(چوتھی اور آخری قسط)
آپؐ کا ذکر بلند کردیا
شہنشاہِ کائنات آسمانوں اور زمین کی وسعتوں پر محیط اپنی مسندِ اقتدار (کرسی) پرجلوہ گر ہے۔ اس کے فرشتے اور طیّور اور سمندر کی مچھلیاں اور زمین پر چلنے اور رینگنے والے سارے حیوان اپنی اپنی زبان میں اُس کی حمد و تسبیح کرتے اور اس کے ذکر کے گیت گاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ پر اپنی رحمتِ خاص برسائی کہ جس طرح اُس کے ذکر کے غلغلے بلند ہوتے ہیں اسی طرح درود و سلام کی صورت میں ہر سُو حضور ؐ کے ذکر کی دھوم بھی مچی ہوتی ہے۔
وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (اَلَم نشرح:4)”تمہاری خاطر تمہارے ذکر کا آوازہ بلند کردیا۔“
’فِی ظلالِ القُرآن‘میں سید قُطب ؒ نے رَفَعِ ذکر کی جو کیفیت بیان کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:۔
۔”(اے پیغمبرؐ) ہم نے ملائِ اعلیٰ میں، زمین پر، وجودِ کائنات میں ہر جگہ تمہارا ذکر بلند کردیا۔ اے حبیبؐ! جب اللہ کا نام لینے کے لیے لَب ہلتے ہیں تو لَا اِلٰہَ اِلَا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلَ اللّٰہ کے کلمے میں اللہ کے نام کے ساتھ تیرا نام بھی بولا (اورلکھا) جاتا ہے۔“
یہ کلمہ لوحِ محفوظ پر درج ہے۔ نہ اس سے بلند رفعِ ذکر کا کوئی اور درجہ ہے، اور نہ اس سے بڑی کوئی منزلت ہے۔ یہ منفرد مقام جو محمدﷺ کو نصیب ہوا نہ آپؐ سے پہلے کسی کو ملا تھا اور نہ آپؐ کے بعد قیامت تک کسی کو حاصل ہو گا۔“
مولانا مودودی ؒ نے رفَعِ ذکر کی تشریح میں اپنی تفسیر کا ڈیڑھ صفحہ وقف کیا ہے۔ حضورﷺ کے رفعِ ذکر کے تین ادوار کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آخر میں انہوں لکھا:۔
۔”۔۔۔دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی کوئی بستی موجود ہو اور دن میں پانچ مرتبہ اذان میں بآوازِ بلند محمدﷺ کی رسالت کا اعلان نہ ہورہا ہو، نمازوں میں حضورؐ پر درود نہ بھیجا جارہا ہو، اور سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی دن اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے کوئی وقت ایسا نہیں ہے جب روئے زمین میں کسی نہ کسی جگہ حضور ؐ کا ذکر مبارک نہ ہورہا ہو۔ یہ قرآن کی صداقت کا کھلا ثبوت ہے کہ جس وقت نبوت کے ابتدائی دور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَرَفَعْنَآ لَکَ ذِکْرَک َ اُس وقت کوئی شخص بھی یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ رفعِ ذکر اس شان سے اور اِتنے بڑے پیمانے پر ہوگا۔ حدیث میں ابوسعید خُدریؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جبریل میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا میرا رَب اور آپ کا رَب پوچھتا ہے کہ میں نے کس طرح تمہارا رَفَعِ ذکر کیا؟“ میں نے عرض کیا: ”اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔“ انہوں نے کہا ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ تمہارا بھی ذکر کیا جائے گا۔“ (ابن جریر، ابن ابی حاتم، مُسندِ ابی یعلیٰ، ابن المُنذِر، ابن حبان، ابن مردویہ، ابو نعیم) بعد کی پوری تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی۔“
(تفہیم القرآن جلد ششم)
