حالات تصادم کی طرف جارہے ہیں۔ اس وقت حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ تینوں کا امتحان ہے۔ سیاست میں کشیدگی بڑھتی رہی تو ملکی معیشت مفلوج ہوجائے گی۔ ملتان نے بتا دیا ہے کہ لاہور کا جلسہ کیسا ہوگا۔ اپوزیشن ابھی تک کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرسکی تھی۔ اب اسے لانگ مارچ کا آپشن اختیار کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت کے پاس مزاحمت کا نہیں صرف مذاکرات کا راستہ باقی بچا ہے۔ اپوزیشن اتحاد اس وقت دو آپشن پر غور کررہا ہے، ایک استعفیٰ لیا جائے یا دو کا مطالبہ کیا جائے؟ آخری آپشن یہ ہوسکتا ہے کہ اجتماعی استعفے دے کر نظام کو چیلنج کردیا جائے۔ خبر یہی ہے کہ تصادم شروع ہوچکا ہے، گزشتہ انتخابات کے بعد عمران خان ملک کے وزیراعظم تو بن گئے مگر حکومت نہیں چلا سکے۔ پچھلے دو، ڈھائی سال میں سیاسی صورتِ حال بدل چکی۔ ملک کے سیاسی تجزیہ کار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ خراب کارکردگی کی بناء پر تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاسی ساکھ بری طرح پٹ چکی ہے،حکومت ایک بار پھر آئی ایم ایف کی شرائط پر پیکیج لینے کو تیار بیٹھی ہے، اور درخواست کررہی ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہماری مجبوریوں کو سمجھا جائے اور مزید وقت دیا جائے۔ اسے امید بندھ گئی ہے کہ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن جلد پاکستان کی درخواست پر فیصلہ کرے گا۔ اصل ایشو ٹیکس اصلاحات ہیں، عالمی بینک کا خیال ہے کہ پاکستان کی معیشت سالانہ 13 ہزار ارب روپے ٹیکس ادا کرسکتی ہے، اور اس کی رائے میں سالانہ 9 ہزار ارب روپے ٹیکس ہی ادا کردیا جائے تو بھی بہتری ممکن ہے۔ حکومت اب ڈاکٹر وقار مسعود کے ذریعے ایف بی آر میں اصلاحات لائے گی۔ معاشی اصلاحات تو ڈاکٹر وقار مسعود لے آئیں گے لیکن سیاسی امور کے لیے وزیراعظم کے پاس کوئی طبیب نہیں ہے، انہیں سب سے بڑا چیلنج پنجاب میں ہے، انہیں متعدد بار یہاں تبدیلی کا مشورہ دیا گیا مگر وزیراعظم کا خیال ہے کہ اپنا ایک مہرہ ہٹایا تو یہاں سب کچھ ہٹ جائے گا۔ تحریک انصاف کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آئندہ انتخابات میں اسے پارلیمنٹ کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مدمقابل کھڑا ہونا ہے، مگر حالات یہ ہیں کہ اس بات کا خدشہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت نہیں سمجھا جائے گا۔ اگلے الیکشن میں امیدواروں کی کوشش ہوگی کہ ان پر ناکامی اور خراب کارکردگی کا دھبہ نہ لگے۔
حکومت کی نظر صرف اپوزیشن پر ہے، اور وہ اسے نیب کے ذریعے دباکر رکھنا چاہتی ہے، تاہم نیب کے خلاف بھی مزاحمت زور پکڑنے لگی ہے۔ سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے بھی قومی احتساب بیورو (نیب) پر کاروباری افراد پر پلی بارگین کے لیے دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا ہے، انہوں اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ نیب فوج کا نام لے کر فوج کی توہین کررہا ہے، کاروباری افراد عزت بچانے کے لیے پلی بارگین کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سینیٹ میں اپنے کیس کی تفصیلات پیش کریں گے۔ یہ الزامات معمولی نہیں ہیں۔
وزیراعظم بار بار کہہ رہے ہیں کہ این آر او نہیں دوں گا، مگر یہ این آر او دیا جا چکا ہے، نوازشریف کی لندن روانگی، پیپلزپارٹی کو مقدمات میں رعایت… یہ سب کچھ این آر او ہی تو ہے۔ رعایت مل جانے کے بعد دونوں جماعتوں نے ایک بڑے اتحاد میں شامل ہوکر حکومت پر جوابی وار کیا ہے۔ پی ڈی ایم کے ہونے جلسے حکومت پر کاری ضرب ہیں۔
nn