حکومت اور حزب اختلاف کا ٹکرائوسیاست اور جمہوریت بند گلی میں!

ہماری سیاست اور جمہوریت اِس وقت بند گلی میں ہیں، کیونکہ دونوں فریق یعنی حکومت اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ سیاست اور جمہوریت مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں اور اس کی کلید مکالمہ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں کوئی بھی فریق کسی سے بات چیت یا مفاہمت کے لیے تیار نہیں۔ عمومی طور پر سیاسی مفاہمت حکمران طبقے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت ہی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صورتِ حال کو بگڑنے سے بچانے کے لیے حزبِ اختلاف کو مفاہمت کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھنے کا کوئی درمیانی راستہ تلاش کرے۔ لیکن عمران خان کا سخت گیر یا جارحانہ رویہ بھی مفاہمت میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی رویہ حزبِ اختلاف کا بھی ہے جو کسی بھی طور پر مفاہمت تو کجا، عمران خان کی حکومت کے سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنے سے ہی انکاری ہے۔
حزبِ اختلاف یا پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ سے تو بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن حکومت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ سے بھی اسی صورت میں بات چیت ہوگی جب عمران خان کی حکومت کو ختم کیا جائے۔ یقینی طور پر ایسی شرائط پر تو کوئی بھی حکمران طبقہ حزبِ اختلاف سے بات چیت نہیں کرے گا۔ حزبِ اختلاف کا مطالبہ نئے منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں، مگر یہ سب کچھ کیسے ہوگا، اس کا کوئی سیاسی بلیوپرنٹ ان کے پاس نہیں۔ ایک طرف منصفانہ اور شفاف انتخابات کا مطالبہ، اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ سے حکومت کے خاتمے کا مطالبہ خود اپنے داخلی تضاد کو نمایاں کرتا ہے۔ اس وقت حزبِ اختلاف اپنے مطالبات کے ساتھ میدان میں ہے۔ کورونا وبا کی دوسری لہر اور اس مرض کے بڑھتے ہوئے معاملات کے باوجود پی ڈی ایم بضد ہے کہ ان کی تحریک نہیں رکے گی۔ ان کے بقول دسمبر اور جنوری تک ہر صورت عمران خان کی حکومت کا خاتمہ یقینی بنانا ہے۔
بنیادی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مفاہمت یا بات چیت کے لیے پہلی شرط سازگار ماحول ہوتا ہے۔ اس ماحول کے بغیر مفاہمت کی سیاست آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ ذمہ داری حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کی ہوتی ہے کہ وہ خود ایسا ماحول پیدا کریں جو مفاہمت کی پیش رفت کو آگے بڑھا سکے۔ لیکن جب سیاسی ماحول حکومت کو گرانا، یا حکومت کے مخالف کو دیوار سے لگانا ہو تو پھر مفاہمت کا راستہ بہت دور ہوجاتا ہے۔ حکومت ہو یا حزبِ اختلاف، بظاہر لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی مخالفت یا تقسیم کو عملاً دشمنی کی سیاست میں تبدیل کردیا ہے۔ سیاسی تعصب، نفرت، بغض، الزام تراشی، کردارکشی پر مبنی سیاست نے ہماری سیاست کو خاصا تلخ کردیا ہے۔
دونوں طرف سنجیدہ سطح کے اہلِ سیاست بھی موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے جب مفاہمت کے بجائے بگاڑ کی سیاست کو غلبہ حاصل ہوجائے تو سنجیدہ سطح کے لوگوں کو سیاسی جماعتوں میں زیادہ پذیرائی نہیں ملتی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادتیں خود بھی محاذ آرائی کی سیاست کو ہی پسند کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ محاذ آرائی کی سیاست ان کو سیاسی فائدہ دیتی ہے، اور اسی بنیاد پر وہ اپنے سیاسی کارکنوں کو محاذ آرائی کی سیاست سے جوڑ کر اپنا سیاسی مفاد بھی تلاش کرتی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں جب سیاسی فریق آپس میں بات چیت یا مفاہمت کے لیے تیار نہ ہوں تو تعطل کی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے۔ ایسے میں سیاست کے اصول یہی کہتے ہیں کہ کوئی تیسرا فریق بیچ میں فریق بن کر دونوں میں مفاہمت کا راستہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ایسی صورتِ حال میں جب دونوں فریق ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو تیسرا فریق بھی کچھ نہیں کرسکتا۔
