آلودگی بیماریوں کی جڑ

پیٹ میں درد، سر چکرانا، گلے میں خراش، آنکھوں میں جلن ، چڑچڑا پن کا تناسب بڑھ رہا ہے

آپ کراچی کے بڑے بازار کا ایک چکر لگا کر آجائیں، باہر سے سموسے کھا لیں، یا سڑک کنارے پانی پی لیں، آپ کے بیمار پڑنے کے امکانات کہیں زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اب سے چند سال پہلے ایسا نہیں تھا۔
کراچی کی آب و ہوا، پانی، غذا… سب میں آلودگی کا تناسب مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔
گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، کچرے کو آبادیوں کے درمیان جلانا، دنوں، ہفتوں شہری علاقوں میں کچرے اور گندگی کے ڈھیر، پانی میں فضلہ کی آمیزش، پینے کے پانی کی صفائی کا فقدان، صنعتی فضلہ کی ندی نالوں میں ملاوٹ، اور پھر اس پانی سے سبزیوں کی کاشت، گاڑیوں کا شور…ان تمام باتوں کو اگر ترتیب دیں تو تین سرخیاںبنتی ہیں:
٭ماحولیاتی آلودگی
٭پانی اور غذائی آلودگی
٭فضائی آلودگی

فضائی آلودگی

گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں… جس میں سے کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر، میتھین، آرسینک، سیسہ، گیسوں اور ذرات کا اخراج ہوتا ہے… کی وجہ سے ذہنی دباؤ، دل کی بیماریوں، اور کینسر میں اضافہ انسانوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان گیسوں کا بڑھتا ہوا اخراج اوزون کی سطح کو خراب کررہا ہے، جس کی وجہ سے شہری علاقوں کے درختوں، پودوں وغیرہ کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔
فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کے مسائل میںاضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، اور دمہ، کھانسی، الرجی، گلے کی خراش، نزلہ، چھینکوں، گھٹن، سر درد، آشوبِ چشم، جلدی امراض میں اضافہ ہورہا ہے، اور بچوں کی اسکولوں میں حاضری اور ملکی پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہورہی ہے۔
کرنے کا کام یہ ہے کہ حکومتی سطح پر گاڑیوں کی فٹنس کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے، اور گاڑیوں کے مالکان خود بھی اس چیز کا احساس کریں کہ ان کی گاڑیوں کے دھویں کی وجہ سے نہ صرف وہ خود بلکہ دوسرے افراد اور بچے بھی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح شہر کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے صنعتی گیسوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے اور اس کو ٹریٹمنٹ کے بعد خارج کرنے کے عمل پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
تیسری طرف یہ شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے علاقے میں کسی قسم کے کچرے کو جلانے سے لوگوں کو منع کریں، سمجھائیں، رہائشی علاقوں میں چھوٹے صنعتی یونٹس کے قیام کو روکیں۔
جب تک یہ سلسلہ بہتر نہیں ہوتا خود بھی ماسک کا استعمال کریں اور اپنے بچوں کو بھی کروائیں۔

ماحولیاتی آلودگی

شہر میں لاکھوں ٹن کچرا، جس کو سالڈ ویسٹ کہا جاتا ہے، پیدا ہوتا ہے۔ اس میں استعمال شدہ چائے کی پتی، سبزیوں کے چھلکے، گوشت کی آلائش، بچوں کے ڈائپر، اور اسی طرح کا دیگر کچرا شامل ہے۔
سوچیں کہ آپ کے ایک گھر کا کچرا اگر باہر پڑا رہے، اور شہر بھر کے لاکھوں گھروں کا کچرا اسی طرح بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے میدانوں، سڑکوں، محلوں ، گلیوں میں موجود ہو جو کہ آج کل دکھائی دیتا ہے تو اس کچرے سے کس قدر گندگی اور تعفن پھیلے گا، اور یہ کچرا بہت ساری بیماریوں کا سبب بنے گا۔
اکثر سوال ہوتا ہے ہمارے بچے کو بار بار بیماری کیوں پکڑ لیتی ہے؟ غور کریں ہم خود کچرا پھیلا کر بیماریوں کو دعوت نہیں دے رہے!
گلیوں میں موجود کچرا ہی جراثیم کی افزائش اور پھیلاؤ کا بنیادی سبب ہے۔ اس کچرے سے ملیریا اور دیگر جراثیم کی افزائشِ نسل آسان ہوجاتی ہے، اور وہ پھر آپ کے جوتوں، کپڑوں اور ہوا کے ذریعے آپ کے گھر میں داخل ہوکر بچوں میں بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
بچاؤ کی واحد ترکیب یہ ہے کہ اپنے آس پاس ہم خود صفائی کا خاص خیال رکھیں اور دوسروں کو اچھے لفظوں میں بہتر انداز سے صفائی کی اہمیت سمجھائیں۔ رب العالمین کا فرمان ہے ’’لوگوں کو بلاؤ بھلائی کی طرف حکمت اور بہترین عمل سے‘‘
اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کا ایک دوسرا پہلو شور شرابہ ہے جو گاڑیوں کے تیز ہارن ، تیز میوزک وغیرہ وغیرہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ شہر کے اندرونی حصوں میں اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے بچوں کی سننے اور سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے، وہ چیخ چیخ کر بات کرنے لگے ہیں اور چڑچڑا پن نمایاں ہورہا ہے۔
اوپر بھی اس کا ذکر آچکا ہے کہ شہر کے اندرونی حصوں میں سیسہ اور دیگر خطرناک کیمیائی مادوں کی مقدار بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

