ادارہ “علم دوست”پاکستان کا پہلا یومِ تاسیس

بڑی تعداد میں ارباب ِعلم و دانش کی شرکت، مجلہ کی اشاعت

ادارہ ’’علم دوست‘‘ پاکستان نے شبیر ابن عادل کی سرکردگی میں 9 نومبر 2020ء، بارہ ربیع الاول کی مبارک شب کو کے ایم سی آفیسرز کلب میں ایک تقریب کے ذریعے اپنے سفر کا آغاز کیا، اس کی منزل معاشرے میں کتاب کلچر کو فروغ دینا قرار پائی، چنانچہ ادارہ ’’علم دوست‘‘ معاشرے میں کتاب خوانی کے فروغ میں کوشاں ہے۔ یہ ادارہ وقتاً فوقتاً ادبی تقاریب کا انعقاد کرتا رہتا ہے جس میں بانی رکن عطا محمد تبسم کی تجویز پر کتاب محفل کا پروگرام بھی اہمیت کا حامل ہے، جس میں ادباء، شعراء اپنی نئی کتابوں کے اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ اس کی پہلی تقریب میں جرمنی سے آئی ہوئی شاعرہ عشرت معین سیماؔ، اسلام آباد سے تشریف لائے ہوئے ادیب اور سفرنامہ نگار عبیداللہ کیہر، معروف محقق ڈاکٹر سہیل شفیق، سید فراست شاہ اور سینئر شاعرہ شگفتہ شفیق نے اپنا کلام پیش کیا۔
پہلے یوم تاسیس کے موقع پر یادگاری مجلہ بھی شائع کیا گیا جس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے پیغام میں کہاکہ ’’علم سرمایۂ حیات ہوتا ہے، کوئی بھی قوم علم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی، سندھ حکومت آپ کے ساتھ ہے، ہم کتب خانوں کو جدید خطوط پر استوار کریں گے اور صوبے کے ہر ضلع میں ایک جدید لائبریری قائم کریں گے‘‘۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی افتخار علی شالوانی نے کہاکہ ’’ادارہ علم دوست‘‘ پاکستان کا اندھیروں سے روشنی کی جانب سفر میری نظر میں قابلِ ستائش ہی نہیں بلکہ قابلِ تقلید ہے۔ یہ ادارہ قابلِ ذکر خدمات انجام دے رہا ہے جس کے ذریعے معاشرے میں مطالعے کے رجحان کو فروغ مل رہا ہے۔
جن علمی، ادبی شخصیات کو ان کی خدمات کے صلے میں ایوارڈ دیئے گئے ان کا مختصر تعارف بھی مجلے میں شامل ہے۔
تقریب کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے کہاکہ ہمیں معاشرے میں کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا اور لوگوں کو کتاب خوانی کی جانب لانا ہوگا۔ ادارہ علم دوست پاکستان اس سلسلے میں بڑی مستقل مزاجی سے کام کررہا ہے، ہمیں ان کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کرنا ہوگا۔ مہمانِ خصوصی ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ نے کہا کہ ادارہ علم دوست کی مہربانی ہے کہ اس کم علم کو بھی اہلِ علم میں شمار کیا، بچے پوچھتے ہیں کہ ہر چیز انٹرنیٹ پر موجود ہے پھر کتاب کیوں؟ ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہوگا کہ کتاب کی اپنی اہمیت ہے، ہمیں اپنے نوجوانوں کو کتاب کی جانب راغب کرنا ہوگا، کتاب سے تخلیقی قوت بیدار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر فرحان عیسیٰ نے کہاکہ ہمیں علمی، ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہوگا، اس سلسلے میں میرا مکمل تعاون ادارہ علم دوست کو حاصل رہے گا۔ انہوں نے کہاکہ میرا بھی ایک علمی، ادبی گھرانے سے تعلق ہے، سجاد حیدر یلدرم میرے بزرگوں میں سے تھے، میری والدہ کا بھی شعر و ادب سے گہرا تعلق ہے۔ عقیل عباس جعفری نے کہاکہ کتاب کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب کو خرید کر پڑھا جائے تاکہ پبلشرز کی حوصلہ افزائی ہو اور کتابیں شائع ہونے میں آسانی پیدا ہوسکے۔ ہمیں فروغِ کتب خوانی کے لیے ریڈرز کلب بھی قائم کرنے ہوں گے۔ نسیم شاہ نے کہا کہ کتب بینی کی عادت صحت کے لیے اکسیر ہے، ذہن کو صحت مند رکھنے کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے، مطالعہ ذہن کو جِلا بخشتا ہے، کتابوں کے مطالعے سے ہم اپنے ادیبوں، دانشوروں، شاعروں سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ جی ایم جمالی نے کہاکہ علم پھیلانا بڑا کام ہے ۔ اسلام آباد سے آئے ہوئے ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے تفصیلی خطاب میں کتاب کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ مطالعے سے طبیعت میں شگفتگی اور یادداشت میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے یومِ اقبال کی مناسبت سے بھی گفتگو کی اور جابجا خوب صورت اشعار سناکر حاضرین سے داد حاصل کی۔ سینئر علمی، ادبی شخصیت رضوان صدیقی نے کہاکہ آج بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمیشہ اگلی صفوں میں بٹھائے جاتے ہیں مگر آج وہ سب میزبانی کررہے ہیں۔ شبیر ابن عادل کی نیک نیتی اور مستقل مزاجی سے کتاب کی اہمیت اور فروغِ کتب بینی میں ان کی خدمات کے اعتراف میں ارباب ِعلم و دانش کی بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔ علی حسن ساجد نے کہاکہ ہمیں نوجوان نسل کو آگے بڑھانا ہوگا اور ان کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو بھی نظرانداز کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ وہ جلد بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تعاون سے ’’ایک شخص ایک کتاب‘‘ پروگرام شروع کریں گے جس میں ادیب اور شاعر اپنی تخلیقات پیش کریں گے۔
تقریب میں معروف علمی و ادبی شخصیات کو ان کی خدمات پر خصوصی ایوارڈ دیئے گئے، ان شخصیات میں سید اطہر علی ہاشمی، پروفیسر عنایت علی خان، پروفیسر نگار سجاد ظہیر، افتخار علی شالوانی، پروفیسر رئیس صمدانی، عقیل عباس جعفری، علی حسن جاوید، نعیم قریشی، راشد اشرف، طارق رحمٰن فضلی، فرحانہ اویس، طارق جمیل، شبینہ فراز، سید تحسیم الحق حقی، جاوید مہر، اشفاق احمد، حامد اسلام خان شامل ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر تنویر انور خان، بہادر یار جنگ اکادمی، م۔ص ایمن نے اپنی کتب مہمانوں کو پیش کیں۔ تقریب میں بڑی تعداد میں اربابِ علم و دانش کے ساتھ ڈاکٹر شاداب احسانی، صفدر صدیق رضی، مجید رحمانی، ندیم ہاشمی، صدیق راز ایڈووکیٹ، عامر سعید، شاہین مصور، عبدالباسط، محسن نقی، جہانگیر سید، کاشف ہاشمی، میر حسین علی امام و دیگر نے شرکت کی۔ مہمانوں کے لیے عشایئے کا اہتمام کیا گیا۔