سور ہ اَلَمْ نَشْرَحْ سورہ وَالضُحٰی کا تتمّہ ہے۔روحِ پیغام اور دَورِ نزول کے اعتبار سے یہ دونوں سورتیں جڑواں ہیں۔اَلَمْ نَشْرَح کامضمون سورہ اَلضُّحٰی کا تسلسل اور تتمّہ ہے۔ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی کی صورت میںزبردست عطیات و نوازشات کی جو تسلی اور شاندار مستقبل کی قوی امید دلائی گئی تھی وَ رَفَعْنَآ لَکَ ذِکْرَکَ اس وعدے کی تکمیل کا سندیسہ ہے۔ گویا حضورﷺ کا رفعِ ذکر انہی میں سے ایک اہم عطا و نوازش ہے جن کو پاکر آپؐ کو خوش ہونا تھا۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے وَالضُّحٰی کی درج بالا آیت کی تفسیر میں جو لکھا اس کا رَفَعِ ذکر سے بڑا گہرا تعلق ہے:۔
۔”یہاں اگرچہ یہ واضح نہیں فرمایا کہ کیا دے گا لیکن قرینہ دلیل ہے کہ اس سے مراد وہی خیر ہے جس کی بشارت اوپر والی آیت میں دی گئی ہے اور جو حاوی ہے اُن تمام فیروزمندیوں اور کامرانیوں پر جو بعد کے ادوار میں اسلام کو حاصل ہوئیں۔
چونکہ ابھی یہ ساری باتیں پردۂِ غیب میں تھیں اس وجہ سے یُعْطِیْکَ کے مفہومِ ثانی کو ظاہر نہیں فرمایا، لیکن اس کے بعد کے لفظ نے کسی قدر اس شاندار مستقبل کی جھلک دکھا دی کہ اتنا دے گا کہ تم نہال ہوجائو گے۔“ (تدبّر قرآن جلد نہم)۔
ملائشیا، انڈونیشیا اور آسٹریلیا سے شروع ہونے والی فجر کی اذان کی گونج وقفے وقفے سے گردش کرتی ہوئی سارے کُرّۂِ ارض کی رگوں میں زندگی اور بیداری کی لہر دوڑاتی ہے، اور چوبیس گھنٹوں میں اس کا دَور پورا ہوکر واپس انہی جگہوں پر فجر کا وقت ہوجاتا ہے جہاں اس کی پہلی صدا سنی جاتی ہے۔ درمیان میں چار اور نمازوں کی اذان کا سائیکل بھی اسی ترتیب سے مکمل ہوتا ہے۔ اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر اور اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے ساتھ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہ کی آواز سے شیطان اورساری دنیا کی شیطانی قوتوں کی جان جاتی اور ان کے دِلوں میں ہَول اٹھتا ہے۔ رَفَعِ ذکر کی یہی دہشت عالَمِ کفر پر چھائی ہوئی ہے۔ ان کے سینوں پر لفظ ’اللہ‘ کے جلال سے اتنا لرزہ طاری نہیں ہوتا جتنا لفظ ’محمدؐ‘ کے جمال سے ان کے دل وحشت محسوس کرتے ہیں۔ اسی اِسمِ محمدؐ سے خوف کھا کر وہ توہینِ رسالت کی گھٹیا حرکتوں پر اتر آتے ہیں۔ کبھی گستاخانہ خاکوں اور تحقیر آمیز کارٹونوں کی صورت میں اپنا باطنی اشتعال اگلتے ہیں، تو کبھی شانِ نبیؐ کے منافی کئی دوسری اہانت آمیز صورتیں ایجاد کرکے اپنے اندر کی گندگی انڈیلتے ہیں۔
اِمام فخرالدین رازی نے تفسیرِ کبیر میں جس عقیدت و محبت سے وَ رَفَعْنَآ لَکَ ذِکْرَکَ کی تفسیر لکھی، جی چاہتا ہے کہ حاضر و غائب اور ماضی و حال کے صیغوں کو یکساں کرکے وہ بھی اس عنوان کا حصہ بنائی جائے:۔
۔”(حضورؐ) آپؐ کی شہرت ارض و سماوات میں ہے۔ آپؐ کا اِسم مبارک عرش پر لکھا ہوا ہے۔ کلمۂِ شہادت اور تشہّد (التَّحِیّات) میں آپ ؐ کا نام اللہ کے نام کے ساتھ آتا ہے۔ اللہ نے پہلی کتابوں میں بھی آپؐ کا ذکر کیا ہے۔ یوں آپؐ کا ذکر سارے آفاق میں پھیل گیا۔ نبوت کا سلسلہ آپؐ پر آکر تمام ہوا۔ اذان میں اللہ کے نام کے ساتھ آپؐ کا نام آتا ہے۔ خطوط و رسائل کا آغاز و اختتام آپؐ کے نام کے ساتھ ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ نے اپنے ساتھ آپؐ کا ذکرکیا۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَاط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ٭(نساء:13)۔
”جو اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیانی ہے۔“
وَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ٭(توبہ:62)۔
”اللہ اور رسول اِس کے زیادہ حق دار ہیں کہ یہ اُن کو راضی کرنے کی فکر کریں۔“
قُلْ اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ط وَ اِنْ تُطِیْعُوْہُ تَھْتَدُوْا ط وَ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ٭(النّور:54)۔
۔”کہو:’اللہ کے مطیع بنو اور رسول کے تابع فرمان بن کر رہو۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ رسولؐ پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اُس کا ذمہ دار وہ ہے، اور تم پر جس فرض کا بار ڈالا گیا ہے اُس کے ذمہ دار تم۔ اُس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پائو گے، ورنہ رسولؐ کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ صاف صاف حکم پہنچا دے۔“
باقی سارے نبیوں کا اُن کے ناموں کے ساتھ تذکرہ ہوا ہے لیکن آنحضورﷺ کو رسول اور نبی کہہ کر پکارا گیا ہے۔ سورہ مریم کی 96ویں آیت سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ رحمان آپؐ اور آپؐ کے متبعین کے دلوں میں ایسی محبت پیدا کردے گا کہ سارا جہان آپؐ کے پیروکاروں سے بھر جائے گا اور وہ آپؐ کی ثنا و تعریف کریں گے، آپؐ پر درود بھیجیں گے۔ بلکہ جب کوئی فرض ادا ہوگا تو ساتھ آپؐ کی کسی سنت پر بھی عمل ہوگا۔ فرض میں اللہ کا حکم پورا کیا جائے گا اور سنت میں آپؐ کے کسی حکم کی پیروی ہو گی۔
اللہ نے فرمایا:۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (نساء:80)۔
”جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔“
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ط(فتح:10)۔
”اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کررہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کررہے تھے۔“
یارسول اللہﷺ! (آپؐ کے رفعِ ذکر کی یہ صورتیں بھی ہیں کہ) محدثین آپؐ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ یاد اور محفوظ کرلیں گے۔مفسّر فرقان کی تفسیریں لکھیں گے۔ واعظین آپؐ کی باتوں کی روشنی میں وعظ کریں گے۔ علماء اور سلاطین آپؐ کے روضے پر حاضری دے کر درود و سلام پیش کریں گے اور روضے کی خاک کو سُرمۂِ چشم بنائیں گے اور اُس کی مٹی کو چہروں کی رونق بنائیں گے۔ وہ آپؐ کی شفاعت کے طلب گار ہوں گے۔ آپؐ کا شرف روزِ قیامت تک باقی رہے گا۔“
حضورؐ کی محبت دلیلِ ایمان
تاریخ دیکھیں تو یہ انسان کی ذات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ زبردست ہے تو اس کا جبرو ستم اور استحصال اپنے مفادات کے لیے ہوتا ہے۔ جدید دور میں ’انسانیت نوازی‘ (Humanism) کے فلسفے نے انسان کی ذات کو اتنا تقدس دے دیا ہے کہ وہ ایک دیوی دیوتا کی طرح پوجی جا رہی ہے۔
اسلام نے فرد کی انفرادیت کو نظرانداز نہیں کیا، مگر اسے وہ درجہ بھی نہیں دیا کہ یہ ایک بُت کی طرح پوجی جائے۔ انسان کی ذات سے جُڑے بہت سے اور رشتے ایسے ہیں جو اُس کی ذات سے زیادہ محترم قرار دیے گئے ہیں۔ ان سب رشتوں سے ارفع و اعلیٰ رشتہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ بحیثیت اُمتی ہر کلمہ گو کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کو ایمان والوں کی ذات پر فائق و مقدم قرار دیا ہے۔
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ۔۔۔ (الاحزاب:6)۔
