جنوبی امریکہ میں نئی’گلابی لہر‘

بولیویا کا شمار جنوبی امریکہ کے انتہائی پس ماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ بولیویا میں سیاسی و معاشی عدم استحکام رہا ہے۔ عشروں تک غیر یقینی صورتِ حال برقرار رہنے سے معاملات اتنے بگڑے ہیں کہ مایوسی عوام کے ذہنوں کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔ بولیویا کم و بیش ڈیڑھ عشرے تک ایوو موریلز (Evo-Morales) کی مطلق العنان حکومت کے تحت رہا ہے۔ اس دوران تھوڑی بہت اچھائیاں اور اچھی خاصی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ ایوو موریلز نے ملک کو جتنا دیا اس سے کہیں زیادہ لیا۔ اب وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں گزشتہ برس متنازع انتخابات کے بعد عوام کے شدید احتجاج کے باعث فرار ہوکر ارجنٹائن میں پناہ لینا پڑی تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر جنوبی امریکہ میں ’’پنک ٹائڈ‘‘ (گلابی لہر) اٹھی ہے۔ یہ اصطلاح بائیں بازوں کی حکومتیں قائم کیے جانے کے رجحان کی نشاندہی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ڈیڑھ عشرے پہلے بھی جنوبی امریکہ میں گلابی لہر اٹھی تھی اور خطے کے ممالک کی غالب اکثریت میں بائیں بازو کی جماعتوں نے حکومت بنائی تھی۔ بولیویا میں ۱۸؍اکتوبر کے صدارتی انتخاب میں لوئیز آر کے (Luis Arce) کی کامیابی نے ثابت کردیا ہے کہ عوام ایک بار پھر بائیں بازو کی حکومت چاہتے ہیں، تاہم وہ چند ایک تبدیلیاں بھی دیکھنے کے متمنی ہیں۔ عوام کو بائیں بازو کی سیاست کی طرف مائل کرنے میں عبوری صدر جینائن انیز کے رویے نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کورنا وائرس کی وبا کے دوران ہونے والی پولنگ کے نتائج نے ملک کی سیاست کا رخ بدل دیا ہے۔ عوام نے ایک بار پھر دائیں بازو کی سیاست کو ترک کرکے بائیں بازو کے حق میں فیصلہ سنادیا ہے۔


لوئیز آرکے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سابق صدر ایوو موریلز کے دور میں وزیر معاشیات کی حیثیت سے کلیدی کردار کے حامل رہے تھے۔ تحریک برائے سوشلزم (ایم اے ایس) کے پلیٹ فارم سے انہوں نے بھی ملک کے سیاسی معاملات میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ان کی فتح نے پورے خطے میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے حوصلے بلند کردیے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ لوئیز آرکے کی شکل میں ایوو موریلز کی پالیسیوں کے تسلسل کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ ویسے لوئیز آرکے نے عوام کے موڈ کا اندازہ لگاتے ہوئے انتخابی مہم کے دوران کئی مواقع پر وضاحت کی کہ ان کی حکومت ایوو موریلز کی پالیسیوں کا تسلسل ثابت نہیں ہوگی۔
لوئیز آرکے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایوو موریلز کے ’’لارجر دین لائف‘‘ امیج سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ ایوو موریلز نے ملک پر ۱۵ سال حکومت کی۔ اس دوران اقتدار پر ان کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ اسی سے وہ خرابی پیدا ہوئی جس نے انہیں ملک سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اب وہ ارجنٹائن میں جلا وطنی کی زندگی ترک کرکے وطن واپس آنے اور نئے سرے سے سیاسی جدوجہد کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے لوئیز آرکے کی فتح کے بعد کہا کہ ہم بہت جلد ایک ہوں گے اور مل کر جدوجہد کریں گے۔ وہ اب بھی ایم اے ایس کے سربراہ ہیں۔ دوسری طرف لوئیز آرکے نے کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت میں ایوو موریلز کو شامل نہیں کریں گے۔