پی ڈی ایم کے اہم قائدین نے جس انداز میں اداروں کو بھی اپنا ہدف بنایا ہے اور بالخصوص نام لے کر اداروں کے سربراہان کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ایسی صورتِ حال میں مفاہمت کے لیے کون آگے بڑھے گا! خود وزیراعظم عمران خان، نوازشریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن ایک دوسرے کے خلاف جو لب و لہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں وہ کسی بھی طرح جمہوری سیاست کی عکاسی نہیں کرتا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر حکومت اور حزب اختلاف مفاہمت کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو اس مفاہمت کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ کیونکہ اِس وقت تو ایجنڈا ایک ہی ہے کہ ہمیں ہر صورت میں عمران خان اور ان کی حکومت کو گھر بھیجنا ہے، اور یہ نکتہ ایسا ہے جس پر حکومت اور حزبِ اختلاف کا بات کے لیے مل بیٹھنا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں لگتا۔ خاص طور پر جب حزبِ اختلاف کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کو کورونا سے تشبیہ دی جارہی ہو تو پھر تعطل کا پیدا ہونا فطری نظر آتا ہے۔
حکومت اور حزبِ اختلاف کی موجودہ لڑائی یا بداعتمادی کی بھاری قیمت ملک کو داخلی اورخارجی مسائل میں اضافے کی صورت میں دینی پڑرہی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں جب ملک کو کئی حوالوں سے کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان بڑھتی ہوئی بداعتمادی کو ہر صورت میں کم ہونا چاہیے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم عمومی طور پر حکومت یا شخصیات کی مخالفت میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ قومی مفادات کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے میں سیاست اور جمہوریت کے ساتھ ساتھ ریاست کے اپنے مفادات پر بھی زد پڑتی ہے۔ ذاتیات کو اس حد تک آگے نہیں بڑھنا چاہیے کہ اس کے نتیجے میں سیاست میں ذاتی رنجشیں اس حد تک بڑھ جائیں کہ واپسی کا راستہ ممکن نہ ہو۔
اسی طرح بداعتمادی کا ماحول محض اہلِ سیاست تک محدود نہیں، بلکہ ہمیں اہلِ سیاست اور اداروں کے درمیان بھی خاصی تلخیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو زیادہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہیں۔ کیونکہ حزبِ اختلاف کا حکومت یا اداروں سے ٹکرائو کا ماحول پیدا ہوگا تو اس کے نتیجے میں سیاسی اور ادارہ جاتی کشیدگی میں مزید تلخیاں پیدا ہوں گی۔ ایسی صورت میں تمام فریقوں کو زیادہ تدبر اور فہم وفراست کی ضرورت ہے۔ ذاتیات کی سیاست سے زیادہ قومی سیاست سے جڑے معاملات پر سب کو سنجیدگی دکھانا ہوگی۔ اس میں یقینی طور پر حکومت کو ہی پہل کرنا ہوگی، اور معاملات کو جذباتی انداز میں دیکھنے کے بجائے مفاہمت کے دروازے کو ہی کھولنا ہوگا۔
شہبازشریف نے ایک بار پھر قومی سطح پر نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز دی ہے، اور ان کے بقول تمام فریقوں کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس سے پہلے بھی کئی لوگ نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز دے چکے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ نیشنل ڈائیلاگ کیسے ہوگا؟ کیونکہ پی ڈی ایم تو کہتی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میںحکومت کے ساتھ نہیں بیٹھے گی، ایسے میں بات چیت کس سے ہوگی؟ اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ فوج حکومت کو نکال کر ہم سے بات چیت کرے گی تو اس کے امکانات بہت محدود ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو اس کے نتائج کتنے خطرناک ہوں گے کیا حزب اختلاف کو اس کا اندازہ ہے؟
اہلِ سیاست کو سمجھنا ہوگا کہ مفاہمت کا راستہ بھی خود ان کو ہی تلاش کرنا ہوگا۔ غیر سیاسی کرداروں پر انحصار کرنے کی پالیسی درست نہیں، اور اگر اہلِ سیاست… چاہے وہ حزبِ اقتدار سے ہوں یا حزبِ اختلاف سے… مل بیٹھ کر خود اپنے معاملات حل نہ کرسکیں تو پھر سیاست اور جمہوریت کا عمل بہت پیچھے رہ جائے گا۔ اس لیے اب بھی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے پاس وقت ہے کہ وہ بند راستوں کو کھولیں اور آپس میں بات چیت یا مفاہمت کے عمل کو تقویت بھی دیں اور سیاسی طاقت بھی۔وگرنہ دوسری صورت میں نقصان بھی اہلِ سیاست کا ہی ہوگا، جو بند راستوں کو کھولنے کے بجائے سیاست میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کی وجہ بنے۔مسئلہ کسی کی ہار اورکسی کی جیت نہیں ہونا چاہیے،بلکہ اصل جیت پاکستان ا ور اس سے جڑے مفادات کی ہو، یہی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔
nn