شاید برصغیر کی تاریخ میں انسانوں کا ایسا اجتماع کبھی نہ ہوا ہو

یہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ صرف جنازہ ہی نہیں، ایسا اجتماع بھی چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھا۔ مجھے احمد بن حنبلؒ کا ایک قول یاد دلایا گیا کہ کسی عالم کی دربارِ حق میں قبولیت کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی نمازِ جنازہ سے لگائو۔ میں نے سید مودودیؒ کی نمازِ جنازہ کراچی میں پڑھی تھی، لاہور کے ہجوم سے واقف نہ تھا۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے جنازے میں شریک ہوا تھا اور ان پر رشک آیا تھا۔ اس لیے میں نے اپنے دل میں اس بات کی دعا مانگی تھی کہ میرے مولا میں اس شخص کا ایک عالم کے طور پر کئی طرح سے قائل نہ تھا، مگر آج گواہی دیتا ہوں اور دل سے گواہی دیتا ہوں کہ یہ خلقِ خدا بتا رہی ہے کہ یہ بارگاہِ الٰہی میں ایک مقبول بندہ تھا… اور یہ خادم حسین رضوی کا جنازہ تو ایسا جنازہ تھا کہ انسانوں کا ایسا ہجوم نہ کبھی دیکھا، نہ سنا۔ حق ان کی مغفرت کرے اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم ان کے مقام کو سمجھ سکیں۔ میں نے کہا یہ ایک عاشقِ رسولؐ کا جنازہ تھا۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ اسلام کے ایک عالم کا جنازہ تھا۔ مجھے بتانا یہ ہے کہ دینِ اسلام کی بنیاد عشقِ رسولؐ پر ہے۔ اسلام کسی شخصیت پرستی کا قائل نہیں۔ مسلمان عیسائیوں کی طرح اپنے پیغمبر کے نام سے نہیں پہچانے جاتے، وہ محمڈن نہیں کہلاتے۔ شخصیت پرستی اور ہیرو ورشپ کی ہمارے ہاں کوئی گنجائش نہیں، مگر اپنے رسولؐ سے محبت میں مسلمان کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ قرآن بھی آپ کو عشقِ رسولؐ کے بغیر درست طور پر سمجھ میں نہیں آسکتا۔ آپ عربی کے کتنے بڑے عالم ہوں، آپ نے دنیا جہاں کا فلسفہ اور مختلف علوم پڑھ رکھے ہوں،آپ دینی علوم کے شناور ہوں، آپ کچھ بھی ہوں، مگر آپ میں عشقِ رسولؐ کا جذبہ نہیں تو قرآن بھی آپ سے کلام نہیں کرے گا… بالکل نہیں کرے گا۔ میرے مرشد اقبال نے کہا تھا:
بہ مصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است
مصطفیٰؐ تک پہنچنا ہی دین ہے۔ اگر یہاں نہ پہنچے تو آپ جتنے بھی بڑے عالم بن جائیں آپ بولہب کے بولہب رہیں گے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ جو خادم حسین رضوی تھے، یہ دو روایات کے امین تھے۔ ایک تو علمی روایت جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؒ سے جا ملتی ہے۔ یہ جس مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں جامعہ نظامیہ رضویہ، وہ مولانا عبدالقیوم ہزاروی نے قائم کیا تھا۔ یہ مولانا سردار احمد محدث اعظم پاکستان کے شاگرد تھے اور مولانا سردار احمد کی نسبت براہِ راست اعلیٰ حضرت سے تھی۔ ہم بچپن میں حضور کی نسبت سے ان کی علمی شان کے بارے میں سنا کرتے تھے۔ میرے شہر ساہیوال میں ایک ان کے شاگرد تھے، دوسرے مولانا نور احمد محدث بصیر پوری کے۔ یہاں سے یہ نسبت اپنی تمام شدت کے تحت اس مردِ مجاہد کو منتقل ہوئی۔ انہیں پہلی شہرت اُس وقت حاصل ہوئی جب ممتاز قادری کے جنازے پر راولپنڈی شہر کے گلی کوچوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی اور اس اجتماع کی قیادت خادم حسین رضوی کررہے تھے۔ اہلِ دانش بحث کرتے رہے کہ ممتاز قادری کا اقدام درست تھا یا نہیں؟ وہ یہ سوچتے رہے کہ اس نے سلمان تاثیر کو درست قتل کیا یا غلط؟ وہ شور کرتے رہے کہ سلمان تاثیر کا جنازہ پڑھانے سے علماء نے انکار کرکے غلط کیا یا صحیح؟ مگر اُس دن خلقِ خدا کے ازدحام نے ثابت کردیا کہ عاشقانِ رسولؐ کیا کہتے ہیں۔ لاہور میں اس روایت کا دوسرا سرا بھی ایک شہیدِ عشقِ رسولؐ سے ملتا ہے۔ وہ غازی علم الدین شہید کا جنازہ تھا۔ اُس وقت شہر چھوٹا تھا۔ رسل و رسائل کے ذرائع بھی نہ تھے، مگر اُس زمانے کے پیمانوں کے لحاظ سے یہ اتنا بڑا جنازہ تھا کہ برسوں یاد رکھا گیا۔ لوگ تذکرہ کرتے رہے کہ قانون کی نظر میں جو شخص مجرم تھا عاشقانِ رسولؐ کی نظر میں اس کی شان کیا تھی۔ علامہ اقبال خود اس کی قبر کے انتظام میں شریک رہے، اور ان کا یہ نعرہ آج بھی زمین و آسمان پر گونج رہا ہے کہ ترکھان کا بیٹا ہم سب پر بازی لے گیا۔ غازی علم الدین شہید کی روایت عشق کی روایت تھی، ممتاز قادری تک اس روایت کا چرچا رہا۔ خادم حسین رضوی کی شکل میں اسے ایک شعلہ بیان مقرر مل گیا، جس کے زبان و بیان کے پیرایوں پر اعتراض ہوتے رہے، مگر مقبول حق اس کی ادائیں اتنی پسند کی گئیں کہ شاید برصغیر کی تاریخ میں انسانوں کا ایسا اجتماع کبھی نہ ہوا ہو۔
(سجاد میر، روزنامہ 92، پیر23 نومبر 2020ء)
nn