہیں کہ جو انسانی اذہان کو فلسفۂ ربوبیت سے بیگانہ کرتے ہیں۔ جس طرح جدید سائنسی انقلابات نے مسلمانوں کے اذہان کو منتشر کیا، یہاں تک کہ مفتی محمد عبدہ اور سرسید احمد خان جیسے جلیل القدر لوگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، اسی طرح فلسفۂ اشتراکیت اور ڈارون ازم نے بڑے بڑے علماء کو تذبذب کا شکار کررکھا ہے۔ لہٰذا اس کا مقابلہ علمی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ علمائے دین کو علم کلام کی نئے سرے سے جدید بنیادوں پر تشکیل کرنا ہوگی۔ افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف عوامی مزاحمت اور بعد میں روسی افواج کے افغانستان میں داخل ہونے کے نتیجے میں افغان مسلح مزاحمت کو مولانا درانی نے فطری قرار دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ افغان ثور انقلاب کے جی بی کی سرپرستی میں ملک پر لاگو کیا گیا، جبکہ روس اور چین کے انقلابات فکری اور نظریاتی بنیادوں پر عوامی انقلابات تھے جو مزدوروں اور کسانوں نے برپا کیے تھے۔ افغانستان میں اشتراکی فکر کی بنیاد پر انقلاب نہیں تھا، بلکہ کابل کے سرکاری محل کے اندر پہلے داؤد خان نے زمامِ حکومت سنبھالی اور پھر کمیونسٹ انقلاب کے نام سے دراصل بغاوت رونما ہوئی۔ افغان معاشرہ خالص دینی بنیادوں پر صدیوں سے قائم رہا ہے۔ وہاں اسلام کے برعکس کوئی اور نظام نافذ کرنا فطرت کے برخلاف ہے۔
ثور انقلاب کی ناکامی کی وجوہات: مولانا درانی افغان ثور انقلاب کی ناکامی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے تھے کہ افغانستان میں انقلاب ہمیشہ تبھی کامیاب ہوا جب تبدیلی کی جڑیں قندھار میں مضبوط ہوئیں، جس کی پوری افغان تاریخ گواہ ہے۔ قندھار میں کمیونسٹ نظام یا تبدیلی کے حوالے سے نظریات نے عوام کے اذہان میں جگہ پیدا نہیں کی، جس کی وجہ یہ تھی کہ تمام لوگ اس کے علمی، سماجی، سیاسی اور معاشرتی پہلو سے بالکل آگاہ نہیں تھے۔ انہیں علم نہیں تھا کہ آخر کابل میں رونما ہونے والے واقعات تھے کیا؟ جب سرکار ی مشینری پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہوگیا تو افغان عوام کو اخبار، ریڈیو اور انسانی ذرائع سے معلومات ملنا شروع ہوگئیں۔ عوام کی اکثریت نے سمجھا کہ کابل کا انقلاب اسلام کے خلاف روسی سازش ہے۔ روس کے خلاف عوام کے نفرت آمیز جذبات ہمیشہ سے رہے ہیں۔ زار کے دور سے لے کر کمیونسٹ دور تک روسی خارجہ پالیسی میں افغانستان کی ایک خاص اہمیت رہی تھی۔ زار کے دور میں افغانستان کے سرحدی علاقوں پر روس نے متعدد بار جارحیت کی۔ افغان ثور انقلاب کے خلاف عوامی ردعمل کی تین بنیادی وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ انقلاب کابل میں رونما ہوا۔ افغانستان کے دیگر علاقوں خصوصاً قندھار میں خلق اور پرچم پارٹیوں کی نظریاتی حیثیت بہت کمزور تھی، بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ مولانا درانی کے بقول کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے اس کے پیچھے ٹھوس نظریاتی مقدمے کا ہونا ضروری ہے، جبکہ ثور انقلاب کے پیچھے کوئی قابل قبول نظریاتی مقدمہ موجود نہ تھا، اور نہ عوام میں سوشلسٹوں نے کوئی نظریاتی و فکری تبدیلی پیدا کی تھی۔ دوسرا یہ کہ کمیونسٹ افکار پر قائم حکومت نے افغان عوام کے دینی اور سماجی نظام کے برخلاف نظام کو مسلط کرنے کی کوشش کی۔ تیسرا یہ کہ انقلاب کے پس منظر میں روس کی خفیہ ایجنسی کارفرما تھی جس کو افغان عوام نے روس کا افغانستان پر قبضہ گردانا۔
nn