سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
سفیان بن عبداللہ ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
” یا رسول اللہ! جن چیزوں کو آپؐ میرے لیے خوفناک فرماتے ہیں اُن میں سب سے خوفناک چیز کون سی ہے؟“ یہ سن کر رسولﷺ نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا: ”اس کو“۔
(ترمذی، صحیح)
دنیا میں قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جو سب سے زیادہ پڑھی پڑھائی جاتی ہے اور اسی مناسبت سے اس کا نام ’’قرآن‘‘ ہے، یعنی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب۔ قرآن دراصل مبالغہ کا مصدر اور مفعول کے معنی میں ہے، مراد یہ ہے کہ یہ وہ کتاب ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی گئی اور پڑھی جاتی ہے اور پڑھی جائے گی۔ کروڑوں انسان صرف ناظرہ پڑھنے والے ہیں، جو لوگ دوسری زبان کے ہیں وہ بھی اس کلام الٰہی کو سمجھ کر عقیدت سے پڑھتے ہیں اور مشقت کے ساتھ اٹک اٹک کر پڑھتے ہیں، مگر اس عمل کو عبادت جان کر کرتے ہیں، لاکھوں ہیں جو اس کو یاد کرتے ہیں اور پڑھتے ہیں، رمضان المبارک کے مہینوں میں دنیا کے ہر خطے میں رات کی تراویح میں حفاظ اس کو دل بستگی اور خوش الحانی سے پڑھتے ہیں اور کروڑوں لوگ دل بستگی اور خوش عقیدگی کے ساتھ سنتے ہیں، جو اس کی مختلف تفسیریں پڑھتے ہیں، اس کے الفاظ کے معانی پر غور کرتے ہیں، اس کے مفہوم میں فکر و تدبر کرتے ہیں۔ لاکھوں ہیں جو اس کے علوم و معارف میں غرق رہتے ہیں، کروڑوں ہیں جو اس کو خوش الحانی اور ترتیل و تجوید سے پڑھتے ہیں۔ غرض دنیا کے گوشے گوشے میں قرآن حکیم کے پڑھنے کا جو اہتمام ہوتا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب کا نہیں ہوتا۔
قرآن پڑھنے پڑھانے کی بات جب کی جاتی ہے تو اصلاً اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ سمجھ کر پڑھا اور پڑھایا جائے۔ اس لیے کہ یہ محض وظیفے کی کتاب نہیں ہے، بلکہ ہدایت اور احکام کی کتاب ہے اور یہ اسی لیے نازل ہوئی ہے کہ لوگ اس کی تعلیمات کو سمجھیں، ان پر ایمان لائیں، اور اس کے احکام کی تعمیل کرکے اس کی روشنی میں اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ یہ بات ان تعلیمات اور احکام کو سمجھے بغیر ممکن نہیں۔
البتہ ایک بات نہایت وضاحت و صراحت کے ساتھ قطعی طور پر ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کو یہ امتیازی مقام حاصل ہے کہ محض اس کے الفاظ کو دہرانا اور بغیر سمجھے پڑھنا بھی عبادت اور باعثِ ثواب ہے۔ جو لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ قرآن کو بغیر سمجھے پڑھنا لاحاصل ہے، یا یہ کہتے ہیں کہ محض الفاظ دہرانے سے یہ بہتر ہے کہ آدمی کسی زبان میں ترجمہ ہی پڑھ لے، ان کا طرز فکر قطعاً غلط اور گمراہ کن ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن کو بے سمجھے پڑھنا بھی عبادت اور باعث ِاجر و ثواب ہے۔ اور یہ کوئی خود تراشیدہ دعویٰ نہیں ہے بلکہ اللہ کے رسولِ صادق و امین کا صاف صاف ارشاد ہے:
”جس نے اللہ کی کتاب میں سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے، اور نیکی کا اجر دس گنا ہوا کرتا ہے، اور میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔“ (عن عبداللہ بن مسعودؓ ۔ سنن ، کتاب فضائل القرآن)
اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے یہ حقیقت سمجھانے کے لیے کہ بے سوچے سمجھے قرآن پڑھنے کا بھی اجر و ثواب ہے، نہایت واضح اور قطعی مثال کا انتخاب فرمایا۔ آپؐ نے یہ حقیقت ذہن نشین کرانے کے لیے یعلمون تعلمون اور علیم و خبیر جیسے الفاظ منتخب نہیں فرمائے۔ اس لیے کہ ان کا مفہوم عام ہے۔ آپؐ نے حروفِ مقطعات کا انتخاب فرمایا جن کے بارے میں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ ان کا مفہوم اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، اور پھر آپؐ نے الم کا انتخاب فرما کر اس کے بھی الگ الگ حرف کرکے بتایا کہ الف کا الگ اجر ہے، لام کا الگ اجر ہے اور میم کا الگ اجر ہے۔ اور اس طرح آپؐ نے یہ حقیقت قطعی طور پر ذہن نشین کرائی کہ بے سمجھے پڑھنا بھی اجر و ثواب کا کام ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے بے پڑھے لوگ نماز میں سورۃ الفاتحہ اور کوئی سورت پڑھتے ہیں اور اس کے مطلب سے ناواقف ہوتے ہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ ان کی نماز نہیں ہوتی، یا ان کو نماز کا اجر و ثواب نہیں ملتا! ان کی نماز بھی سب کے نزدیک درست ہے اور یقیناً یہ لوگ اجر و ثواب کے بھی مستحق ہوں گے۔
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو ناظرہ قرآن بڑی عقیدت، ذوق و شوق اور للہیت کے ساتھ پڑھاتے ہیں، حفظ کراتے ہیں، پورا حفظ نہیں کرا پاتے تو چند سورتیں ضرور یاد کراتے ہیں۔ خود سنتے ہیں، دوسروں کو سنواتے ہیں، اس پر خوش ہوتے ہیں اور فخر کرتے ہیں اور بجا فخر کرتے ہیں۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور یہ امتیاز صرف اللہ کے کلام ہی کو حاصل ہوسکتا ہے۔ اللہ کے کلام میں جو جوش، ایمان کو گرمانے کی تاثیر اور تسخیر کی شان ہے وہ دنیا میں کسی کلام کو حاصل نہیں۔ اسی لیے اس کا پڑھنا بھی عبادت، سننا بھی عبادت اور حفظ کرنا بھی عبادت ہے، اور دنیا میں اسی تصور اور یقین کے ساتھ کروڑوں بچے ناظرہ قرآن پڑھتے یا حفظ کرتے ہیں اور رمضان کی روشن راتوں میں تراویح کی نماز میں قرآن سناتے ہیں، اور سننے والے عقیدت و دل بستگی اور ذوق و شوق کے ساتھ سنتے ہیں اور اللہ سے اس عبادت کے اجر و ثواب کی توقع رکھتے ہیں۔
اس گفتگو کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں بے سوچے سمجھے قرآن پڑھنے کی تلقین کررہا ہوں یا اُن لوگوں کے غلط مقصد کو تقویت پہنچا رہا ہوں جو قرآن کو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھنے کو عام مسلمانوں کے لیے غلط اور مضر بتاتے ہیں اور محض الفاظ دہرانے اور بے سوچے سمجھے تلاوت کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ میرا مقصد تو صرف اس غلط ذہن کی اصلاح ہے جو قرآن کے الفاظ دہرانے، بے سمجھے تلاوت کرنے اور قرآن حفظ کرنے اور قرآن سنانے کو دینی کام سمجھتے ہیں اور کلام اللہ کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں، اور اس فکر کو عام کرنے کی کوشش کرکے خود کو دانشور ظاہر کرتے ہیں۔ اور بعض نادان تو اس حد تک اپنی دانش و بینش کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر قرآن پاک کے الفاظ نہ پڑھ سکیں تو کوئی غم نہیں۔ اصل مقصد تو سمجھنا سمجھانا ہے۔ کسی بھی زبان میں قرآن کا ترجمہ پڑھ لینا اس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی بے سمجھے قرآن کی تلاوت کرے۔ یہ کلام اللہ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ اللہ کے کلام کو جو عظمت و تقدس حاصل ہے اور اس میں تسخیر و تاثیر کی جو قوت ہے، ایمان کو گرمانے، روح کو بالیدگی بخشنے اور آنکھوں کو نم ناک کرنے کی جو کیفیت ہے، وہ دنیا کی کسی کتاب کو حاصل نہیں۔ دنیا کی کوئی کتاب یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ وہ اللہ کی نازل کردہ اور محفوظ کتاب ہے۔ قرآن کا آغاز ہی اس حقیقت سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے۔ اس کے الفاظ بھی اللہ ہی کے الفاظ ہیں۔ کسی زبان میں اس کا ترجمہ ان الفاظ کا بدل نہیں ہوسکتا۔ ترجمہ اور تفسیر ان الفاظ کے مفہوم و معانی سمجھنے کی ایک کوشش ہے اور بس، وہ کلام الٰہی کا بدل نہیں ہیں۔
اس تصور کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن کتابِ ہدایت ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے قوانین اور احکام نازل کیے ہیں، اور یہ ہدایت فرمائی ہے کہ مسلمان اس کتابِ ہدایت کے مطابق اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی گزاریں، یہ الٰہی قوانین اور تعلیمات کا مجموعہ ہے۔ یہ نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔ (باقی صفحہ 41پر)
اس کی ہدایات پر غور و تدبر کیا جائے اور اس کے مطابق ہر طرح کے حالات میں زندگی گزاری جائے۔ امت نہ صرف یہ کہ اس روشنی میں عزت و سربلندی کی زندگی گزارے، بلکہ دنیا والوں کو اس سے روشناس کرانے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے آمادہ کرے۔ یہ امت کا منصبی فریضہ ہے کہ وہ قرآن کے پیغام کو عام کرے، ہر دور کے انسانوں کو سمجھائے۔ ظاہر ہے امت یہ منصبی فریضہ اُسی وقت انجام دے سکتی ہے اور اس ہدایت نامے کی روشنی میں زندگی گزارنے کا حق ادا کرسکتی ہے جب وہ اس میں غور و فکر کی عادت ڈالے، اس کے احکام کی روح کو سمجھے، ہر طرح کے سرد و گرم حالات پر اس کو منطبق کرے، اور اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا پختہ فیصلہ کرے۔ قرآن کے نازل کرنے والے نے اس کے نزول کا یہی مقصد بتایا ہے:
’’یہ کتاب مبارک ہم نے آپ کی طرف اس لیے نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور و تدبر کریں اور اہلِ عقل اس سے ہدایت و نصیحت حاصل کریں‘‘۔ (ص38:29)
امت نے اس قرآن کے ساتھ یہ نہایت غلط سلوک اور انتہائی زیادتی کی ہے کہ اس کو سمجھنے سمجھانے میں غور و تدبر کرنے اور اس کے احکام اور تعلیمات پر عمل کرنے کی عادت بڑی حد تک ختم کردی ہے۔ حالانکہ قرآن نے بار بار اس کی ہدایت فرمائی ہے، یہی اس کا مقصدِ نزول بتایا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز سے اس کی ترغیب دی، اس کے مواقع پیدا فرمائے اور مجلسوں میں اس طرح کے سوالات ابھارے کہ لوگوں میں قرآن پاک پر غور و فکر کا جذبہ ابھرے۔
حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب بھی کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوں، اللہ کی کتاب کی تلاوت کریں اور باہم اس کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کریں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمتِ الٰہی ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں، اور اللہ ان کا تذکرہ اپنے پاس کے لوگوں میں کرتا ہے‘‘۔(ابودائود)