عالمگیر آفریدی
پشاور میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ حکومت معیشت اور خارجہ پالیسی سمیت تمام شعبوں میں ناکام ہوچکی ہے، اس کے خاتمے تک تحریک جاری رکھی جائے گی۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پشاور کا جلسہ حکومت کے خلاف ریفرنڈم ہے۔ موجودہ حکمران تھوڑے عرصے کے مہمان ہیں، جنوری ان کا آخری مہینہ ہے۔ ہم ان کٹھ پتلیوں سے حساب لیں گے، ان کٹھ پتلیوں کے پیچھے جو ہیں اُن سے بھی حساب لیں گے۔ نیب سے بھی حساب لیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت کے دوران کرپشن میں اضافہ ہوا ہے، اور اس بات کا اظہار عالمی اداروں نے بھی کیا ہے۔ نالائق اور ظالم حکومت عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کو صرف اپوزیشن کی کرپشن نظر آتی ہے، اُسے پاپا جونز اور مالم جبہ کیس کی کرپشن نظر نہیں آتی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اب پنڈی کی رائے چلے گی نہ آبپارہ کی، اب عوام کی رائے چلے گی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج روکنے کے لیے حکومت کو کورونا یاد آجاتا ہے، یہ حکمران کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ چیختے تھے لیکن سب سے زیادہ کرپٹ نکلے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے این آر او آرمی پبلک اسکول کے قاتل احسان اللہ احسان جیسے دہشت گرد کو ملا ہے، سلیکٹڈ نے ہمارے بچوں کے قاتل کو جیل سے نکال دیا ہے۔ یہ تو اب بھی اچھے دہشت گرد اور بُرے دہشت گرد، اچھے طالبان اور بُرے طالبان کا کھیل کھیل رہے ہیں، لیکن ہم انہیں عوام کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم دہشت گردوں اور ان کی سہولت کار حکومت کو بھی اجازت نہیں دیں گے کہ عوام کے خون کے ساتھ کھیلا جائے۔ بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے دوران اے این پی کے رہنما میاں افتخار نے بتایا کہ مریم نواز کی دادی کا لندن میں انتقال ہوگیا ہے، لہٰذا وہ مختصر بات کریں گی۔ جس کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے اپنی بات روک کر مریم نواز کو خطاب کا موقع دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ میں آج آپ سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن اب نہیں کرسکوں گی، جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں، البتہ یہ وعدہ کرتی ہوں کہ جلد ہی آپ سے دوبارہ ملاقات ہوگی۔ مریم نواز کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے اپنا خطاب مکمل کیا۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اپوزیشن نے گوجرانوالہ سے بڑے جلسوں کا آغاز کیا لیکن پشاور کا جلسہ تو حکومت کے خلاف ایک ریفرنڈم بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2018ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کی گئی۔ ہمیں دھاندلی کرنے والا بھی معلوم ہے، ہم فوج اور اداروں کا احترام کرتے ہیں، لیکن اگر وہ سیاست کریں گے تو پھر تنقید بھی برداشت کریں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم آج بھی آپ کو مہلت دیتے ہیں کہ آپ حکومت کے پیچھے سے ہٹ جائیں، دست بردار ہوجائیں اور کہہ دیں کہ یہ حکومت ہماری نہیں ہے، پھر ہم اور آپ بھائی بھائی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی ہم نے حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے، اور میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے۔ ہم ملک بچانے کے لیے اکٹھے ہوگئے ہیں، مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ چین کی 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ ایک ٹرمپ نے دوسرے ٹرمپ کو کہا کہ چین کے منصوبے کو ناکام بناؤ۔ جس طرح امریکیوں نے اپنے ٹرمپ کو مسترد کیا اسی طرح پاکستانی عوام اپنے ٹرمپ کو مسترد کردیں گے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ مودی کے آنے کے لیے عمران خان نے دعائیں مانگی تھیں اور کہا تھا کہ مودی جیت گیا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کو ذبح کیا، مظلوم کشمیری آج کدھر دیکھیں؟ حکومت انسانی حقوق، کشمیر اور فاٹا کی قاتل ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن نے جو سفر شروع کیا ہے وہ کافی طے ہوچکا ہے اور تھوڑا سا فاصلہ باقی ہے، استقامت کے ساتھ ہم اپنی منزلِ مقصود پر پہنچیں گے اور اس ملک کو حقیقی اسلامی، جمہوری، وفاقی اور پارلیمانی پاکستان بنائیں گے، اور ہم قومی مالیاتی کمیشن اور صوبائی حقوق پر کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم اور قومی مالیاتی ایوارڈ کے خلاف سازش ہورہی ہے۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی کی گئی، موجودہ حکومت ریموٹ کنٹرول سے چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ہم نے ساری زندگی پارٹی بنانے میں لگا دی جبکہ ہمارے سامنے راتوں رات پارٹیاں بنا دی گئیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت منتخب حکومت نہیں ہے بلکہ اسے ہمارے اوپر مسلط کیا گیا ہے۔
22 نومبر کو پشاور میں پی ڈی ایم کا جلسہ منعقد تو ہوگیا، البتہ جس غیر یقینی صورت حال اور حکومتی دبائو میں یہ جلسہ منعقد ہوا ہے اس کا واضح اثر جلسہ عام کی حاضری اور شرکاء کے جوش و خروش پر بھی محسوس کیا گیا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اس جلسے جس کا پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو شدت سے انتظار تھا، کے بارے میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے متضاد دعوے سامنے آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ حکومت پی ڈی ایم کے زیر بحث جلسہ عام کے حوالے سے آخر دم تک اپوزیشن کے خلاف کامیاب کارڈ کھیلتی رہی، اور یہ حکومت کی اسی کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کے ورکرز بھی مسلسل تذبذب کا شکار رہے، کیونکہ جلسہ عام سے ایک دن قبل تک لوگوں کا خیال تھا کہ شاید اپوزیشن حکومتی ہتھکنڈوں کی آڑ میں کورونا کے پھیلائو کے خطرات کو جواز بناکر جلسہ ملتوی کردے گی، جس سے اگر ایک طرف وہ اپنا بھرم برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی تو دوسری طرف وہ جلسے کی ناکامی کا داغ اپنے سینے پر سجانے سے بھی بچ جائے گی۔ لیکن اپوزیشن نے خلافِ توقع ایک سخت اور کٹھن فیصلہ کرتے ہوئے جلسہ ہر حال میں منعقد کرنے کے اپنے سابقہ فیصلے کو برقرار رکھ کر حکومت کو یہ دوٹوک پیغام دیا کہ وہ حکومت کو ذرہ برابر بھی ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر پی ڈی ایم کی قیادت چاہتی تو وہ کورونا کی نئی لہر اور خاص کر خیبر پختون خوا اور پشاور میں بڑھتے ہوئے کیسز کو جواز بناکر پشاور جلسہ عام کو موخر یا ملتوی کرسکتی تھی، لیکن ان حکومتی کوششوں کے باوجود پی ڈی ایم نے پشاور میں جلسہ منعقد کرکے اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کو جاری رکھنے کا پیغام دے کر حکومت کو یہ باور کرایا ہے کہ اپوزیشن کی جاری کردہ تحریک اپنے منطقی انجام تک پہنچے بغیر نہیں رکے گی۔ پشاور کے جلسہ عام کے بارے میں پی ڈی ایم کا دعویٰ تھا کہ یہ گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ کے جلسوں سے بڑا جلسہ ثابت ہوگا، لیکن اس دعوے کے برعکس اگر ایک طرف حکومت اس جلسے کی پہلے سے ناکامی کے دعوے کررہی تھی، تو دوسری جانب اس نے سابقہ جلسوں کے برعکس اس جلسے کو یا تو سرے سے نہ ہونے دینے، یا پھر اس کی ناکامی کو بطور چیلنج قبول کیا تھا، اور اس ضمن میں روزانہ کی بنیاد پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر کورونا کو جواز بناکر جہاں منظم پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا وہیں اپوزیشن کو غیر ذمہ دار اور انسانی جانوں سے کھیل کر ان کی زندگیوں کو خطرات میں ڈالنے کے حوالے سے جو لب و لہجہ اختیار کیا جا رہا تھا اس سے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ حکومت خیبر پختون خوا میں اپنی موثر موجودگی اور اثر و نفوذ کو بروئے کار لاکر اپوزیشن کو پشاور میں ٹف ٹائم دینے کا پکا ارادہ کرچکی تھی۔ پی ڈی ایم کے جلسہ عام میں توقع سے کم حاضری کے بارے میں سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی ایک اور بڑی وجہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے درمیان پائی جانے والی بداعتمادی اور ایک دوسرے پر سیاسی سبقت لے جانے کا خبط ہے جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں جمعیت (ف) اور اے این پی شروع میں تو ایک دوسرے کے خلاف پشاور جلسے کی میزبانی اور سیکورٹی انتظامات کے حوالے سے نبردآزما رہیں، اور بعد ازاں جھنڈوں اور بینروں کے ذریعے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور ایک دوسری کو نیچا دکھانے کے حوالے سے ان دونوں جماعتوں میں جو کھینچا تانی ہوتی رہی اُس کا اثر بحیثیتِ مجموعی جلسے پر پڑنا ایک فطری اور لازمی امر تھا۔ ویسے بھی پی ڈی ایم چونکہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی اتحاد ہے جس میں ملک کی گیارہ ایسی جماعتیں شامل ہیں جن میں اگر ایک طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)جیسی بڑی ملک گیر جماعتیں شامل ہیں، تو دوسری جانب جمعیت (ف)، جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت اہل حدیث جیسی مذہبی جماعتیں بھی اس کا حصہ ہیں، جبکہ تیسری جانب نیشنل پارٹی، پختون خوا ملی عوامی پارٹی، بی این پی، اے این پی اور قومی وطن پارٹی جیسی چھوٹی قوم پرست جماعتیں بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں، لہٰذا ان تمام جماعتوں کے ملاپ اور خاص کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جیسی بڑی پارٹیوں کی موجودگی میں اس کی قیادت جمعیت (ف) کو دینے سے بھی اس اتحاد کو پاکستان کی مروجہ اتحادی سیاست میں ایک منفرد مقام حاصل ہے، جب کہ اس اتحاد کی ایک اور انفرادیت اس میں جماعت اسلامی جیسی ملک کی منظم ترین اسٹریٹ پاور رکھنے والی غیر موروثی جماعت کا شامل نہ ہونا ہے۔ لہٰذا اگر جماعت اسلامی بھی اس اتحاد میں شامل ہوتی تو اسے بلا شک و شبہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا اور موثر اتحاد بننے کا اعزاز حاصل ہوسکتا تھا۔ بہرحال جماعت اسلامی اس بڑے اتحاد کا حصہ کیوں نہیں بنی، اور ملک کے موجودہ مخدوش ترین سیاسی حالات میں اس نے تنہا پرواز کا مشکل آپشن کیوں چنا؟ اس بحث سے قطع نظر جماعت اسلامی کے حوالے سے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ اس نے پچھلے دنوں باجوڑ سے حکومت مخالف اپنی جس احتجاجی مہم کا آغاز کیا تھا اس سلسلے میں بونیر کے بعد اس کی جانب سے سوات میں ٹھیک اُسی دن اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا گیا جس دن پشاور میں پی ڈی ایم اپنا پاور شو کررہی تھی۔ یاد رہے کہ سوات میں جماعت اسلامی کے حالیہ جلسے سے قبل یہاں حکمران پی ٹی آئی کے علاوہ مسلم لیگ (ن) بھی اپنے
(باقی صفحہ 41پر)
سیاسی مسل دکھا چکی ہے، اور ان دونوں جلسوں کے تناظر میں جماعت اسلامی کے لیے سوات میں تن تنہا ایک بڑا جلسہ کرنا یقیناً ایک بڑا چیلنج تھا، لیکن 22 نومبر کو جماعت اسلامی سوات کے گراسی گرائونڈ میں ایک بڑا جلسہ کرکے دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ اگر موجودہ ناکام حکومت اور اپوزیشن کی تین تین باریاں لینے والی جماعتوں کی کوئی حقیقی متبادل جماعت ہوسکتی ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے جو نہ صرف ملک کی واحد منظم ترین غیر موروثی نظریاتی جماعت ہے، بلکہ اس کا دامن ہر طرح کی کرپشن کے الزامات سے بھی پاک ہے۔
دریں اثناء سوات کے جلسہ عام سے خطاب کے موقع پر جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق نے حکومت کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور دونوں کے مقاصد کو مشترک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی پالیسیوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ایک کھوٹے سکے کے دورُخ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہونے اور دودھ کی بوتل کے لیے لڑ رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کا مقصد عوام کے مسائل کا حل نہیں بلکہ چند خاندانوں کی سیاست کو زندہ رکھنا ہے۔ لوگوں کو مافیاز، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ٹھیکیداروں کی سیاست سے کچھ نہیں ملے گا۔ عوام تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف چاہتے ہیں تو انہیں نظام مصطفیٰؐ کے نفاذ کے لیے جماعت اسلامی کا دست و بازو بننا ہوگا۔ جلسہ عام سے جماعت اسلامی خیبرپختون خوا کے امیر سینیٹر مشتاق احمد خان اور جماعت کے مقامی راہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔
nn