عزیز ہم سفر عبدالغفار عزیزؒ

عزیزم عبدالغفارعزیز کو بجا طور پر اسلام کا سفیر کہاگیا ہے۔ سفارت کاری کی اصطلاحات میں انگریزی زبان کی ایک اصطلاح Ambassador-At-large ہے۔ یہ ایسے سفیر کو کہا جاتا ہے جوکسی ایک ملک میں نہیں بلکہ کئی ممالک میں یا پوری دنیا میں سفارت کاری کے فرائض انجام دیتا ہے۔ میرے خیال میں عبدالغفارعزیز اسلام اور مسلمانانِ عالم کے ایمبیسیڈر ایٹ لارج تھے۔
اس سلسلے میں وہ صرف مسلمان ملکوں میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے سفر پر رواں دواں رہتے تھے۔ مجھے کچھ مسلمان ملکوں میں اُن کے ساتھ سفر کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ان ممالک میں ترکی، ایران، قطر، بحرین، سعودی عرب، کویت، لیبیا، متحدہ عرب امارات کی تین ریاستیں دبئی، ابوظہبی اور شارجہ شامل ہیں۔ ان سب ممالک کے اسفار کا حال تو ایک کتاب میں ہی بیان کیا جاسکتا ہے۔ میں اس مضمون میں صرف چند ممالک کے اسفار کا مختصر احوال عبدالغفارعزیز مرحوم کی عربی زبان کی مہارت اور اہم شخصیات کی طرف سے اُن کی قدرو منزلت کی ایک جھلک دکھانے کی غرض سے پیش کررہا ہوں۔
1۔ قطر میں حلقۂ احباب کے ارکان کو جب عبدالغفارعزیز اور میرے آنے اور ایک خصوصی اجتماعِ ارکان میں حاضر ہونے کی اطلاع دی گئی تو سب ارکان بڑے ذوق و شوق کے ساتھ حاضر ہوئے، کیونکہ عبدالغفارعزیز اپنی قطر یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران اسی حلقۂ احباب سے وابستہ ہوگئے تھے اور اُن کا سب ارکان احترام کرتے تھے۔ ہم نے ان کے دعوتی حالات معلوم کرکے اور ان کی دعوتی اور رفاہی خدمات کی رپورٹس سن کر اُن کو باہم اتفاق و اتحاد کے ساتھ دعوت اور تربیت کے امور میں زیادہ سرگرمی کے ساتھ حصہ لینے کی تلقین کی۔ سب حضرات نے خوش دلی سے قبول کیا۔قطر میں قیام کے دوران عبدالغفار عزیز نے قطر یونیورسٹی کے سربراہ فضیلۃ الشیخ محمد یوسف القرضاوی اور یونیورسٹی کے ایک اور پروفیسر شیخ علی قُراداغی کے ساتھ ملاقاتوں کا پروگرام بنایا۔ پہلے فضیلۃ الشیخ محمد یوسف القرضاوی سے ملاقات کے لیے گئے۔ انہوں نے بڑے تپاک کے ساتھ اپنی یونیورسٹی میں اہم پوزیشن ہولڈر ہونہار شاگرد، اور ان کے ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر کا استقبال کیا۔ نہایت خوشگوار ملاقات میں جماعت اسلامی پاکستان کے حالات، عالمِ اسلام کے مسائل اور مشکلات، خصوصاً فلسطین اور کشمیر کے موضوعات پر بہت مفید گفتگو رہی۔ انہوں نے طرح طر ح کے پھلوں کے ساتھ ہماری تواضع کی۔
اگلے دن ہم نے شیخ علی قراداغی کے ہاں جاکر اُن سے ملاقات کی۔ انہوں نے عبدالغفارعزیز کی یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کی بہت تعریف کی۔ انہوں نے پُرتکلف چائے کے ساتھ ہماری تواضع کی۔چند سال پہلے شیخ محمد یوسف القرضاوی کی قیادت میں علمائے اسلام کی عالمی تنظیم قائم کی گئی تو عبدالغفارعزیز کو عربی زبان کی مہارت اور انگریزی زبان میں اچھی طرح اظہار و بیان کی قدرت کی بنا پر اس تنظیم کا نائب سیکرٹری جنرل مقررکیا گیا۔ وہ یہ خدمت خوبی سے ادا کرتے رہے۔
2۔سعودی عرب میں ہم ماہِ رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کی غرض سے گئے تھے۔ جدہ، مکہ معظمہ مدینہ منورہ میں اپنے تحریکی ساتھیوں اور اہم عرب احباب اور رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی مفید اور اچھی رہیں۔مکہ معظمہ میں عمرہ کی ادائیگی میں عبدالغفار عزیز کا عبادت میں انہماک، اور مسنون اوراد و وظائف سے عملی وابستگی نمایاں تھی۔ انہوں نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کے سفر کے لیے میری سہولت کی خاطر میری ہوائی جہاز کی بکنگ کرائی اورخود سڑک کے ذریعے طویل سفر کیا۔ وہ ہرسفر میں میرا بہت خیال رکھتے تھے۔