”بلاشبہ، نبی تو اہلِ ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے۔“
نبیﷺ کی نسبت سے اس اوّلیت و تقدیم کے محبت، عزت و تکریم و تعظیم اور اطاعت تین پہلو ہیں۔ ان تینوں پہلوئوں سے اللہ کی ساری مخلوقات میں سوائے خود اُس کے کوئی اور ہستی ایسی نہیں جو نبی پاکﷺ کی برابری کرسکے۔ یہ تینوں پہلو حقوق النبی ؐ میں سے ہیں جو ویسے تو ساری انسانیت پر لازم ہیں لیکن جو شخص مسلمان ہونے کا اِدّعا رکھتا ہو اس پر یہ فرض ہیں۔ پھر معاملہ صرف مسلمان کے حضورﷺ کو اپنی ذات سے اولیٰ و برتر سمجھنے تک محدود نہیں، حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت تک ایمان ہی معتبر و مقبول نہیں ہوتا جب تک رسول اللہﷺ محبت میں اُس کے ماں باپ، اُس کی آل اولاد اور دنیا کی ہرچیز پر اولیٰ و مقدم نہ ہوں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حضور ؐ کا ارشاد مروی ہے:۔
لَا یُؤْمِنُ اَحَدُ کُمْ حَتَّی اَکُوْنُ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَ وَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ٭
”تم میں سے کوئی شخص ایمان والا شمار نہیں ہو سکتا جب تک اسے مجھ سے اپنے والد (والدین)، اپنے بیٹے (ساری اولاد) اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔“(بخاری)۔
اگرچہ رسول اللہ ﷺ کو ایمان کی ایسی شرط عائد کرنے کا اختیار تھا، لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر کچھ نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس سے کہیں زیادہ زوردار انداز میں، بڑی سخت وعید کے ساتھ یہ شرط بیان فرمائی ہے:۔
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآئُ کُمْ وَ اَبْنَآئُ کُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُم وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُم مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ٭(توبہ:24)۔
”اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اُس کے رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔“
مشرکینِ مکّہ، یہودِ مدینہ اور کفّارِ عرب کے رئوسا جو اپنے معاشرے اور ماحول میں بڑے اعزاز و اقتدار کے مالک تھے، ان کی نظر میں محمدﷺ کی کوئی وقعت و اہمیت نہ تھی۔ عبداللہ بن اُبیّ کے لیے تو اوس اور خزرج کے بادشاہ کا منصب ملنے والا تھا۔ رسول اللہﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو اُس کا بادشاہی والا خواب چکناچور ہوگیا۔ اسی وجہ سے اس کے دل میں ایسا نفاق اور بغض بیٹھا کہ آخر دم تک حضورؐ کو نیچا دکھانے، شکست سے دوچار کرنے اور زک و ہزیمت پہنچانے کی تگ و دو میں مصروف رہا۔ غزوۂِ بنی مصطلق کے موقع پر اس نے دو ایسی سازشیں کی تھیں اور مسلمان اجتماعیت پر ایسا سخت وار کیا تھا کہ اس کا خیال تھا اس چوٹ سے اللہ کے رسولﷺ اور مسلمان سنبھل نہیں سکیں گے اور مدینہ پہنچ کر جو عزت والا ہے وہ نعوذ باللہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔
یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ ط(المنافقون:8)۔
”یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔“
اللہ تعالیٰ نے اس کے اس گھٹیا قول کے ساتھ ہی دوٹوک انداز میں واضح کردیا:۔
وَ لِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَ لِرَسُوْلِہٖ وَ لَلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ٭(المنافقون:8)۔