غذائی اور پانی کی آلودگی

اگر دیکھا جائے تو شاید یہ سب سے اہم پہلو ہے جس کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
’’ڈاکٹر صاحب ہم تو فلاں پانی پیتے ہیں‘‘ یا ’’ہم صرف اور صرف برانڈڈ کھانے کی جگہ سے کھانا منگواتے ہیں، اس کے باوجود بچے بیمار پڑ گئے‘‘۔
شہر میں بیماریوں پر اگر غور کریں تو چاہے ڈینگی ہو یا ملیریا… اکثر بیماریوں کا تعلق کھانے اور پانی سے جڑتا ہے، جس کے جراثیم ٹھیرے ہوئے صاف اور گندے پانی میں پرورش پاتے ہیں، یا ٹائیفائڈ اور وائرل ہیپاٹائٹس ہو، جو خراب پانی یا کھانا کھانے سے پھیلتا ہے۔
ڈائریا ہو جو کہ کھانے، پینے اور فضائی وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے۔
اپنے آس پاس صاف پانی کو جمع نہ ہونے دیں۔ گملوں، کیاریوں میں پانی کھڑا نہ ہونے دیں۔ بالٹیاں ڈھانک کر رکھیں، کموڈ کے ڈھکن کو بند رکھیں۔ اس طرح شاید آپ ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ کو روک سکیں۔
اسی طرح بہت دن سے کھڑا پانی ملیریا کے مچھر کی افزائش کا باعث بن سکتا ہے۔
پانی اور کھانے سے پھیلنے والی بیماریوں یعنی ٹائیفائڈ، وائرل ہیپاٹائٹس اور ڈائریا وغیرہ سے بچنے کی واحد اور مؤثر ترین ترکیب صاف کھانا اور صاف پانی ہے۔ صاف پانی سے مراد آلودگی سے پاک، ابال کر محفوظ کیا ہوا پانی، یا پھر صحیح طریقے سے ٹریٹمنٹ ہوا، کلورین ملا ہوا پانی ہے۔
صاف کھانے سے مراد گھر کا پکا ہوا کھانا، یا پھر قابلِ اعتماد جگہ کا کھانا ہے۔
ہم بھرپور کوشش کریں اپنے ماحول کی صفائی، اپنے شہر کی صفائی، شہر کی فضا کو آلودہ ہونے سے بچانے کی اور اپنے بچوں کے لیے صاف پانی اور صاف اور بہتر غذا کی فراہمی کی۔
نہ صرف خود کچرا باہر گلی میں نہ پھینکیں بلکہ دوسروں کو بھی نہ پھیلانے دیں۔ کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے سب مل کر بہتر انتظام کریں اور اپنے بلدیاتی نمائندوں سے عمل کروائیں۔
اپنی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں وغیرہ کے انجن کو بہتر حالت میں رکھیں تاکہ پیٹرول اور سی این جی کے جلنے سے جن گیسوں کا اخراج ہوتا ہے وہ کم سے کم ہو۔
شہر کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اپنے صوبائی اور قومی نمائندوں کے ذریعے صنعتی یونٹس کے سالڈ ویسٹ اور فضلہ کو بہتر طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے ماحولیاتی ایجنسیوں کو اپنا کام درست طور پر انجام دینے کا پابند بنائیں۔
اپنے گھر اور محلے کے سیوریج سسٹم کو بہتر حالت میں رکھیں تاکہ انسانی فضلہ زمین میں موجود پانی کے ساتھ نہ ملے، اور کنویں کے پانی کے ذریعے پینے اور کھانا پکانے میں استعمال نہ ہو۔
اگر بھرپور کوشش کے باوجود بچے بیمار پڑتے ہیں تو کسی مستند معالج سے ہی رجوع کریں۔ بچوں کو حفاظتی ٹیکے وقت پر لازمی لگوائیں۔
صفائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت، اور بیماری کی حالت میں علاج ہدایت ہے۔