عبوری صدر جینائن انیز نے گزشتہ نومبر میں چارج سنبھالا تھا۔ ان کا تعلق دائیں بازو سے ہے۔ انہوں نے اس دوران اختیارات سے واضح طور پر تجاوز کیا ہے۔ وہ متنازع انتخابات کے بعد ایووموریلز کے حکومت چھوڑنے اور فوج سے مستعفی ہوکر ارجنٹائن فرار ہونے پر ایوانِ صدر میں داخل کی گئی تھیں۔ انہوں نے عبوری حیثیت کے باوجود ایم اے ایس کے خلاف کریک ڈاؤن کرایا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایوو موریلز کے چند مقبول اقدامات کو بھی کالعدم قرار دیا۔ جینائن انیز نے مخالفین کو بھی سختی سے کچلنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سب کچھ ایوو موریلز اور ان کی پارٹی کے حق میں گیا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر دائیں بازو کی جماعتوں کے ہاتھ میں اقتدار چلا گیا تو وہ مطلق العنانیت کی نئی مثال قائم کریں گی۔
۲۰۰۶ء میں جنوبی امریکہ میں ’’گلابی لہر‘‘ اٹھی تھی۔ بائیں بازو کی جماعتوں کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی تو بولیویا میں ایوو موریلز کو بھی ابھرنے کا موقع ملا اور انہوں نے حکومت بنائی۔ انیسویں صدی سے یورپ کے سفید فام باشندوں کی اولاد بولیویا پر حکومت کرتی آئی تھی۔ مقامی نسل سے تعلق رکھنے والے موریلز پہلے بولیوین حکمران تھے۔
ایوو موریلز نے وینیزویلا کے صدر ہیوگو شاویز اور دیگر ہم خیال علاقائی رہنماؤں کے ساتھ مل کر شدید غربت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا۔ غربت ختم کرنے کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیے۔ عالمی معاشی حالات میں بہتری پیدا ہوئی تو ایوو موریلز کے لیے بھی آسانی پیدا ہوئی اور ان کے اقدامات کامیابی سے ہم کنار ہوتے گئے۔ ملک بھر میں غربت کی سطح نیچے لانا ممکن ہوسکا۔ بولیویا کے عوام شدید غربت کے باعث مایوسی کا شکار تھے۔ آگے بڑھنے کی لگن دم توڑنے لگی تھی۔ غربت کی سطح نیچے آئی تو قوم نے عزتِ نفس اور احترام کے ساتھ جینا سیکھا۔ بے روزگاری، غربت اور مہنگائی کی ستائی ہوئی بولیوین قوم کو ایوو موریلز نے نئی زندگی دی۔
سیاست میں اچھائیاں اور برائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ایوو موریلز نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے تقسیم کے اصول پر عمل کیا۔ مطلق العنان طرزِ حکومت نے ملک میں سیاسی سطح پر محاذ آرائی پیدا کی۔ ایوو موریلز نے اختیارات کو اپنی ذات میں جمع کرلیا۔ اپوزیشن کے لیے کام کرنے کی گنجائش ختم کرنے پر خاص توجہ دی گئی۔ آئین دوبارہ تحریر کیا گیا جس کے تحت صدر کے منصب کے لیے اختیارات بڑھادیے گئے۔
جب تیسری معیادِ صدارت ختم ہونے لگی تو ایوو موریلزکو چوتھی بار صدر منتخب ہونے کی طلب محسوس ہوئی۔ انہوں نے ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے پوچھا کہ کیا آئین میں ترمیم کے ذریعے چوتھی بار بھی صدر منتخب ہوا جائے تو عوام نے واضح طور پر رائے دی کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی بھرتی کے باعث ریفرنڈم سے سامنے آنے والی عوام کی رائے کو نظر انداز کردیا گیا۔ عدالت نے یہ عجیب فیصلہ سنایا کہ ریفرنڈم کے نتائج سے صدر کے سیاسی حقوق کی توہین ہوئی ہے!
