کنٹرول لائن پر بسنے والوں کے لیے قیامت

بھارتی فوج کی بھاری توپ خانے سے گولہ باری

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات

ہفتۂ رفتہ جمعہ کا بابرکت دن کنٹرول لائن پر بسنے والوں کے لیے قیامت خیز رہا، بالخصوص وادی نیلم اور لیپا کے عوام کے لیے یہ دن بھاری رہا۔ بھارتی فوج نے بھاری توپ خانے کا استعمال کرکے دودھنیال، ٹیٹوال اور لیپا سیکٹروں میں تباہی برپا کردی۔ بھاری توپ خانے سے کی جانے والی گولہ باری سے پانچ افراد شہید جبکہ پچیس زخمی ہوئے۔ گولہ باری سے دودھنیال سیکٹر میں ایک ننھا بچہ اپنی آنکھ سے محروم ہوگیا، اور اس بچے کی تصویروں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ گولہ باری سے درجنوں مکانات، دکانیں، مساجد، تعلیمی ادارے تباہ ہوئے۔ وادی نیلم میں کئی گھر جل کر راکھ ہوگئے۔ ان جلتے گھروں کی براہِ راست عکس بندی میں آسمان تک بلند ہوتے ہوئے شعلے اور بے بس مکینوں کی آہ و بکا دنیا کو بتارہی تھی کہ اس خطے میں انسانی آبادی پر ایک قیامت برپا ہے اور اس صورتِ حال نے خطے کے امن کو دائو پر لگا رکھا ہے۔ آزادکشمیر کے دیہی علاقوں میں مکان دیودار کے شہتیروں سے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ یہ لکڑی پیٹرول کی سی تیزی سے آگ پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یوں ایک معمولی سی چنگاری پورے محلوں کو راکھ کا ڈھیر بنا ڈالتی ہے۔ بھارتی فوج کے لیے مکانوں پر آتش گیر مادہ ڈال کر عوام سے انتقام لینا ایک آسان طریقہ ہے۔ وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر خان نے بھارتی گولہ باری کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے اس واقعے کو اقوام متحدہ میں اُٹھانے کا مطالبہ کیا۔ کئی مقامات پر سول سوسائٹی کے افراد نے بھارتی گولہ باری کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق چند دن قبل مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں مجاہدین نے ایک کارروائی میں تین بھارتی فوجی مار دیے، جس پر بھارتی حکومت پر اندرونی حلقوں میں شدید تنقید ہوئی، اور اس کے بدلے میں بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں نہتی آبادی کو نشانہ بنایا۔
بھارتی گولہ باری سے چند دن پہلے وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر نے ’’آزادکشمیر بچائو ‘‘مہم چلانے کا اعلان کیا۔ عمومی طور پر یہ سمجھا گیا کہ فاروق حیدر گلگت بلتستان کی طرح آزادکشمیر کو صوبہ یا مختلف صوبوں میں تقسیم ہونے سے بچانے کی بات کررہے ہیں۔ اس مہم کے دوران فاروق حیدر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اہم ملاقات کی۔ اس ملاقات کی اصل بات بتانے سے تو انہوں نے یہ کہہ کر گریز کیا کہ ملاقات کی ہر بات بتائی نہیں جا سکتی، مگر ملاقات کے دوسرے روز ہی کنٹرول لائن پر شدید جھڑپیں شروع ہوئیں اور اس سے آزادکشمیر کے کئی علاقے متاثر ہوئے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ فاروق حیدر کی آزادکشمیر بچائو مہم کا تعلق آزاد خطے کو لاحق دفاعی خطرات سے ہے، کیونکہ پانچ اگست (2019ء) کے بعد بھارت نے کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کردی ہے اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بدستور متنازع علاقوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور بھارت ان علاقوں پر اپنا دعویٰ بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس لیے بھارت ان علاقوں پر جارحیت کے لیے اس وقت کو مناسب سمجھ رہا ہے۔ بھارت نے بھی جمعہ کی گولہ باری میں اپنے چار فوجیوں اور بارڈر سیکورٹی فورس کے ایک اہلکار کی ہلاکت اور بیس افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔ کئی ہفتے پہلے سامنے آنے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارتی فوج نے اس سال کنٹرول لائن کی 2580 بار خلاف ورزی کی ہے۔ ان واقعات میں 19افراد شہید جبکہ 199افراد زخمی ہوئے۔ اب تازہ واقعات نے شہدا اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
