ایک دانا و بینا شخص نے بطور تمثیل کہا کہ برصغیر کے علاقے میں ایک ایسا درخت ہے، جس کے سائے کا پھیلاؤ کئی کوس ہے… اس کی جڑ پاتال کی خبر لاتی ہے اور اونچائی آسمان تک پہنچتی ہے۔ اس سے مخلوقِ خدا فائدہ اٹھاتی رہتی ہے۔ اس کے پتوں کے متعلق لوگوں کا یقین ہے کہ وہ انتہائی تلخ ہوتے ہیں، مگر جس شخص کو قسمت سے کوئی پتّا ہاتھ لگ جائے اور وہ اس پتّے کو کھالے تو اسے حیاتِ ابدی نصیب ہوجاتی ہے۔
اس درخت کے نیچے مردانِ خدا سالہا سال جھولیاں پھیلائے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب کوئی پتّا جھڑے اور اس کے ہاتھ آئے… یہ حکایت ایک بادشاہ نے سنی اور جی میں کہا اگر اس شجر کا میوہ ملے تو کیا کہنے… بادشاہ نے اپنے مصاحبوں اور وزیروں سے اپنی اس خواہش کا ذکر کیا، سب نے ہاں میں ہاں ملا دی۔
الغرض بادشاہ نے برصغیر میں اپنے ایک ہوشیار آدمی کو اس درخت کے پھل کے لیے روانہ کردیا۔
بے چارہ مدتوں جنگل جنگل، صحرا صحرا مارا مارا پھرتا رہا، لیکن گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔ جس کسی سے ایسے درخت و پھل کے بارے میں پوچھتا تو وہ مذاق اڑاتا کہ کیوں دربدر خاک چھان رہے ہو! ٹھنڈے ٹھنڈے جدھر سے آئے ہو اُدھر کو لوٹ جاؤ۔
وہ آدمی تھا من کا پکا، ارادے میں خم نہ آنے دیا اور برابر کوہ و دشت کی خاک چھاننے لگا۔ جب برسہا برس گزر چکے، پورے ہندوستان کے گوشے گوشے، چپے چپے میں پھر چکا، بقائے دوام کے شجر کا کہیں نشان نہ ملا، تو اس قدر محنت اور تکلیف کے اکارت جانے سے اس کے رنج و غم کی کوئی انتہا نہ تھی، بدقسمتی پر آنسو بہانے لگا۔ بے چارہ قاصد مایوس ہوگیا اور بصد حسرت و یاس وطن کو واپس چل پڑا۔
’’سچ کہتے ہیں کہ کسی کی محنت رائیگاں نہیں جاتی‘‘۔ چلتے چلتے اس کا گزر ایک ایسے مقام سے ہوا جہاں خدا رسیدہ بزرگ رہتے تھے، ان کے علم و فضل اور کشف و کرامات کی بڑی شہرت تھی۔ قاصد نے دل میں سوچا مجھے ان بزرگ کی خدمت میں جانا چاہیے، ممکن ہے شیخ کی نگاہِ التفات سے بگڑا کام بن جائے اور مایوسی راحت میں بدل جائے۔ یہ سوچ کر چشم ِ پُرآب لے کر شیخ کے پاس حاضر ہوا ، ان کی نورانی صورت دیکھتے ہی اپنے آپ پر اختیار نہ رہا، ضبط کا دامن ہاتھ سے نکل گیا اور روتا ہوا ان کے قدموں میں جاگرا ۔
اس قدر آنسو بہائے کے سارا بوجھ ہلکا ہوگیا ۔شیخ نے اٹھا کر شفقت سے گلے لگایا اور پوچھا ’’کیا بات ہے ؟ پریشانی کا سبب کیا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا’’ جس کام کے لیے برسوں پہلے وطن سے نکلا تھا ، وہ کام نہیں ہوا۔ اب سوچتا ہوں واپس جاکر بادشاہ کو کیا جواب دوں گا؟ بادشاہ نے مجھے بقائے دوام کے شجر کی تلاش میں بھیجا تھا، میں نے اس کی جستجو میں اس ملک کا چپہ چپہ چھان مارا مگرناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ نہ ہاتھ آیا ‘‘۔
شیخ نے سن کر کہا :’’سبحان اللہ ! بھائی تُونے بھی سادہ لوحی کی حد کردی،ارے اتنا وقت خوا مخواہ ضائع کیا ، تم لوگوں نے اصل بات کو نہیں سمجھا ، لفظوں کو لے لیا معنی پر غور نہیں کیا ۔ وہ شجر وہ ہنر ہے ، جس کا ثمر حیات ِجاوداں کا اثر رکھتا ہے، اور اس درخت کا پتّا معرفت ِ خداوندی ہے ، جس کو علم حاصل کرکے خدا کی معرفت مل جائے وہ زندۂ جاوید ہوجاتا ہے، اسے ہی دائمی زندگی کہتے ہیں‘‘۔
درسِ حیات:اے عزیز ! صرف الفاظ پر غور نہ کر، معنی کے اندر غوطہ لگا۔ صورت کے پیچھے مت بھاگ، سیرت دیکھ۔ ظاہر پر نہ جا ، باطن دیکھ، صفت پر نظر رکھ، تاکہ تجھے ذات کی طرف لے جائے۔ یہ نام ہی کا جھگڑا ہے جس نے مخلوق کے اندر اختلاف کی گرہیں ڈال دی ہیں۔ جہاں معنی پر نگاہ کی جاتی ہے وہاں اختلاف نہیں رہتا…!!!