تزکیہ نفس

انفرادی و اجتماعی اصلاح اور الہامی ضابطۂ اخلاق میں تزکیہ نفس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہادِ اکبر قرار دیا ہے۔ جہادِ اکبر درحقیقت تقویٰ ہی کے فروغ کا ایک ذریعہ ہے، اور تقویٰ ہی قلوبِ انسانی کے لیے منبعِ نور ہے۔ جیسے کہ سورئہ الشمس 10-7 میں ارشادِ ربانی ہے:
’’اور (قسم ہے) نفس کی، اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا، پھر اسے الہام کیا بُرائی اور پرہیزگاری کا۔ بے شک مراد کو پہنچا جس نے اس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں رکھا۔‘‘
نفس کی ایسی صلاحیت کی بدولت ہی نیکی اور بُرائی کی پہچان انسانی شعور و لاشعور میں فطری طور پر موجود ہے۔ لیکن یہ پہچان اُس وقت تک کارآمد نہیں ہوسکتی جب تک کہ نفس کا رجحان بُرائی سے اچھائی کی طرف نہ موڑا جائے۔ اسی موڑنے کے عمل کو تزکیہ نفس کہا جاتا ہے۔
حدیثِ قدسی ہے کہ اپنے نفس سے عداوت رکھ، کیونکہ یہ میری دشمنی پر کمربستہ ہے۔ تو اپنے نفس کی پرورش کرنا، اس کی مرادیں حاصل کرنا، مرتبہ، سرداری، بڑائی اور تکبر وغیرہ فراہم کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے دشمن کی امداد کرنا اور اس کو تقویت پہنچانا ہے۔ اس لیے اس کی قباحت اور بُرائی اچھی طرح محسوس کرنی چاہیے۔ جب تک انسانی ذہن اور قلب تزکیہ کے مثبت اور منفی اثرات کی حقیقت نہ جان لے اُس وقت تک اس پر عمل ممکن نہیں۔ کیونکہ تزکیہ نفس نہ ہو تو یقین قائم نہیں ہوتا، اور جب دل میں یقین نہ ہو تو نیت میں اخلاص نہیں آتا، اور اخلاص کے بغیر اعمال بے سود ہیں۔
تزکیہ نفس کے لیے اوّلین شرط انبیائے کرام علیہم السلام کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی اور ان کے حُسن کردار کی تقلید ہے۔ اور ایسی تمام خواہشات کی نفی جن کا مقصد محض دُنیا کا حصول ہو۔ دُنیاوی خواہشات کی نفی اور حُسنِ کردار کی تکمیل کے لیے تعلیم و تربیت کا ایک فطری طریقہ موجود ہے۔ یعنی قرآن و سنت۔
’’اے ایمان والو! ڈرو اللہ تعالیٰ سے، اور تلاش کرو اُس تک پہنچنے کا وسیلہ، اور جدوجہد کرو اس کی راہ میں، تاکہ تم فلاح پائو‘‘ (سورۃ المائدہ 35)
علمائے اہلِ سنت نے اس قرآنی آیت میں وسیلہ سے مراد ایمان، نیک اعمال، عبادات، سنت کی پیروی، گناہوں سے بچنا وغیرہ بھی لیا ہے، اور ایسا کامل مرشد جو اپنی روحانی توجہ، حُسنِ کردار اور عمل سے شاگرد (مرید) کی آنکھوں سے غفلت کی پٹی اُتار دے۔ اسی لیے علماء نے مرشدِ کامل کی بیعت کو لازم قرار دیا ہے۔ حدیث نبویؐ ہے:
’’جس نے اپنے زمانے کے امام کو قلبی ادراک سے دریافت نہ کیا پس وہ مر گیا جہالت کی موت۔‘‘ (مسلم)
یعنی مومن کے لیے ضروری ہے کہ اپنے زمانے کے امام کو جو خلیفۃ اللہ و رہبر کامل ہو، اپنے قلبی ادراک سے شناخت کرکے اس کی بیعت میں داخل ہوجائے، تاکہ تزکیہ نفس کے ساتھ اس کے لیے معرفت کی راہ بھی کھلے۔ تعلیم و تربیت کے اس نظام کو قرآن کریم میں علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے استاد (کامل مرشد) کی صحبت اختیار کرنا ضروری ہے۔
nn