تب تک ایوو موریلز اپنے بہت سے حامیوں کو ناراض کرچکے تھے۔ وہ اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مخالفین کے خلاف سخت تر اقدامات کا فیصلہ کیا۔ اس کے نتیجے میں لوگ مزید بدظن ہوئے۔ لوگ اب نیا لیڈر چاہتے تھے۔ ایسے میں ۲۰۱۹ء کے انتخابات آئے۔ ابتدائی نتائج ایوو موریلز کے خلاف تھے۔ نتائج کی رپورٹنگ کو پراسرار طور پر روک دیا گیا اور پھر چوبیس گھنٹے بعد ایوو موریلز کی فتح کا اعلان کردیا گیا۔ یہ تو صریح دھاندلی تھی۔ اپوزیشن اس دھاندلی کے خلاف میدان میں آگئی۔ دارالحکومت لاپاز (La Paz) شدید احتجاج کی زَد میں آیا تو ملک کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ جب ہنگامہ آرائی بڑھی اور حکومت مخالف تحریک نے زور پکڑ لیا تو پولیس اور فوج نے بھی عوام کا ساتھ دیا۔ اسے ایوو موریلز نے بغاوت قرار دیتے ہوئے ملک سے راہِ فرار اختیار کی۔
لوئیز آرکے نے خود کو ایوو موریلز سے الگ کرنے اور الگ رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ انہوں نے چوتھی بار صدر منتخب ہونے کی ایوو موریلز کی کوشش کو غلطی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود صرف ایک مدت تک صدر رہیں گے اور اس کے بعد حکومت کی باگ ڈور نئی نسل کو سونپ کر ایک طرف ہو جائیں گے۔ انہوں نے ایوو موریلزکو ’’تاریخ ساز شخصیت‘‘ قرار دیا ہے، تاہم یہ بھی کہا ہے کہ نئی حکومت میں ان کے لیے کوئی کردار نہیں ہوگا۔ ملک کو سیاسی و معاشی استحکام کی ضرورت ہے۔ ایسے میں کسی بھی نوع کی سیاسی مہم جوئی کی گنجائش نہیں۔
بولیویا میں لوئیز آرکے کی فتح سے پورے خطے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لوگ پرامید ہیں کہ ایک بار پھر گلابی لہر اٹھے گی یعنی بائیں بازو کی عوام دوست حکومتیں قائم ہوں گی اور مسائل حل ہوں گے۔ وینیزویلا کے صدر نکولا مادورو نے لوئیز آرکے کی انتخابی کامیابی کو عظیم فتح قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوئی آرکے کا تعلق بائیں بازو سے ہے مگر وہ اب اس نکتے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بولیویا کے عوام مطلق العنان طرزِ حکومت پسند نہیں کرتے۔ ایوو موریلز نے ملک میں شدید نوعیت کی سیاسی محاذ آرائی پیدا کردی تھی۔ لوئیز آرکے یہ سب نہیں چاہیں گے۔
بولیویا آج بھی شدید غربت کی زَد میں ہے۔ معاشرتی مسائل بھی حل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ کورونا کی وبا سے الجھنیں بڑھ گئی ہیں۔ یہ تمام مسائل حل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ بولیویا کے نئے صدر کو غیر معمولی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مگرخیر، مسائل کے معاملے میں بولیویا انوکھا نہیں۔ خطے کے تمام ہی ممالک کو کسی نہ کسی سطح پر مسائل کا سامنا ہے۔
محض بڑھک مارنے سے کام نہیں چلے گا۔ چیخنے چِلّانے سے بھی کچھ نہ ہوگا۔ لوئیز آرکے کو کام پر توجہ دینا پڑے گی۔ ملک کے حالات بہتر بنانے پر دھیان دیے بغیر بات نہیں بنے گی۔ کورونا کی وبا کے خاتمے پر غیر معمولی مسائل کا سامنا ہوگا۔ غربت پھر بڑھ چکی ہے۔ سماجی بے چینی بھی دور کرنا ہوگی۔ بولیویا کے عوام بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہیں آگے لے جانے کے لیے کام کرنے اور ولولے کے ساتھ زندہ رہنے کی تحریک دینا ہوگی۔ لوئیز آرکے کو نظریاتی طور پر زیادہ پرجوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ مصالحت اور مفاہمت سے کام لینا ہوگا۔ دوسروں کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کرنا ہوگی۔ عوام انقلاب وغیرہ کچھ نہیں چاہتے۔ وہ تو نتائج چاہتے ہیں۔ انہیں اپنے مسائل کا حل چاہیے۔
“After Bolivia’s election, is another ‘Pink Tide’ rising in Latin America?” “worldpoliticsreview.com”. Oct. 22, 2020
nn