دنیائے صحافت میں جن عظیم شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے اُن میں مولانا ظفر علی خاں کی شخصیت عظمت ِ اسلاف کی یادگار ہے۔ اک بحرِ بے کنار کی وسعتوں کو سمیٹنے اور اسے کوزۂ ادراک میں سمونے کے لیے جس قوتِ ایمانی کی ضرورت ہوتی ہے وہی جرأتِ رندانہ، حوصلہ، علمی اور فکری قوت مولانا ظفر علی خاںکی شخصیت کا احاطہ کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس لیے کہ وہ بیش بہا عظمتوں اور نعمتوں کی خلعت ہائے دوام زیب تن کیے ہوئے ہیں، ان کے افکار میں سورج کی تب و تابِ جاودانہ اور گفتار میں لازوال اندازِ خطیبانہ جیسی صفات عیاں ہیں۔ ان کی تحریر و تقریر سے بھرپور انداز میں لفظوں کو گویائی اور زندگی کو رعنائی ملتی ہے۔ ان کے شعر میں روحِ فطرت کا جمال، حسنِ عقیدت کا کمال اور سیادت کا جلال جھلکتا ہے۔ ان کے قلم میں آزادیِ صحافت کی جھلک، گل ہائے جاں نواز کی مہک اور تلوار کی چمک بجلی کی طرح کوندتی نظر آتی ہے۔ ان کی آزادی کے لیے تڑپ اور فکری احساس ایک نجم تاباں کی مانند ہے۔ ان کا دبدبہ و وقار، قلندرانہ صدائیں و سکندرانہ ادائیں انہیں شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں مسند زرنگار پر تمکنت بخشتی ہیں۔
اسلام اور مسلمانوں کے دورِ نشاۃ ثانیہ میں جن شخصیات کا بیش بہا حصہ ہے ان میں ایک نمایاں شخصیت مولانا ظفر علی خاں ہیں۔ حیاتِ ملّی کو تازہ زندگی ان کے فکروعمل سے ملی۔ ان کا نصب العین اسلام کے قرون اولیٰ کے ولولوں کا تازہ کرتا تھا۔ یہی وہ جذبہ تھا جس نے انہیں تحریکِ آزادیِ ہند میں بھرپور حصہ لینے پر مجبور کردیا۔ بارہ برس تک قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر سامراج کے سامنے برہنہ تلوار بنے رہے۔ تحریکِ خلافت ہو یا تحریکِ آزادیِ پاکستان… ان سب میں روح ِ رواں کی حیثیت سے مولانا ظفر علی خاںکا نام تاریخ میں ابد تک زندہ رہے گا۔ میدانِ سیاست میں مسلم قوم میں انفرادیت کی تحریک، استعماری طاقتوں کا انخلا اور علمی جمود کا خاتمہ جیسے مقاصد مولانا کے پیشِ نظر تھے۔ وہ ایسے رہنما تھے جنہوں نے اپنے خامہ معجزنگار اور شعلہ نوائی سے امتِ مسلمہ کو باور کروایا کہ ہندو اور انگریز ملّتِ کفر ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی مسلمانوں کا دوست نہیں ہوسکتا۔ اُنہوں نے اسلامی نقطہ نظر میں وسعت، آزادی کی تڑپ اور قرونِِ اولیٰ کی سرشاری و وارفتگی کی لہر مسلم قوم کے تن مردہ میں دوڑا دی ۔ نتیجتاً یاس و قنوط کی جگہ عزم و حوصلہ نے لے لی اور مسلم امہ کا گم گشتہ وقار بحال ہوگیا۔
انہوں نے دھواں دھار تقریروں سے مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کیا، اردو صحافت کے نازک پودے کی خون ِ جگر سے آبیاری کی۔
سیاسی بیداری ہو یا جدوجہد آزادی… مولانا ظفر علی خاں جیسی مخلص، بلند اخلاق، صاحبِ ایثار اور باہمت ہستی اس برصغیر کی تاریخ میں سب سے نمایاں ہے۔ وہ اپنے نقطہ ہائے نگاہ میں قدیم و جدید، مشرق و مغرب کے جامے میں خوفِ خدا، حرارتِ ایمانی، عشقِ رسولؐ، غیرتِ دینی اور خیرخواہیِ ملّت کا ایک عظیم پیکر تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ عیش و آرام طلبی سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ سعی و عمل، رنج و بلا سے آشنا ملّتِ بیضا کے وہ ایسے بے مثل رہنما تھے کہ صدیوں ان کی یاد مسلمانانِ پاک و ہند کے دلوں میں باقی رہے گی۔
