فری میسن تحریک

کتاب کا نام ہے: Craft The ،مصنف کا نام ہے: John Dicxie اور ناشر ہیں Hodder۔ میں نے خریدنے کی خواہش پر قابو پا کر لائبریری سے عاریتاً لے کر پڑھی۔ کتاب یقیناً معلوماتی ہے مگر اتنی دلچسپ نہیں کہ دن کا چین اور رات کا آرام حرام کردے۔ نہ سنسنی خیز ہے اور نہ رونگٹے کھڑے کردینے والی، اس لیے مجھے یہ جان کر کوئی زیادہ خوشی نہ ہوئی کہ نہر سویز کے مغرب میں بھی لوگ ہوائیاں اڑانے اور اُنہیں قابلِ اعتبار بناکر پیش کرنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر کئی معتبر لوگوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ فری میسن نہ صرف انقلابِ فرانس بلکہ جنگ عظیم (اوّل اور دوم) شروع کرانے کے ذمہ دار ہیں۔ افواہ بازوں نے اس پر اکتفا نہ کیا، ایک امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قاتلHarvey Oswald کے بھی اس تنظیم کا رکن ہونے پر اصرار کیا گیا۔ برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک کے غرق ہوجانے اور بہت سے تباہ کن واقعات پر صرف اُس مصافحہ کی بدولت ہمیشہ کے لیے رازداری کا دبیز پردہ ڈال دیا گیا جو فری میسن تنظیم کے اراکین کا طرۂ امتیاز ہے۔ اگر میں مذکورہ بالا خرافات کی طرح تمام بے بنیاد اور سازشی ذہن رکھنے والوں کے زرخیز دماغ کی تخلیقات کو لکھوں جن کا سہرا فری میسن کے سر باندھا جاتا ہے، تو سارا کالم بھر جائے گا۔ حقیقت اپنی جگہ مگر اسے بیان کرنے والوں نے زیبِ داستان کے لیے کم نہیں بلکہ بہت کچھ بڑھا دیا۔ فری میسن اپنے آپ کے بارے میں راسخ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اس دنیا کی ازلی اور ابدی سچائیوں کے امین ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ انسانی قدروں کے نگہبان سمجھتے ہیں۔
فری میسن کو سترہویں صدی میں پتھر تراشنے والوں کی برادری نے جنم دیا۔ اس کی رسمی بنیاد تین صدیوں قبل رکھی گئی۔ اس کی شاخوں کو Lodges کہتے ہیں۔ دو صدیوں کے اندر نہ صرف برطانیہ کے ہر حصے بلکہ دنیا کے زیادہ ممالک میں ان شاخوں کا جال پھیل گیا۔ نہ صرف امریکی انقلاب کے رہنما اور پہلے صدر جارج واشنگٹن اور 13 مزید امریکی صدور فری میسن تھے بلکہ بے شمار ارب پتی جرنیل، بڑے فنکار اور سربراہانِِ مملکت بھی۔ ونسٹن چرچل، Mozart، گوئٹے، Peter Sellers آسکروائلڈ اور والٹ ڈزنی۔ مذکورہ شخصیات کی طرح ہزاروں نامور افراد نے برضا و رغبت روایتی ایپرن باندھ کر حلف برداری کی رسم میں حصہ لیا۔ امریکہ میں گیارہ لاکھ اور دنیا بھر میں ساٹھ لاکھ افراد کا تعلق فری میسن سے ہے۔ اب اس تنظیم کا سورج نصف النہار پر نہیں رہا، ساٹھ سال پہلے صرف امریکہ میں اس کے اراکین کی تعداد چالیس لاکھ تھی، جو اَب ایک چوتھائی رہ گئی ہے۔
( نسیم احمد باجوہ۔روزنامہ دنیا یکم دسمبر2020ء)