بڑی بات ہے کہ آج جہاں اشاعتی ادارے بشمول اخبارات و رسائل بحرانی دور سے گزر رہے ہیں، وہاں ’’عمارت کار‘‘ کی پسندیدگی میں اضافہ ہورہا ہے، اس کی وجہ دراصل اس کے مدیر حیات رضوی کی مستقل مزاجی، اپنے کام سے سچی لگن جو کہ عشق کی حد تک ہے، اور اس کے معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنا ہے۔ اردو میں اس موضوع پر شائع ہونے والا یہ واحد جریدہ ہے جسے انگریزی بولنے والا طبقہ بھی سنجیدگی سے پڑھتا ہے۔
’’بنیادی بات‘‘ میں مدیر محترم رقم طراز ہیں:
’’تاریخِ عمارت کاری‘‘ (ہسٹری آف آرکی ٹیکچر) سر بینسٹر فلیچر (برطانیہ) کی ایک ایسی کتاب ہے جسے عمارت کاروں کی بائیبل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1896ء میں شائع ہوا تھا، اس کے بعد اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ تیس چالیس برس پہلے جب مجھے ’’عمارت کار‘‘ کا خیال آیا تھا تو ذہن میں یہ بھی تھا کہ ’’ہسٹری آف آر کی ٹیکچر‘‘ کو بھی اردو میں منتقل ہونا چاہیے، کیونکہ اس کے بغیر اردو کا عام قاری اس موضوع سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوسکتا۔ اس کتاب میں مصری عمارت کاری سے لے کر جدید زمانے کی عمارت کاری کا تقابلی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے خیال آیا کہ عمر بڑھتی جارہی ہے، کیوں ناں اس کے ترجمے کے کام کو شروع کردیا جائے؟ برکت ڈالنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جب تک زندگی ہے اور صحت قائم ہے کچھ نہ کچھ کام تو ہو ہی جائے گا۔ اس کتاب کو حصوں کی شکل میں شائع کردیا جائے کیونکہ ہر باب اپنی جگہ ایک مکمل چیپٹر ہے۔ چار چیپٹر مکمل کرلیے ہیں، باقی ترجمے کا کام جاری ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ ’’تاریخ عمارت کاری‘‘ کے نام سے اس شمارے میں شائع کیا جارہا ہے، جس سے کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا۔‘‘
دیباچہ میں مدیر محترم یوں مخاطب ہیں:
’’یہ عملی کام نہ صرف عمارت کاری کے طلبہ اور ہنرمندوں کو راغب رکھے گا، بلکہ وسیع عوامی تعداد جو عمارت کاری کو متاثر کرتی ہے اور احکامات صادر کرتی ہے تاکہ ماضی کی یادگاری عمارات کے مقابلے میں بہتر عمارات کا تقاضا کیا جاسکے جو ہمارے زمانے کے مطابق متاثرکن ہوں اور اس قابل ہوں کہ انہیں مستقبل کی نسل کے لیے قومی ورثے کے طور پر منتقل کیا جاسکے۔‘‘
’’عمارت کار‘‘ میں ایک سلسلہ ’’تاریخِ لاہور‘‘ کا بھی جاری ہے جسے سید محمد لطیف نے تحقیق کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ یہ بڑا دلچسپ تذکرہ ہے جو ہمیں اپنی تاریخ سے آگاہ کرتا ہے۔ مقبرہ شاہ ابو اسحق قادری کے بارے میں بتاتے ہیں ’’یہ مقبرہ موضع مزنگ کے مشرق میں واقع ہے۔ یہ مربع شکل کا ہے اور اس پر ایک عالی شان گنبد ہے۔ مزار کے مغرب میں ایک بہت بڑی مسجد مع تین محرابوں اور حاشیہ دار فرش کے موجود ہے، مقبرے کے اندرونی جانب قرآن پاک کی سورۃ یٰسین اور سورۃ الملک عربی رسم الخط میں ابھرے ہوئے حروف میں نہایت خوب صورتی اور عمدگی سے لکھی گئی ہیں۔‘‘
یوں تو ’’عمارت کار‘‘ میں شائع ہر سطر اہمیت کی حامل ہوتی ہے لیکن جس خوب صورتی سے اسے مرتب کیا جاتا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ نوآموز صحافی جنہیں مستقبل میں اس کام کو آگے بڑھانا ہے اُن کے لیے ’’عمارت کار‘‘ ایک رول ماڈل ہونا چاہیے اور ’’عمارت کار‘‘ کو وہ ایک بطور نصابی کتاب ضرور پڑھیں۔
’’ماحولیاتی آلودگی‘‘ سے متعلق سید سرفراز علی کہتے ہیں: ’’لاکھوں درود و سلام ہوں اس رحمتہ اللعالمینؐ، نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر، جنہوں نے چودہ صدی قبل درختوں کی اہمیت سے آگاہ فرمادیا اور بطور خاص ہدایات جاری فرمائیں کہ ’’دورانِ جہاد کسی درخت کو نہ کاٹا جائے‘‘۔ مسند احمد میں مروی ہے جس کے راوی حضرت ثوبانؓ ہیں جس میں نبی کریمؐ نے چھوٹے بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کے قتل سے منع فرمایا ہے، اسی طرح آگ لگا کر جلانے، کھجور اور دیگر ثمردار درختوں کے کاٹنے سے بھی آپؐ نے منع فرمایا ہے۔
آج آلودگی کی بڑی وجہ درختوں میں کمی اور تیزی سے پھیلتا زہریلا دھواں ہے۔‘‘
اس شمارے میں نجیب عمر کی تحریر ’’لوہے کی دنیا‘‘، معروف کالم نگار صحافی جاوید چودھری کا مضمون ’’روس‘‘، ارنسٹ رچمنڈ کا ترجمہ ’’اسلامی فنِ تعمیر‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ قارئین کی تفریح طبع کے لیے اس میں مختصر افسانے اور معتبر شعرائے کرام کی غزلیں بھی موجود ہیں۔ ماہرِ موسیقی استاد فیاض خان پر کمار پرساد مکرجی کی تحریر کے ساتھ بیت بازی کے عنوان سے عمدہ اشعار بھی شمارے کی زینت ہیں۔ بیت بازی میں درج اشعار میں سے راقم نے کچھ ’’عمارت کار‘‘ کی مناسبت سے چنے ہیں:
بستیاں بستی رہیں گی لیکن
اپنا تو ایک ہی گھر تھا نہ رہا
(ناصر کاظمی)
ٹوٹے ہوئے مرقد بھی ذرا دیکھ لے چل کے
تنہائی میں نقشے نہ بنا تاج محل کے
(نشاطؔ)
گھر میں بیٹھے ہوئے کرلیتا ہوں تکمیلِ جنوں
میں نے تصویریں لگالی ہیں بیابانوں کی
(سرخوشؔ شادانی)
لڑ کھڑاتے ہوئے بھی اور سنبھلتے ہوئے بھی
اُس کے در پر ہی گئے خواب میں چلتے ہوئے بھی
(پیرزادہ قاسمؔ رضا صدیقی)
آرٹ پیپر پر رنگین طباعت کا حامل 80 صفحات کا یہ جریدہ صرف 300/= روپے میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ شہر کی لائبریریوں میں اس کا ہونا بہت ضروری ہے۔
nn