یہ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں جب ادب اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ ماضیِ قریب میں اردو صحافت میں مولانا ظفر علی خاں، چراغ حسن حسرت، نصر اللہ خاں عزیزؔ، فیض احمد فیض، شورش کاشمیری اور احمد ندیم قاسمی کے نام اس کی چند نمایاں مثالیں ہیں جنہوں نے صحافت کے ساتھ ساتھ اردو نظم اور نثر میں بھی اپنا نام بنایا۔ پھر آہستہ آہستہ صحافت ایک پیشہ، کاروبار اور صنعت کا روپ دھار گئی، تاہم استثنیات ہر جگہ موجود رہتی ہیں، انہی میں سے آج کے دور کے ممتاز صحافی، نوائے وقت کے اداریہ اور کالم نویس سعید آسیؔ بھی ہیں جنہوں نے صحافت کو حصولِ رزق کے ذریعے کے طور پر تو ضرور اپنایا مگر اسے مال بنانے اور ہوسِ زر کی خواہش کی تکمیل کے لیے استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے ایک جانب مشن سمجھ کر اصولوں کو سربلند رکھتے ہوئے صحافت کی، اور دوسری جانب ادب و ثقافت خصوصاً شاعری سے مضبوط رشتہ استوار رکھا۔ شاعری سے ان کے اسی مضبوط رشتے کا ثمر ان کی زیر نظر کتاب ’’کلامِ سعید‘‘ ہے۔
سعید آسیؔ سے شناسائی کم و بیش چار عشروں پر محیط ہے، اور اس دوران مختلف حوالوں سے ان سے قریبی تعلق رہا ہے۔ چنانچہ سنی سنائی نہیں بلکہ ذاتی تجربے کی اساس پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک نفیس، شریف النفس اور محنتی انسان ہیں، صحافت کے خار زار میں ہر طرف بکھری آلائشوں اور بے شمار مواقع سے ناجائز استفادے کے بجائے انہوں نے محنت کو اپنی ترقی کا زینہ بنایا۔ انہوں نے پاکپتن میں تحریکِ پاکستان کے ایک متحرک کارکن میاں محمد اکرم کے آنگن میں آنکھیں کھولیں اور دورانِ تعلیم ہی ادب و صحافت سے ناتا جوڑ لیا۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں بزم اردو اور پنجابی ادبی سنگت کے عہدیدار رہے۔ پنجاب یونیورسٹی لا کالج پہنچے تو کالج کے مجلہ ’’المیزان‘‘ کے اردو اور پنجابی سیکشن کے مدیر بنا دیئے گئے۔ اسی دوران طلبہ کے لیے اپنے جریدے ’’اسٹوڈنٹ‘‘ کا اجراء بھی کیا۔ تاہم 1975ء میں روزنامہ ’’وفاق‘‘ سے باقاعدہ صحافت کا آغاز کیا اور پھر مختلف اخباری اداروں سے ہوتے ہوئے آخر ’’نوائے وقت‘‘ سے وابستہ ہوئے، اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ آج کل ’’نوائے وقت‘‘ کا اداریہ اور ’’بیٹھک‘‘ کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔ صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ’’غیر نصابی سرگرمیوں‘‘ میں بھی بھرپور حصہ لیتے رہے، دوبار لاہور پریس کلب کے سیکرٹری، تین بار پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے صدر منتخب ہوئے، جب کہ صحافیوں کی ٹریڈ یونین میں بھی مختلف ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے پہلے پنجاب اور پھر فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے صدر منتخب ہوئے، متعدد دیگر سماجی، ثقافتی اور ادبی تنظیموں میں بھی روحِ رواں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یوں سعید آسیؔ نے زندگی کے تمام دائروں میں زبردست فعالیت کا ثبوت دیا ہے اور جہاں بھی گئے اپنی خدمت، امانت و دیانت اور شرافت کی داستانیں چھوڑ کر آئے ہیں۔