”عزت تو اللہ اور اُس کے رسول ؐ اور مومنین کے لیے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں۔“
جب عبداللہ بن ابی نے یہ دھمکی دی تھی اُس وقت کے حالات نے صاف بتادیا تھا کہ عزت اللہ کے رسولﷺ کو ہی ملنی ہے، منافق اور کفار تو اس وقت تک ذلت و رسوائی سے دوچار ہورہے تھے۔ کیا عبداللہ بن اُبی کو معلوم نہیں تھا کہ قریش کو بدر کے میدان میں ذلت آمیز شکست ہوئی اور اُن کے نامور مشائخ و رئوسا کی لاشیں سڑنے کے لیے بدر کے ایک گندے کنویں میں پھینکی گئی تھیں؟ ہدایت کا چراغ بجھانے کے لیے منہ کی پھونکوں سے لے کر لشکروں کی آندھیاں اُٹھا لانے کے باوجود منافق اور مشرک اور یہود منہ کی کھاتے رہے۔
جس طرح پہلے انبیاء کو جھٹلانے والوں نے خواری اٹھائی، اسی طرح اِمام الانبیاء محمد مصطفیٰﷺ کی تکذیب کرنے والے، انجام کی ذلت و رسوائی سے بچ نہ سکے:۔
فَاَذَاقَھُمُ اللّٰہُ الْخِزْیَ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ م لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ٭(زمر:26)
”اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا ہی کی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھایا، اور آخرت کا عذاب تو اس سے شدید تر ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔“
اللہ اپنے رسول ؐ کو جو عزت دینے والا تھا وہ عزت حضورﷺ کی حیاتِ طیّبہ تک محدود نہیں تھی۔ قیامت تک ہر چڑھتا سورج اللہ کے رسولؐ کی عزت کا فروغ دیکھے گا، اس میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ گناہ گار سے گناہ گار مسلمان بھی سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنے نبی ؐ کی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔ رسول اکرمﷺ کی عزت کا شعور ایمان میں ایسا گندھا ہوا ہے کہ کسی کے دل میں ایمان کی رمق بھی باقی ہو تو حضور ؐ کی عزت کا تصور دل و دماغ میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہتا ہے۔
نبی ﷺ کی تکریم و تعظیم کا تو یہ درجہ ہے کہ ایمان والوں کو حکم ہوا ہے:۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ٭ (الحجرٰت:2)۔
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبی ؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔“
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآئَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا ط (نور:63)۔
۔”مسلمانو! اپنے درمیان رسولؐ کو بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھ بیٹھو۔“
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں رسول اللہﷺ کی کتنی تعظیم و توقیر تھی اور وہ عملاً حضورؐ کی عزت کے معاملے میں کس قدر حساس تھے، اس پہلو پرہم نے مثالوں کے ساتھ سیرت پر اپنی کتاب ”سیرتِ سیّدُ الابرارﷺ“ کے حصہ دوم میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ تقویٰ کی فصل کی آبیاری کے لیے دِلوں کی وہی کھیتی موزوں ہوتی ہے جس میں نبی مکرّمﷺ کے لیے غایت درجے کا ادب و احترام اور تعظیم ہو۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی ط لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ کَرِیْمٌ٭(الحجرٰت:3)۔
۔”جو لوگ رسولِ ؐخدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے، اُن کے لیے مغفرت ہے اور اجرِعظیم۔“
