گزشتہ تین عشروں میں عالمی سطح پر بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے حقیقی محرکات اور اثرات کا جائزہ لینے میں امتِ مسلمہ کے اہلِ دانش اور مقتدر قیادت نے ناکامی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقائق اور واقعات کا درست تناظر میں جائزہ نہ لینے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ بہ حیثیتِ مجموعی امتِ مسلمہ، اور بالخصوص پاکستان کو درپیش خطرات کا علاج بھی سامنے نہیں آسکا ہے۔ عالمی نظام میں تبدیلی کا اصل سبب یہ ہے کہ ان تین عشروں میں دنیا کی دو عالمی طاقتوں کمیونسٹ سوویت روس اور عالمی سرمایہ دارانہ طاقت امریکہ کو دنیا کے سب سے پسماندہ ملک افغانستان میں مجاہدینِ اسلام نے عبرت ناک شکست دی۔ سوویت یونین کی شکست نے دو قطبی عالمی نظام کو یک قطبی عالمی نظام میں تبدیل کیا۔ مشرقی یورپ کی عیسائی اور وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں، جس کے بعد امریکہ نے سیاسی دائرے میں نیو ورلڈ آرڈر اور اقتصادی دائرے میں گلوبلائزیشن کے نام سے پوری دنیا کو اپنا غلام بنانے کا اعلان کیا۔ پہلی جنگِ خلیج سے لے کر ’’وار آن ٹیرر‘‘ تک امریکی سامراجیت کا نیا مظہر تھی، جس کے تحت افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی گئی اور اسے دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ قرار دیا گیا۔ لیکن تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی جنگی، اقتصادی، سیاسی طاقت دنیا کے سب سے کمزور، غریب فقیروں سے مذاکرات کی بھیک مانگتے ہوئے نظر آئی۔ آج عالمی سطح پر جو نئی صف بندیاں ہورہی ہیں اس کا اصل سبب افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو کی فوجوں کی عبرت ناک شکست ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ جو پاتال کی خبر بھی لے آتے ہیں، انہوں نے تہذیبِ مغرب کے قائد امریکہ کی ذلت آمیز شکست کی ابھی تک رپورٹنگ نہیں کی ہے۔ ان تبدیلیوں نے عالمِ اسلام اور امتِ مسلمہ کے لیے امکانات کے در کھول دیے ہیں، لیکن عالمِ اسلام کے ہر ملک پر مسلط امریکہ کے غلام حکمرانوں نے ان امکانات کو خطرات میں تبدیل کردیا ہے۔ اس صورت حال نے اقبال کے اس دعوے کی صداقت عیاں کردی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا:
سبب کچھ اور ہے تُو جسے کو خود سمجھتا ہے
زوال بندئہ مومن کا بے زری سے نہیں
گزشتہ دنوں پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کے بارے میں کئی سرگرمیاں قوم کے سامنے آئی ہیں۔ دفتر خارجہ میں افواجِ پاکستان کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کے شواہد دستاویزات کی صورت میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے پیش کیے۔ بعد میں یہی دستاویزات اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو باقاعدہ طور پر پیش کردیں۔ اسی دوران میں عسکری قیادت کے اجلاس میں افواجِ پاکستان کے سربراہ نے بھارت کی دہشت گردی کے مقابلے کا عزم ظاہر کیا۔ عسکری قیادت کے اجلاس میں ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کے حوالے سے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں وزیراعظم عمران خان کو بھی بریفنگ دی گئی۔ چین کی فوجی قیادت کی پاکستان کی فوجی قیادت سے ملاقات کو بھی اس حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات میں سب سے اہم حوالہ سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ سی پیک عالمی سیاست میں چین کی پیش قدمی کی علامت ہے جو بی آر آئی منصوبے کا حصہ ہے، جس کے ساتھ چین یورپ اور ایشیا کے درمیان بری اور بحری تجارتی شاہراہوں پر غلبہ حاصل کررہا ہے۔ اسے یہ غلبہ عالمی سیاست میں امریکی شکست کی بنیاد پر حاصل ہوا ہے۔ اس تبدیلی کے بعد عالمی سیاست میں نئی صف بندی ہورہی ہے، جس کی وجہ سے بھارت اور امریکہ کے گٹھ جوڑ میں پختگی آئی ہے اور جو کام امریکہ براہِ راست نہیں کرسکتا اُس کے لیے وہ بھارت کو استعمال کررہا ہے۔ ہماری سیاسی و عسکری قیادت کا یہ احساس کہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارت دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ساتھ تربیت کررہا ہے درست ہے، لیکن یہ جنگ ایک وسیع ترین کش مکش کا حصہ ہے۔ پاکستان کو درپیش خطرات امتِ مسلمہ کو درپیش خطرات کا ایک حصہ ہیں، لیکن پہلی جنگِ خلیج یعنی عراق پر پہلے امریکی حملے نے مسلمان ممالک کے اتحادی ادارے او آئی سی کو بے اثر اور ناکارہ کردیا۔ آج پورا عالمِ اسلام انتشار کا مظہر ہے۔ اسی طرح ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو سیاسی استحکام اور قومی امور پر اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے، لیکن تمام فریق اپنے شخصی، گروہی اور طبقاتی مفادات کے اسیر ہوکر پاکستان دشمن قوتوں کے عزائم کو ہی پورا کررہے ہیں۔