سعید آسیؔ کی اب تک شاعری کی تین کتب ’’سوچ سمندر‘‘ (پنجابی شاعری)، ’’رمزاں‘‘ (پنجابی قطعات)، اور ’’تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں‘‘ (اردو شاعری)، تین سفر نامے ’’آگے موڑ جدائی کا تھا‘‘ (سفر نامہ چین)، ’’جزیرہ جزیرہ ‘‘ (سفرنامہ برونائی، انڈونیشیا اور مالدیپ)، اور ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں، جب کہ منتخب کالموں کے دو مجموعے ’’کب راج کرے گی خلقِ خدا‘‘ اور ’’تیری بکل دے وچ چور‘‘ کے علاوہ پنجابی کہانیوں کی کتاب ’’سمندروں ڈونگھے‘‘ بھی چھپ چکی ہیں۔ ان کی تازہ کتاب ’’کلامِ سعید‘‘ کو اب تک کی اُن کی شاعری کی کلیات کہا جا سکتا اور چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ ’’کچھ تازہ شعری وارداتیں‘‘ ان کی غیر مطبوعہ شاعری پر مشتمل ہے، کتاب کے پہلے دو اشعار کچھ یوں ہیں ؎
پائوں جمتے ہیں نہ دستار سنبھالی جائے
اب تو بس عزتِ سادات بچا لی جائے
حبس ایسا ہے کہ دم گھٹتا ہے
کر کے تدبیر کوئی، تازہ ہوا لی جائے
اس حصے کی آخری غزل کا مطلع ہے ؎
اپنے پائوں پہ آتا ہے نہ اپنے پائوں پہ جاتا ہے
تیری کیا اوقات ہے جس پہ تُو اتراتا ہے
کلامِ سعید کا دوسرا حصہ پہلے سے طبع شدہ اردو مجموعہ کلام ’’تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں‘‘، تیسرا حصہ پنجابی شاعری ’’سوچ سمندر‘‘، اور چوتھا حصہ ’’رمزاں‘‘ پنجابی قطعات پر مشتمل ہے۔ کتاب کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ اس کا انتساب سعید آسیؔ نے اپنی اہلیہ کے نام کیا ہے، شاعروں میں جس کی مثال ذرا مشکل ہی سے ملتی ہے۔ ’’کلام سعید‘‘ میں پہلے سے شائع شدہ تینوں مجموعوں میں تو پیش لفظ یا تعارفی سطور موجود ہیں، تاہم ان کلیات کے لیے الگ سے ایسی سطور لکھنے کی ضرورت سعید آسیؔ نے محسوس نہیں کی۔ ہماری رائے میں ناشران کے بجائے یہ کام وہ اپنے قلم سے کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
’’کلامِ سعید‘‘ کے مطالعے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ سلاست، سادگی اور روانی ان کی شاعری کے نمایاں عناصر ہیں، خصوصاً چھوٹی بحر میں کہی ہوئی ان کی نظمیں قاری بے ساختہ پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ شاعر عموماً خیالوں کی دنیا میں مگن اور غوطہ زن رہتے ہیں، سعید آسیؔ بھی شاید اس سے مستثنیٰ نہیں، البتہ ان کی شاعری میں ایسے کلام کی بھی فراوانی ہے جو حقائق سے بہت قریب تر ہے اور اس میں حالاتِ حاضرہ کا ادراک و احساس نمایاں ہے، مثلاً ’’یوم مزدور‘‘ کے عنوان سے طویل نظم کے آخری بند میں وہ محنت کش کو حقیقت سے آشنا کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؎
تم ہو مزدور، تمہیں محنتیں ہی کرنی ہیں
تمہاری زندگی کس طرح سنورنی ہے
یہی جو بات سمجھ لو تو کام بن جائے
مئی کا دن ہی تمہارا مقام بن جائے
اسی طرح ’’حکومت‘‘ کے عنوان سے ان کا قطعہ بھی ہمارے ملکی حالات کی عکاسی کرتا ہے ؎
ان کی اور اپنی حکومت میں بس اتنا فرق ہے
ان کی فوجی تھی، یہاں جمہور کا پیوند ہے
ان کے منگلا اور ورسک بند تھے چھائے ہوئے
اپنا آٹا بند، چینی بند اور گھی بند ہے
چار سو صفحات کی کتاب کی قیمت ڈھائی ہزار روپے رکھی گئی ہے جو خاصی زیادہ محسوس ہوتی ہے، تاہم جس قدر دبیز کاغذ، رنگین و اعلیٰ معیارِ طباعت، مضبوط جلد اور خوبصورت انداز میں کتاب شائع کی گئی ہے اس کو سامنے رکھا جائے تو اتنی قیمت کا جواز تلاش کیا جا سکتا ہے۔
nn