نبیؐ بطور دائمی آئینی سربراہ
یہ شان و مقام بھی اللہ تعالیٰ نے سیّدالابرارﷺ کو عطا کیا کہ آپؐ اُمّتِ مسلمہ کے دائمی دستوری سربراہ ہیں۔ آپؐ کی یہ حیثیت اللہ کے دیے ہوئے آئین کی رُو سے ہے جسے دنیا کی کوئی حکومت، کوئی پارلیمنٹ، کوئی عدالتی بینچ، کوئی عسکری ادارہ اور کوئی انتخابی رائے عامہ بدل نہیں سکتی۔ نبیِ پاکﷺ کی ایک فیصلہ کار اور حَکم کی حیثیت اتنی بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قسم کھاکر ارشاد فرمایا ہے کہ جو حضور ؐ کی اس حیثیت کا منکر ہو وہ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے۔
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا٭(نسآء:65)۔
”اے محمد ؐتمہارے رَب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ فیصلہ تم کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔“
اس آیت کی شانِ نزول میں اِمام اِبن تیمیہ ؒنے ”الصّارم المسلول“ میں ضمرہ بن حبیب بن صہیب سے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ دو آدمیوں میں کسی معاملے میں تنازع پیدا ہوا۔ ان میں طے ہوا کہ رسول اللہﷺسے فیصلہ کرا لیا جائے کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق جھگڑ رہا ہے۔ رسول اللہﷺ نے دونوں سے صورتِ واقعہ معلوم کی اور جسے حق پر جانا اُس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ جس شخص کے دل میں نفاق کا روگ تھا اُس نے باہر نکل کر فیصلہ ماننے سے انکار کردیا اور تجویز دی کہ ابوبکر ؓ سے چل کر فیصلہ لیتے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ جس معاملے کا فیصلہ نبیﷺ دے چکے ہوں، کسی اور کو وہ فیصلہ بدلنے کا اختیار نہیں ہے، اس لیے حضور ؐ کا فیصلہ مان لو۔ لیکن وہ آدمی مُصر ہوا کہ عمر ؓ کے پاس جاکر ان سے فیصلہ کراتے ہیں۔ وہاں جاکر اپنا معاملہ پیش کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی کہا کہ جس قضیے کا نبی پاک ؐ فیصلہ کردیں کوئی اور اسے بدلنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ لیکن منافق اس بات کا قائل نہ ہوا۔ اس پر حضرت عمر ؓ اندر گئے، تلوار نکالی اور اس آدمی کی گردن اُڑا دی جسے حضورﷺ کا فیصلہ قبول نہیں تھا۔ حضور ؐ کو اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ”کیا عمر نے ایک مومن کو قتل کردیا؟“ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جو آپؐ کو حتمی فیصلہ ساز اور حکَم نہیں مانتا وہ مومن نہیں ہوسکتا۔
سورۃ الاحزاب کی چھتیسویں آیت میں بھی اللہ کے ساتھ رسولﷺ کی اس آئینی اتھارٹی اور حتمی فیصلہ کار حیثیت کا ذکر ہے۔
وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط وَ مَنْ یَّعْصِ اللَّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا٭(الحجرٰت:36)۔
۔”کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اُس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اُسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں ہے۔“
قتادہ، ابن عباس اور مجاہد نے اس آیت کی شانِ نزول یہ بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا سے کرنا چاہا۔ آپؐ نے اس سلسلے میں پیغام بھیجا تو حضرت زینبؓ اور اُن کے بھائی حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے اس تجویز کو اپنی خاندانی وجاہت اور اونچے سماجی مرتبے کے منافی سمجھ کر اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس کے بعد حضرت زینبؓ اور اُن کے خاندان نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔
