بچپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں فرش پر بیٹھ کر، لیٹ کر ’’الف لیلہ‘‘، ’’طلسم ہوشربا‘‘، ’’فسانۂ آزاد‘‘ اور ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ پڑھتے تو بہت مزہ آتا تھا۔ پہلی تینوں کتب بہت پرانی اور بہت ضخیم تھیں۔ آخری ذرا کتاب نما تھی۔ ’’الف لیلہ‘‘ میں ایک ہزار ایک کہانیاں ہندوستان، ایران اور عرب کے بارے میںہیں۔ ان میں مشہور قصے الٰہ دین اور جادو کا چراغ، علی بابا چالیس چور اور سند باد جہازی کے ہیں۔ اس میں چین کے قصے کہانیاں بھی شامل ہیں۔ پہلی کتاب کا حوالہ نویں صدی عیسوی کا ہے۔ ’’طلسم ہوشربا‘‘ 100 برس سے زیادہ پرانی ہے اور اس کو محمد حسین جاہ نے چارحصوں میں لکھا ہے، جو نہایت لاجواب کتاب ہے۔ ’’فسانہ آزاد‘‘ پنڈت رتن ناتھ سرشار نے لکھی ہے۔ ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ نہایت دلچسپ، ہمارے اپنے مصنف میرزا ادیب کی گل فشانی ہے، مگر ان سب کتابوں کے باوجود مجھے شیخ سعدیؒ کی گلستان اور بوستان بے حد پسند تھیں اور ہیں۔ اسکول میں فارسی بھی پڑھتا تھا، اس لیے اس سے بہت انسیت ہوگئی کہ ہر حکایت دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ دیکھیے شیخ سعدیؒ خود ان کتب کے لکھنے کی وجہ کیا بتاتے ہیں:
(1)’’میں نے دنیا کے دور دراز ملکوں کا بہت سفر کیا اور ہر کسی کے ساتھ یا ہرطرح کے لوگوں کے ساتھ وقت گزارا۔ (2) میں نے ہرجگہ و گوشے سے لطف اٹھایا اور ہر کھلیان سے ایک خوشۂ گچھا حاصل کیا (ہر ملک میں وہاں کے مطابق وقت گزارا، یا زندگی بسر کی اور وہاں کی ہر طرح کی خوراک کھائی) (سعدیؒ نے کوئی پچیس تیس برس سفر میں گزارے تھے)۔ (3) (لیکن اس تمام سفر میں) میں نے شیراز کے پاک لوگوں جیسے لوگ نہ دیکھے۔ اللہ تعالیٰ کی اس پاک سرزمین پر رحمت ہو۔ (4) اس پاک سرزمین کے لوگوں کی دوستی و محبت نے شام و روم جیسے بڑے ملکوں سے مجھے بے دل کردیا۔ (5) مجھے اس تمام باغ سے (مراد سفر سے) دوستوں کی طرف خالی ہاتھ جانے کا افسوس ہوا۔ (6) چنانچہ میں نے دل میں سوچا کہ میں تحفے کے طور پر دوستوں کے لیے مصر سے قند (کھانا مصری) لے جائوں۔ (7) اگر اس قند کی خرید کے لیے میرا ہاتھ خالی تھا تو (کم از کم) قند سے زیادہ شیریں اشعار تو میرے پاس ہیں (یعنی میری شاعری میں بڑی لذت و شیرینی ہے، اس لیے اسی کا تحفہ لے چلوں)۔ (8) یہ (شاعری) وہ قند تو نہیں ہے جسے لوگ منہ سے کھاتے ہیں، اسے تو ارباب معنی (حقیقت پسند لوگ، شاعر و ادیب) کاغذ پر لے جاتے ہیں (ظاہر ہے شاعری کاغذ پر لکھی جاتی ہے، مطلب یہ کہ میں ’’بوستان‘‘ کا تحفہ اہلِ شیراز کو دوں)۔ (9) جب میں نے اس دولت کا محل بنایا (یہ مثنوی تصنیف کی) تو اس میں تربیت کے دس دروازے بنائے (بوستان دس ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں اخلاقی درس وغیرہ دیئے گئے ہیں)۔‘‘
(ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ جنگ،23 نومبر2020ء)
nn