جمعرات 22 اکتوبر 2020ء کو خیرپور کے کچے کے علاقے میں ایک مبینہ پولیس مقابلے کے نتیجے میں چھے بدنام زمانہ ڈاکو (جن میں دو سگے بھائی بھی شامل تھے) مارے گئے۔ اس بارے میں سوشل میڈیا سمیت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے کہ مذکورہ پولیس مقابلہ واقعتاً ہوا بھی تھا یا نہیں؟ معروف کالم نگار نثار کھوکھر نے ہفتہ 24 اکتوبر 2020ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی میں اس ہفتے کے سلگتے ہوئے موضوعات میں سے ایک پر جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ برائے معلومات اور دلچسپی قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
…………
’’خیرپور کے کچے کے علاقے میں ایک یا دو نہیں، بلکہ ایک ساتھ چھے ڈاکوئوں کی نعشیں ملنے کے بعد دو قسم کے دعوے سامنے آئے ہیں۔ ایک دعویٰ تو براہِ راست سندھ پولیس کا ہے کہ ہم نے پولیس مقابلے میں چھے ڈاکوئوں کو مارا ہے۔ جب کہ دوسرا دعویٰ جو افواہوں اور عوامی کچہریوں پر مبنی آرا کا ہے اُس کا کوئی بھی اصل مالک نہیں ہوا کرتا، بلکہ یہ دعویٰ کچے کے عام لوگوں کی زبان پر ہے اور ایک طرح سے زبان زدِ عام ہوچکا ہے، اور وہ یہ کہ ڈاکوئوں کے مختلف ٹولوں از قسم خروس، کھوکھروں اور ناریجو کا آپس میں جھگڑا تھا جس کے نتیجے میں مذکورہ چھے ڈاکو مارے گئے، اور ان کی نعشوں کی مدعی بعد ازاں پولیس بن گئی کہ اس نے ان ڈاکوئوں کو مارا ہے۔ یہ ڈاکو اتنے زیادہ خطرناک اور انعام یافتہ تھے کہ ایک دن کے اندر ہی آئی جی سندھ کی جانب سے ان سے مقابلہ کرنے والی پولیس پارٹی کے لیے پچاس لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔ سندھ پولیس جو اپنے آئی جی کے اغوا کیس میں ایک دن پہلے تک بہت زیادہ ڈی مورالائز ہوچکی تھی، اس پولیس مقابلے سے خاص طور پر بالائی سندھ کے اضلاع میں مسرت کی ایک لہر سی دوڑ گئی ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن جن افرادکو کچے کے جغرافیہ اور ڈاکوئوں کی نفسیات کا تھوڑا بہت بھی علم ہے وہ اس مقابلے کو مشکوک قرار دے رہے ہیں۔ ان ڈاکوئوں کے ٹولے کے مارے جانے پر خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے، تاہم اسے مقابلہ قرار دیے جانے پر استعجاب کا اظہارِ ہورہا ہے۔ ان کی تنقید کے بنیادی نکات ہیں، اور وہ یہ کہ اگر یہ واقعتاً ڈاکوئوں اور پولیس کے مابین مقابلہ تھا تو اتنے خطرناک ہتھیاروں کے ہوتے ہوئے ڈاکوئوں کی جانب سے ایک بھی راکٹ لانچر یا اینٹی ائیر کرافٹ گن یا جی تھری کی گولی فائر کیوں نہیں کی گئی؟ کیا ڈاکو یہ ہتھیار صرف نمائش کے لیے اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں؟ یا پھر یہ ہتھیار ڈاکوئوں کو اپنی جان سے بھی کہیں زیادہ پیارے ہیں کہ سر دھڑ کی بازی لگتے وقت بھی انہوں نے یہ خطرناک ترین ہتھیار استعمال نہیں کیے؟ جس کی وجہ سے پولیس اہلکاروں میں سے کوئی ایک بھی زخمی ہونا تو ٹھیرا ایک طرف، لاڑکانہ اور خیرپور یعنی دونوں اضلاع کی پولیس کی کسی ایک گاڑی کو بھی کوئی گولی تک نہیں لگی، نہ خراش آئی، اور نہ ہی کوئی اور معمولی نوعیت کا کوئی نقصان کسی سطح پر بھی ہوا ہے۔ لہٰذا اس بنا پر اس سارے پولیس مقابلے ہی کو مشکوک قرار دیا جارہا ہے۔ دوسرے جو تھوڑے بہت پڑھے لکھے افراد ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر ڈاکوئوں کی نعشوں کی فرانزک رپورٹ کروائی جائے تو بآسانی پتا چل جائے گا کہ انہیں کون سی سرکاری گولی کتنی دور سے لگی ہے۔ یہ سوالات اس لیے بھی جنم لے رہے ہیں کہ سندھ پولیس کی ڈاکوئوں کے خلاف کارروائیاں سب کے سامنے ہیں، اور یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بلکہ اس صورتِ حال کو ’’یہ نصف صدی کا قصہ ہے‘‘ کے مصداق قرار دیا جا سکتا ہے، اور کچے کے علاقے کے باشندے اس بارے میں تمام امور سے خوب اچھی طرح سے معلومات اور آگہی رکھتے ہیں۔ کچے کے باشندوں کا خیال ہے کہ حال ہی میں منیر مصرانی اور تیغانی ڈاکوئوں کے گروہوں نے شکارپور، کندھ کوٹ اور کشمور میں وہاں کی پولیس کو کچے کے علاقے میں داخل ہونے نہیں دیا تھا، اور ان کی بکتربند گاڑیاں ڈاکوئوں کے ہتھیار جی تھری کی گولیاں کھا کر ناکام و نامراد کوئی کارروائی کیے بغیرہی واپس لوٹ آئی تھیں، کیوں کہ یہ بکتربند گاڑیاں محض ٹین کے ڈبے ہی ہیں اور بلٹ پروف بالکل نہیں ہیں، اس لیے پولیس اہلکار ان گاڑیوں میں بیٹھ کر آپریشن کرنے کا مطلب اپنی موت کو دعوت دینا قرار دیتے ہیں۔ شکارپور یا کندھ کوٹ، کشمور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف بہتر آپریشن نہ کرسکنے والی سندھ پولیس کے پاس آخر ایسی کون سی قوت آگئی تھی کہ اس نے ایک ہی دن میں اس طرح سے چھے ڈاکو مار ڈالے ہیں؟ وہ ویڈیو سندھ پولیس نے خود شیئر کی ہے جس میں کیلوں کے باغ والے کچے میں جب دونوں اضلاع خیرپور اور لاڑکانہ کے ایس ایس پیز اپنی اپنی ٹیموں کے ساتھ لاشیں دیکھنے کے لیے پہنچے تھے تو ہتھیار بھی کیمرے کو دیکھ کر وہ بعد میں اٹھاتے تھے۔ خیرپور کے کچے کے علاقے میں واقع کیلوں کا یہ گھنا باغ دیکھ کر مجھے 1990ء کی دہائی میں کیا گیا پولیس کا وہ آپریشن یاد آگیا جو کراچی پولیس کے موجودہ سربراہ غلام نبی میمن کی سرکردگی میں کئی دن تک جاری رہنے کے باوجود کوئی ایک بھی ڈاکو زندہ یا مُردہ حالت میں ہاتھ نہیں آسکا تھا۔ پیر جو گوٹھ کے علاقے کے باسیوں کو یہ آپریشن خوب اچھی طرح سے یاد ہوگا، کیوں کہ ڈاکوئوں کے خلاف اس آپریشن کے دوران پولیس نے ایکڑوں پر محیط کیلوں کے متعدد باغات کٹوا کر اس لیے تباہ کر ڈالے تھے کہ پولیس کو یقین تھا کہ کیلوںکہ ان وسیع باغات میں ڈاکو چھپے ہوئے بیٹھے ہوں گے۔ ان ایام میں مَیں سکھر سے رپورٹنگ کیا کرتا تھا، اس لیے ایک روز میں خاص طور پر غلام نبی میمن کے کہنے پر مذکورہ آپریشن دیکھنے کے لیے گیا تھا۔ اُس وقت کے ایس ایس پی خیرپور غلام نبی میمن اپنے ساتھ گاڑی میں ہتھیاروں کے ساتھ چنے اور گڑ بھی رکھا کرتے تھے تاکہ اگر آپریشن طوالت اختیار کرلے تو انہیں خوراک کی کمی محسوس نہ ہوپائے۔ لیکن پولیس کی تمام تر سعی کے باوجود ڈاکو ان کے ہاتھ نہ آسکے، اور کیلوں کے باغات اجاڑ کر اور برباد کرکے پولیس اہلکار خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے تھے۔ اس لیے کچے کے علاقے میں پولیس مقابلہ اتنا آسان ہرگز نہیں ہے جتنا کہ حالیہ پولیس مقابلے کو بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ اسی خیرپور کے کچے کے علاقے میں ان دنوں بدنام زمانہ ڈاکو ابراہیم سندیلو بھی رہا کرتا تھا اور بآسانی کچے اور پکے کا سارا علاقہ اپنے قدموں تلے روندتا اور پامال کیا کرتا تھا۔ اس سندیلو نامی ڈاکو نے سارے علاقے کو اپنی مجرمانہ سرگرمیوں سے اس قدر زیادہ عاجز، بیزار اور تنگ کر ڈالا تھا کہ اُس وقت کے ایس ایس پی ضلع خیرپور بشیر میمن نے اس کے خلاف انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن کا فیصلہ کیا تھا اور یہی پولیس ابراہیم سندیلو کو کسی سچے یا جھوٹے پولیس مقابلے میں ٹھکانے ہی لگا پائی تھی۔
ان دنوں میں گھوٹکی کا کمال شیخ کا ٹولہ بھی اتنا ہی سرگرم اور بدنام ہوا کرتا تھا جتنا آج کل منیر مصرانی ہے۔ کمال شیخ اپنی پبلسٹی اخبارات میں اسی طرح سے کرانے کا شوقین تھا جس طرح سے اب منیر مصرانی سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات نشر کرواتا پھرتا ہے۔ ان ایام میں کمال شیخ گھوٹکی کے صحافیوں کو کچے کا علاقے گھمانے پھرانے کے بعد انہیں بوسکی کے جوڑے بطور تحفہ دیا کرتا تھا، لیکن پولیس جسے کمال شیخ تک پہنچنا تھا وہ اس کی بھنک بھی نہ پا سکی کہ آخر وہ گیا کہاں؟ زمین کھا گئی یا پھر آسمان نگل گیا؟ اس لیے اب موجودہ پولیس مقابلہ کرنے کے ذمہ دار دعویداروں کو یہ امر ضرور واضح کرنا چاہیے کہ آخر یہ مقابلہ ہوا کس طرح سے اور کیسے؟ کیوں کہ کچے کے چوروں اور ڈاکوئوں کی رگ رگ سے واقف لوگوں کو پورا یقین ہے کہ اتنے خطرناک ڈاکو مر جائیں تو یہ اچھی بات ہے، لیکن پولیس انہیں کسی مقابلے میں پار نہیں کرسکتی، کیوں کہ وہ نسیم کھرل کی کہانی ’’پہلا مرد‘‘ کے چور کی طرح اپنی کی گئی چوری بھی کسی کو نہیں دیتے تو پھر بھلا وہ اپنے ٹولوں کے ٹولے پولیس کے ہاتھوں آخر کیوں مروائیں گے!‘‘۔