سورہ الحجرٰت کی پہلی آیت بھی آپ کا یہی مقام متعین کرتی ہے کہ بحیثیت فرد اپنے ذاتی اور بحیثیت ایک قوم اپنے معاشرتی، ریاستی، عدالتی امور اللہ اور اُس کے رسول ؐ کے احکام و تعلیمات اور قائم کردہ حدود سے تجاوز کرکے نہ چلائو بلکہ فیصلے کرنے سے پہلے دیکھ لو کہ کہیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی مرضی پسِ پشت ڈال کر پیش قدمی تو نہیں کرنے لگ گئے ہو۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْْمٌ٭
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اُس کے رسول ؐکے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔“
سرورِ عالم ؐ کی پانچ/چھے خاص فضیلتیں
درج ذیل حدیث میں رسول اللہﷺ کے جو فضائل بیان ہوئے ہیں یہ اس تحریر میں مختلف عنوانات کے تحت الگ الگ کہیں نہ کہیں مذکور ہوئے ہیں، لیکن پوری حدیث پہلے کسی جگہ نقل نہیں ہوئی، اس لیے اسے یہاں بطور ایک مستقل عنوان درج کیا جا رہا ہے۔
اُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ اَحَدٌ مِّنَ الْاَنْبِیَائِ قَبْلِیْ۔ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَہْرِ،وَ جُعِلَتْ لِیْ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طَھُوْرًا، وَ اَیُّمَا رَجُلٍ مِّنْ اُمَّتِیْ اَدْرَکَتْہُ الصَّلَاۃٌ فَلیُصَلِّ،وَ اُحِلَّتْ لِیْ الْغَنَائِمُ،وَ کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلَی قَوْمِہِ خَآصَّۃً وَ بُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ کَآفَُّۃً،وَاُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ۔
ابن کثیرؒ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بُعِثْتُ اِلَی کَآفَۃً لِّلنَّاسِ کے ساتھ اَلْاَحْمَرِ وَالْاَسْوَدِکااضافہ کیا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس میں نبیﷺ نے فرمایا:۔
۔”مجھے پانچ چیزیں (فضیلتیں) ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملی تھیں۔ مجھے ایک مہینے تک کی مسافت پر (اثر کرنے والا) رُعب و دبدبہ دیا گیا ہے، اور میرے لیے ساری زمین مسجد اور پاک کردی گئی ہے، میری اُمّت کے کسی شخص کے لیے کہیں بھی نماز کا وقت آجائے، پس وہیں نماز پڑھ لے، میرے لیے غنائم حلال کردیے گئے ہیں، اور پہلے ہر نبی کسی خاص قوم (قبیلے، علاقے) کے لیے مبعوث ہوتا تھا، مجھے سارے جہان (اور علاقوں اور قیامت تک کے زمانوں)کے لیے مبعوث کیا گیا ہے، اور مجھے شفاعت کا اختیار دیا گیا ہے۔“
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کی روایت میں حضورﷺ نے اپنی چھٹی صفت بتائی ہے کہ وَخُتِمَ بِی النَبِیُّوْنَ(مجھ پر نبیوں کاسلسلہ ختم کردیا گیا ہے)۔
حرفِ آخر
افضلیتِ محمد مصطفیٰ ﷺ کے عنوان سے یہ تحریر کسی بحث کا جوابی بیانیہ نہیں بلکہ بالکل ایجابی انداز میں قُرآن پاک کی چیدہ چیدہ آیات کی روشنی میں سرورِ عالَمﷺ کی افضل الانبیاء اور اشرف النّاس حیثیت کو بیان کیا گیا ہے۔ قُرآن مجید اور احادیث کے دفتر میں گہری نظر ڈالیں تو آپﷺ کے شرف و اِکرام کی طرف اشارہ کرنے والی سیکڑوں آیات اور احادیث موجود ہیں۔ ہم تو رسول اکرمﷺ کا تذکرہ سعادت و برکت سمجھ کر کرتے ہیں، ورنہ حضورﷺ ہمارے محتاج نہیں ہیں کہ خصائص النّبیؐ کا دنیا کو قائل کریں۔ عدل کی روح رکھنے والا کوئی شخص مسلمان نہ بھی ہو تو وہ سیّدالابرارﷺ کی شخصیت میں امتیازی جوہر ڈھونڈ لیتا ہے۔
