جدھر مولا، ادھر آصف الدولہ

کوئی چاہے جتنی کوشش اور تدبیر کرے مگر جو اُس کے مقدر میں ہوتا ہے اُس کو وہی ملتا ہے۔ اس مثل کے تعلق سے یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے:
ایک بار نواب آصف الدولہ کے یہاں ایک فقیر آیا اور عرض کیا:
’’حضور! میں آپ کی سخاوت کے چرچے سن کر حاضر ہوا ہوں۔ ایک ایک دانے کے لیے محتاج ہوں۔ کبھی پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوا۔ اگر آپ کی نظر عنایت ہوجائے تو بندے کے دن پھر جائیں‘‘۔
نواب نے کہا:
’’مرضیِ مولا میں کون دخل دے سکتا ہے۔ جو تمہارے مقدر میں ہے وہ تم کو ضرور ملے گا‘‘۔
نواب نے اپنے وزیر کو بلاکر کہا:
’’ان کے سامنے ایک روپیوں سے اور دوسری پیسوں سے بھری ہوئی تھیلیاں رکھ دو۔ ان میں سے ایک تھیلی ان کی ہوگی‘‘۔
وزیر نے دونوں تھیلیاں فقیر کے سامنے رکھ دیں۔ فقیر سے کہا گیا جس تھیلی کو تم اٹھالو گے وہ تمہاری ہوگی۔ فقیر نے ایک تھیلی اٹھائی اور اسے کھول کر دیکھا تو اس میں پیسے تھے۔
نواب نے کہا:
’’جو تمہارے مقدر میں تھا وہ تم کو مل گیا۔ اب میں کیا کرسکتا ہوں؟ جدھر مولا، ادھر آصف الدولہ‘‘۔ (”چشم بیدار“، جولائی 2018ء)