درس گاہِ صحافت میں وہ باکمال اخبار نویس، السنہ شرقیہ و غربیہ پر کامل دسترس رکھنے والے، یکتائے روزگار، علم و فضل کے شاہکار، تاریخ و صحافت کے ناپیدہ کنار، زبان و قلم کی شمشیر آبدار اور علم و فن کے مخزنِ بے مثال تھے۔ یہ درسِ صحافت تیس سال کے طویل عرصے پر مشتمل ہے اور اس کی بنیاد ’’زمیندار‘‘ کا فقیدالمثال مدرسۂ صحافت ہے، جس کی بنا پر اردو صحافت کو عالمی صحافت کے مساوی درجہ ملا۔ اس درس گاہ کے فارغ التحصیل صحافیوں نے فنِِ صحافت کی ترویج میں بے مثل خدمات سرانجام دیں، جن کے قلم کی جولانیوں نے منجمد دلوں اور دماغوں میں ارتعاش اور توانائیوں کی لہریں بیدار کیں۔ یہی وہ جذبہ تھا کہ جنرل ایڈوائر نے مولانا ظفر علی خاںکے بارے میں کہا ’’اگر اسے آزاد چھوڑ دیا جائے تو برطانوی شہنشاہیت کے قصرِ رفیع کی بنیادیں ڈھا دے گا۔‘‘
مولانا کا جدت پسند اور زرخیز دماغ اردو صحافت کو قدیم روش پر چلنے میں مانع تھا۔ نئے الفاظ اور تراکیب، بے تکلف اور پُرشکوہ جملے ظفر علی خاںکے خامہ عنبر آفریں ہی کا معجزہ تھے۔ ان کا طرزِ استدلال، تحقیقی و ادبی نگارشات پر پُرجوش اور خطیبانہ تحریریں آج بھی عوام میں بیداری کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ مولانا کی خدمت اور قربانیوں سے ظاہر ہے کہ وہ ایثارِ مجسم تھے، اور صحافتی زندگی میں ان کی شاندار کاوشیں، قابلِ رشک استدلال اور عدیم النظیر قوم پرستی مسلمانانِ پاک و ہند کے لیے باعثِ فخر و ناز ہیں۔ ’زمیندار‘ صرف ایک اخبار نہ تھا بلکہ حکومت کے مسلسل جبر و تشدد کے خلاف ایک چٹان کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس اوالعزمی و پامردی سے انہوں نے صدیوں سے غلامی کی نیند میں محو امتِ مسلمہ کو حریت وآزادی کا پیغام دیا وہ انہی کا حصہ ہے۔ ان کے اس صحافتی کارنامے پر جناب نشتر جالندھری صاحب نے کہا تھا :
اے زمیندار اے حیاتِ قوم کے سرمایہ دار
کشت زار دینِ فطرت کے لیے ابرِ بہار
میدانِ صحافت میں مولانا اپنے معاصرین میں ’’سرخیل‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔ اردو صحافت کے نازک پودے کو تناور درخت بنانا، اس کی اپنے خونِ جگر سے آبیاری کرنا، صحافت کی زبان کا برمحل استعمال اور عوام میں ان الفاظ کی قبولیتِ عام نے اردوصحافت کو اس نہج پر لاکھڑا کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اخبارات حکومت کا جزوِ لاینفک بن چکے ہیں۔ پنجاب کی سنگلاخ سرزمین میں انگریزی حکومت کے خلاف نقد و احتساب، ادارتی صفحات میں موضوعاتی تنوع، وقائع نگاری و تبصرہ نگاری، ہجوو طنز نویسی، اور سرخیوں میں بانکپن… جس کی بدولت کئی تحریکیں پیدا ہوئیں، کئی بت ٹوٹے، کئی جماعتوں کے تارو پود ان کی ضرب ِ قلم کی تاب نہ لاسکے۔
اگر ہم کہیں کہ انہوں نے جہاد باللسان اور جہاد بالقلم کو بام ِعروج تک پہنچایا تو بے جانا نہ ہوگا۔ ان کا یہ نظریہ تھا کہ حقیقی صحافت وہی ہے جو عوام کے جذبات کی صحیح طور پر ترجمانی کرے، عوامی امنگوں اور ولولوں میں نیا جوش پیدا کرے، زبان و ادب کی اثر آفرینی سے مزین ہو، لسانی لطافتوں سے بھرپور ہو، اور عوام کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔ اشتعال انگیزی، زرد صحافت اور دیگر مبالغہ آمیزیوں سے پاک ہو، واقعیت اور صداقت کی امین ہو۔ انہی بنیادوں پر ہم انہیں صحافت کے دورِ ثانی کا بانی کہہ سکتے ہیں۔ دُنیائے صحافت میں مولانا ظفر علی خاںکو بابائے صحافت کا یہ لقب ان کی تیس سالہ صحافتی خدمات کے سبب ملا۔ وہ بلبل ِ خوش نوا جس کی سحر انگیز ظرافت اور شعر آفرینی نے اردو صحافت پر دو ررس نتائج مرتب کیے،اردو صحافت کو ایک نیا اسلوب دیا،نئی فکر ی راہوں پر گامزن کیا۔ یقیناٗ ہم انہیں اردو صحافت کے ایک محسن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ تاریخِ صحافت کا یہ درخشندہ باب 1956ء میں ان کے وصال پر ختم ہوگیا۔
nn