معروف اسکاٹش مستشرق ولیم منٹگمری واٹ (William Montgomery Watt)نے ”محمدؐ مکّہ میں“ اور ”محمدؐ مدینہ میں“ جیسی شہرئہ آفاق کتابیں لکھیں۔ انہوں نے خاص طور پر جن خصوصیات کا تذکرہ کیا وہ کسی مقامی نوعیّت کے لیڈر کی نہیں بلکہ ایک عالمی رہنما کی خصوصیات ہیں۔ حضورﷺ کی شخصیت کے جن تین اہم پہلوئوں کی طرف انہوں نے اشارہ کیا وہ قابلِ غور ہیں۔ پہلا یہ کہ آپؐ کی نگاہِ دُوررَس مستقبل کے امکانات دیکھنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ محترم مستشرق نے نگاہِ دوررس کا تذکرہ کرتے ہوئے نہ معلوم غزوۂِ احزاب کے موقع پر دفاعی خندق کھودتے وقت رسالت مآبﷺ کے ایک خاص ارشاد کی مادّی توجیہ کی تھی یا حضورؐ کی روحانی وسعتوں کی حدیں بھی ان کے پیشِ نظر تھیں۔ صحابہ کرام ایک بھاری چٹان کو توڑنے میں عاجز آگئے تو رسول اللہﷺ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی۔ بسم اللہ کہہ کر پہلی ضرب لگائی تو چٹان کا ایک تہائی ٹکڑا الگ ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا: ”اللہ اکبر! مجھے شام کی کنجیاں عطا کردی گئی ہیں۔ میں اس کے سرخ محل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔“
پھر آپؐ نے بسم اللہ پڑھ کر چٹان پر دوسری چوٹ لگائی، اس کا اتنا ہی دوسرا ٹکڑا ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گیا اور آپؐ نے فرمایا:
”اللہ اکبر! مجھے فارس کی کنجیاں سونپ دی گئی ہیں۔ اس کے سفید محلات مجھے صاف نظر آرہے ہیں۔“
پھر آپؐ نے بسم اللہ کہہ کر تیسری ضرب لگائی اور چٹان کا بقیہ حصہ بھی ٹوٹ کر گر گیا۔ آپؐ نے فرمایا: ۔
”اللہ اکبر! یمن کی کنجیاں بھی میرے ہاتھ میں دے دی گئی ہیں۔ میں صنعاء کے دروازے یہاں سے دیکھ رہا ہوں۔“(فتح الباری لاِبن حجر العسقلانی)۔
ولیم منٹگمری واٹ نے دوسری خصوصیت یہ بتائی کہ محمدﷺ میں ایک ریاست کے سربراہ کے لیے مطلوبہ حکمت و فراست اور دانش و بینش پائی جاتی تھی۔ تیسری خصوصیت یہ بتائی کہ آپؐ کو (وہبی طور پر) ایک منتظم و مدبّر کا ایسا تجربہ تھا کہ آپؐ ہر مہم اور ذمہ داری کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب کرتے تھے۔
1978ء میں مائیکل ایچ ہارٹ (Michael H. Hart)نے ”دنیا کی ایک سو سب سے بااثرشخصیات“(The 100: A Ranking of the Most Influential Persons)لکھی۔ اس کے ضمیر اور عادلانہ سوچ کی آواز تھی کہ اس نے محمد ﷺ کو تاریخ کی ان ایک سو شخصیات میں سرِ فہرست رکھا۔اس نے اپنے اس انتخاب کی دلیل دی :۔
”محمد (ﷺ)مذہبی اور مادّی دونوں دائروں میں انتہائی کامیاب ثابت ہوئے۔اسلام کی ترقی و فروغ میں محمد(ﷺ)کاکردار مسیح (علیہ السّلام )کی عیسائیت کی ترقی میں اشتراک اور ہم کاری کے پہلو سے کہیں زیادہ مؤثر رہا۔“
اس تحریر میں صرف اس پہلو سے بحث کی گئی ہے کہ محمد مصطفیٰ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے سارے مقدّس گروہِ انبیاء و رُسُل میں منفرد و ممتاز منفردحیثیت سے نوازا۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ساری مخلوقات میں اور کوئی ہستی رفعتِ شان اور عظمتِ مقام میں آپ ؐ کی حریف و مقابل نہیں ہے۔خلاصۂِ بحث یہی ہے :۔