چین کی لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر مار کھانے کے باوجود بھارت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا۔ کنٹرول لائن پر ہونے والی ہلکی پھلکی جھڑپیں کسی بھی خوفناک تصادم میں ڈھل سکتی ہیں۔ دنیا اس خطرے سے اب تک غافل ہے۔ خطے میں کشیدگی اب پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہی، بلکہ چین بھی اس کشیدگی کا اہم فریق بن کر اُبھر رہا ہے۔ بھارت ایک ایسی جنگ کی تیاری کررہا ہے جس میں اُس کے مدمقابل دو فریق ہوں گے۔ اسے دومحاذوں کی جنگ کہا جارہا ہے۔ اگر تین ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو بات کہاں جاکر رکے گی اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ آئے روز پاکستان کو جانی ومالی نقصان سے دوچار کرنا پاکستان کے ردعمل کو جانچنے کی کوشش ہے۔ فائرنگ اور گولہ باری کے ہر واقعے کے بعد دفتر خارجہ بھارت سے پُرزور احتجاج کرتا ہے۔ اس انداز کا احتجاج اب معمول بن گیا ہے۔ یوں بھارتی فائرنگ، ہمارا نقصان اور اس کے ساتھ رسمی احتجاج… سب کچھ عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے، مگر اس سے کنٹرول لائن پر بسنے والوں کے مصائب اور دکھ کم نہیں ہوتے۔ کنٹرول لائن کے عوام نے ہر دور میں پاک بھارت جنگوں اور کشیدگی کی قیمت چکائی ہے مگر 1988ء میں کشمیر میں شروع ہونے والی مسلح تحریک کے بعد کنٹرول لائن ایسی بھڑک اُٹھی کہ دوبارہ کبھی ٹھنڈی نہ ہوسکی، سوائے جنرل پرویزمشرف کے دور میں2003ء میں ہونے والی جنگ بندی کے، جو کم وبیش ایک عشرے تک ہی چل سکی، جس کے بعد سے ایک اور عشرہ ہونے کو ہے کنٹرول لائن آگ اور خون کی لکیر بن کر رہ گئی ہے۔کنٹرول لائن پر فائرنگ میں معصوم اور نہتی آبادی ہی دشمن کا نشانہ بنتی ہے۔ کنٹرول لائن کو گرم رکھنا بھارت کی سوچی سمجھی جنگی اسکیم کا حصہ ہے۔ بھارت کشمیر میں چلنے والی تحریک سے زچ ہوکر اس کا بدلہ آزادکشمیر کے عوام سے لیتا ہے۔ اس کے پیچھے جہاں بدلے کی سوچ ہوتی ہے وہیں پاکستان کے جواب کی صورت میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کا نقصان بھی بھارت کے لیے خوشی کا باعث بنتا ہے۔ ’’چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر، نقصان خربوزے کا ہی ہوتا ہے‘‘ کے مصداق فائرنگ ایک طرف سے ہو یا دوسری طرف سے، نقصان کشمیری مسلمان کا ہی ہوتا ہے۔ اِس بار بھی جہاں ایک طرف آزادکشمیر میں جانی ومالی نقصان ہوا، وہیں مقبوضہ کشمیر میں کپواڑہ اور بارہ مولہ کی نواحی آبادیوں میں بھی مقامی آبادی ہی جانی ومالی نقصان سے دوچار ہوئی۔ بھارت کے لیے یہ ہینگ لگے نہ پھٹکری والا معاملہ ہے، مگر پاکستان کے لیے مقبوضہ علاقے کی آبادی بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح آزادکشمیر کی آبادی، کیونکہ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اس وقت کنٹرول لائن کے قریب دس لاکھ لوگ بستے ہیں، اور ان میں ایک بڑی تعداد پانچ سو میٹر کی دوری پر ہے، جبکہ اچھی خاصی تعداد کنٹرول لائن سے دو ڈھائی کلومیٹر کی دوری پر رہتی ہے۔ یوں یہ لوگ بھارتی فوج کی آسان دسترس میں ہیں۔ بھارتی فائرنگ میں انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ گھر، دکانیں، اسکول اور اسپتال تباہ ہوتے ہیں، اور مال مویشی مارے جاتے ہیں۔ یوں 340 کلومیٹر طویل کنٹرول لائن روز شعلے اگل کر ایک المناک کہانی کو جنم دیتی ہے۔ اقوم متحدہ کے فوجی مبصرین کا کردار اب اس معاملے میں نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، کیونکہ بھارت نے اپنی طرف تعینات فوجی مبصرین کو عضوِ معطل بنا دیا ہے۔ پاکستان فوجی مبصرین سے یک طرفہ تعاون کررہا ہے، کیونکہ ان مبصرین کی موجودگی کشمیر کی متنازع حیثیت کا واضح ثبوت ہے۔ بھارتی فوج کنٹرول لائن پر عالمی قوانین اور جنگی اصولوں کی صریح نفی کرکے نہتے لوگوں کو نشانہ بنارہی ہے۔آبادی پر توپ خانے کا استعمال کیا جانا معمول ہے۔ رائفل، اسنائپر، مارٹر سمیت عام اور معصوم شہریوں پر ہر ہتھیار کا استعمال بھارتی فوج کے لیے جائز بن چکا ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اس ساری صورتِ حال کودفتر خارجہ کے بیانات اور رسمی احتجاج تک محدود کرنے کے بجائے اس حوالے سے جامع فوجی حکمتِ عملی تشکیل دینا ہوگی۔