امریکہ :شائستگی کی طرف واپسی

اسٹیوارٹ پیٹرک کونسل آن فارن ریلیشنز میں جیمز ایچ ہاربنگر سینئر فیلو ہیں۔ وہ ’’دی ساورنٹی وارز: ری کونسائلنگ امریکا وِدھ دی ورلڈ‘‘ کے مصنف ہیں۔
ترجمہ : ابو الحسن اجمیری

امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ جوزف بائیڈن کی کامیابی کا دنیا بھر میں خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ یورپ کے طول و عرض میں جو بائیڈن کی فتح کو نیک شگون قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات زیادہ حیرت انگیز نہیں کہ غیر اخلاقی معیارات کے ساتھ اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھتے ہوئے حکومت کرنے والوں نے جو بائیڈن کی فتح کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم نہیں کیا۔ جن آمروں نے انتخابی نتائج کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بے حِسی کو سراہا ہے وہ جو بائیڈن کی آمد سے قدرے خوفزدہ اور پریشان ہیں۔ نومنتخب صدر ملک میں اور بیرون ملک آزادی اور دفاع کو امریکی خارجہ پالیسی کے بنیادی ستونوں کی حیثیت سے پروان چڑھاکر امریکا کی شائستگی بحال کرنا چاہتے ہیں۔ ہاں، انسانی حقوق کے حوالے سے امریکا کی ساکھ بحال کرنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔
یہ حقیقت کبھی پوشیدہ نہیں رہی کہ ڈونلڈ ٹرمپ آمروں کو پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کے معروف اسٹاف رائٹر باب وڈ ورڈ سے انٹرویو میں کہا تھا ’’آمروں سے میرا تعلق حیرت انگیز ہے۔ وہ جتنے زیادہ سخت گیر اور کمینے ہوں ان سے تعلق استوار رکھنے میں مجھے اُتنا ہی زیادہ لطف آتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ کسی دن مجھے سمجھائیے گا۔‘‘ آپ اِس بات کو حیران کن سمجھیں یا نہ سمجھیں، ڈونلڈ ٹرمپ کو تمام معاملات کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ امریکا کے قیام کے وقت بنیادی دستاویز میں جس عالمگیر یا آفاقی آزادی کو غیر معمولی مقام دیا گیا تھا اُسے یقینی بنانے کی ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش رَوؤں میں سے بیشتر نے بھرپور کوشش کی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے سے دور رہے ہیں۔
آمروں اور عوام کی آراء سے منتخب ہونے کے بعد غیر معمولی سخت گیر رویے کے ساتھ حکومت کرنے والوں کو پسند کرنے کے معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ انوکھے ہیں۔ ان کی پسندیدہ شخصیات میں شمالی کوریا کے کم جونگ اُن، روس کے ولادیمیر پیوٹن، چین کے شی جن پنگ، مصر کے عبدالفتاح السیسی، برازیل کے جیئر بولسونارو، فلپائن کے راڈریگو ڈیوٹرٹ اور سعودی عرب کے محمد بن سلمان نمایاں ہیں۔ تاحیات صدر کی سی حیثیت کے ساتھ اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے صدر شی جن پنگ کو پرجوش مبارک باد دی تھی۔ انہوں نے ’’صحافیوں سے نجات‘‘ پانے سے متعلق روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے سرعام مذاق کیا تھا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، جرمن چانسلر اینگلا مرکل اور عوام کے دیئے ہوئے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے ریاستی امور کو چلانے والے تمام لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں کمزور اور شکست خوردہ ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ کیا ہے اس کے نتیجے میں اندر ہی اندر خاصا نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے آزادی کو اس حالت میں پہنچادیا ہے کہ اب اس کے لیے پوری قوت کے ساتھ آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ گزشتہ ماہ جے نارڈ لنگر نے امریکا میں رجعت پسندوں کے سب سے محترم جریدے نیشنل ریویو میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ڈونلڈ ٹرمپ پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کے اطوار کو یکسر غیر امریکی قرار دیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد پہلا بیرونی دورہ سعودی عرب کا کیا تھا۔ اس دورے میں انہوں نے کچھ بھی لگی لپٹی نہیں رکھی، سبھی کچھ بیان کر ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں کوئی لیکچر دینے نہیں آئے۔ ہم کسی کو یہ سمجھانے کا ارادہ نہیں رکھتے کہ کیسے جینا ہے، کیا کرنا ہے، کیسی عبادت کرنی ہے۔ یہ سعودی عرب کے حکمرانوں کے لیے واضح پیغام تھا یعنی یہ کہ امریکا کو اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ وہ اپنے ملک کی حدود میں عوام سے کس طور پیش آتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے دنیا بھر میں ممالک کی بنیاد پر انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹس مرتب کرنے کا سلسلہ تو جاری رکھا ہے مگر دو طرفہ مذاکرات کے دوران یہ معاملہ اٹھانے پر توجہ نہیں دی۔ اور پھر ٹرمپ کے دور میں امریکا اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل سے یہ کہتے ہوئے نکل گیا کہ یہ جانب دار ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ”سب سے پہلے امریکا “کا تصور نمایاں رہا ہے۔ ٹرمپ اس بات کے حق میں رہے ہیں کہ امریکا کو اب باقی دنیا پر متوجہ رہنے کے بجائے اپنے اندرونی مسائل پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور اگر اس کے لیے معاشی معاملات میں انقلابی نوعیت کی سوچ بھی اپنانا پڑے تو کچھ ہرج نہیں۔ امریکی صنعت کاروں کو بچانے کے لیے عالمی تجارتی تنظیم کے ڈھانچے میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں لانا اور چین سمیت تمام مضبوط ممالک پر درآمدی ٹیکس عائد کرنے پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ چین سے تجارتی جنگ بھی ٹرمپ کے عہد میں شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے ملک میں سیاسی اور معاشرتی آزادی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے بنیادی حقوق کا راگ الاپا اور انسانی وقار کے حوالے سے وسیع تر سیاسی اور معاشی تناظر کو ایک طرف ہٹادیا۔ ایک خصوصی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق امریکا اب چاہتا ہے کہ بنیادی حقوق کے حوالے سے اس کے تصور کو عالمگیر تصور تسلیم کرلیا جائے۔ دنیا بھر کی آمر حکومتوں کو تحریک دی جارہی ہے کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق امریکی تصور کو قبول کرلیں۔ یوں عالمگیریت اور ہمہ گیریت کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ کا یہ تصور انسانی حقوق سے متعلق ایوانِ صدر کے تصور سے ذرا بھی ہم آہنگ نہ تھا اور وہ انسانی حقوق کی ترویج پر بھی متوجہ نہ تھا۔
امریکا دنیا بھر میں انسانی حقوق کو اسی وقت پروان چڑھاسکتا ہے، جب وہ یہ ثابت کرے کہ وہ اپنے ہاں بھی ایسی ہی کیفیت چاہتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکی قیادت کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ امریکا کو ایک اچھی یونین (وفاق) میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے
جو بائیڈن کو انسانی حقوق کے حوالے سے امریکا کا ریکارڈ بہتر بنانے سے کام شروع کرنا ہوگا۔ فریڈم ہاؤس نے حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جمہوریت کی کارکردگی اور استحکام کے حوالے سے امریکا دنیا بھر میں 33 نمبر پر ہے۔ اگر امریکی قیادت یہ چاہتی ہے کہ اسے آزادی، جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کا سب سے بڑا علم بردار بننا ہے تو یہ کام گھر سے شروع کرنا ہوگا۔ امریکا کو آزادی و خود مختاری، اظہارِ رائے کی آزادی، اجتماع کی آزادی اور نسل پرستی کے حوالے سے نمایاں کردار ادا کرنا ہوگا۔ سیاسی اور شہری آزادیوں کے حوالے سے امریکا کا کردار نمایاں ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو کام ہوتا ہوا محسوس ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کو اندرونی سطح پر بہت سی خامیوں اور مشکلات کا سامنا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شہری و سیاسی آزادیوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنا عالمی کردار بھول جائے یا نظر انداز کردے۔ فروری 2017 میں فاکس نیوز کے بل اوریلی نے ایک انٹرویو میں جب صدر ٹرمپ کے سامنے امریکا کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو قاتل کہا تو انہوں نے مداخلت کرتے ہوئے سوال کیا کہ ”ہم معصوم “ہیں۔ اس نوعیت کا موازنہ امریکی کردار کو مزید مشکوک اور کمزور بنادے گا۔ اگر امریکا کو عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرتے رہنا ہے تو اپنی خامیاں دور کرنا ہوںگی، ساکھ درست کرنا ہوگی۔ چین اور روس انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ امریکا کو اس معاملے میں نجات دہندہ کا کردار ادا کرنا ہے۔ اس سے قبل اپنے گھر کو درست کرنا لازم ہے۔ اس حوال سے کی جانے والی کوششوں میں امریکا کے لیے لازم ہے کہ دوسروں کو بھی ساتھ لے کر چلے۔ تنہا چلنے کی صورت میں وہ تنہا رہ جائے گا۔
سیاسی و معاشرتی آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے امریکا خاموش نہیں رہ سکتا۔ اُسے آواز اٹھانا ہوگی۔ ہاں، خارجہ پالیسی کے مقاصد اور مفادات داؤ پر نہیں لگائے جاسکتے۔ سرد جنگ کے عروج کے دور میں بھی اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے سابق سوویت یونین کے سربراہ میخائل گورباچوف کو اُن منحرفین کی فہرست دی تھی جنہیں امریکا آزاد دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ کسی بھی قوم کو فری پاس نہیں دیا جانا چاہیے۔
انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کریں گے اور آمر حکومتوں سے بہتر تعلقات کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔ سعودی عرب سے بھی معاملات حساب کتاب سے ہوں گے۔ آزادی اور جمہوریت کو اولیت دی جائے گی۔ 2022 میں یو این ہیومن رائٹس کونسل کا اجلاس ہونے والا ہے۔ اس ادارے کا دوبارہ رکن بننا امریکا کی بڑی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ اس ادارے کو انسانی حقوق کے حوالے سے بہتر کردار ادا کرنے کے قابل بنانا اور طاقتور شخصیات کے محاسبے کی پوزیشن میں لانا امریکا کی بڑی ذمہ داری ہے۔
یہ سب کچھ محض کہنے سے نہیں ہو جائے گا۔ امریکا کو دوبارہ شائستگی کی طرف لانا آسان نہیں۔ بہر حال، یہ عمل شروع تو ہو۔
nn