3۔1998ء میں لیبیا میں قائم ایک اسلامی تنظیم کی طرف سے دنیا بھر کے علماء، اسلامی تنظیموں اور اداروںکے ذمہ داروں کی ایک بہت بڑی عالمی کانفرنس منعقد کی گئی۔ پاکستان سے مولانا سمیع الحق شہید، مولانا فضل الرحمٰن، پروفیسر حافظ ساجد میر اور جنرل(ر) حمیدگل مرحوم بھی مدعو تھے۔ محترم امیر جماعت قاضی حسین احمد نے مجھے اور عبدالغفارعزیز کو اس کانفرنس میں جانے کے لیے نامزد کیا تھا۔ اُس وقت لیبیا کو مغربی مما لک نے نوفلائی زون قرار دیا ہوا تھا، اس لیے لیبیا جانے کے لیے مالٹا تک ہوائی سفر کیا جاسکتا تھا۔ پھر مالٹا سے لیبیا سمندری جہاز سے تقریباً بیس گھٹے کا سفر کرنا پڑا۔ لیبیا کے دوسرے بڑے شہر ’’بن غازی‘‘ میں ایک دو دن قیام کے بعد بسوں کے ذریعے کانفرنس میں جانا ہوا۔ یہ کانفرنس ایک بہت بڑے خیمے میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے دوسرے روز قذافی کے ساتھ ملاقات طے ہوئی تھی۔ دنیا کے مختلف ممالک کے وفود میں سے ایک صاحب کو سات آٹھ منٹ تک اظہار کا موقع دیا جاتا تھا۔ پاکستان سے جانے والے وفد میں تین دینی جماعتوں کے سربراہوں کی موجودگی میں صرف عبدالغفار عزیز کو اظہارِ خیال کا موقع دیا گیا۔ انہوں نے نہایت فصیح عربی زبان میں پاکستان کے حالات بیان کیے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان نے ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے آپ (قذافی) کی دلچسپی بھی شامل رہی تھی۔ اس بات کو سنتے ہی قذافی کے چہرے پر مسکراہٹ نمایاں ہوگئی۔ عبدالغفارعزیز کی عربی زبان میں اظہار و بیان کی قدرت کی وجہ سے انہیں تین دینی جماعتوں کے سربراہوں اور ایک سابق جنرل کے بجائے پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
قطر میں تعلیم کے دوران اخوان المسلمون کے اہم رہنماؤں کی تربیت کی وجہ سے قرآن کریم سے شغف اور قرآنی اور مسنون دعاؤں، اذکار اور اوراد سے دلچسپی اور وابستگی عبدالغفارعزیز کی فطرت میں شامل ہوگئی تھی۔ امام حسن البناء شہید کے اذکار، اوراد اور وظائف پر مشتمل کتاب ’’ماثورات‘‘ کا اردوترجمہ منصورہ کے اشاعتی ادارے ’’منشورات‘‘ نے 1971ء میں شائع کیا تھا۔ اس کتاب پر 2008ء میں عبدالغفارعزیز سے نظرثانی کروائی گئی جس سے ترجمہ بہتر ہوگیا، اور دوسرا ایڈیشن2008ء میں شائع کیاگیا۔ عبدالغفارعزیز نے ان اوراد و وظائف کو اپنی زندگی کا معمول بنالیا تھا۔ ان کی زبان ہروقت ان اوراد اور وظائف سے تر رہتی تھی۔
مجھے معلوم ہے کہ عبدالغفارعزیز کو قضیۂ فلسطین کے موضوع پر ہونے والے ایک سیمینار میں اظہارِ خیال کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اس سیمینار کی صدارت اردن کے ایک سابق وزیراوقاف کررہے تھے۔ اس میں عرب دنیا بشمول فلسطین کے رہنماؤں، دانشوروں اورصحافیوں کو دعوت دی گئی تھی۔ عبدالغفارعزیز نے مسئلہ فلسطین کے ماضی اور حال کا مختصر جائزہ پیش کرکے مستقبل کے لائحہ عمل پر بات شروع کی تو انہیں محسوس ہوا کہ وہ مقررہ وقت کے اندر اپنی بات مکمل نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے انہوں نے صدرِ مذاکرہ سے درخواست کی کہ ’’عجمی مقرر کو کچھ رعایت دے کر دو تین منٹ اضافی دے دیں‘‘۔ صدرِ مذاکرہ نے فرمایا کہ عجمی مقرر عرب مقررین سے زیادہ فصاحت و روانی سے بات کررہا ہے، اس لیے اسے کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی۔ اس پر عبدالغفارعزیز نے جلدی اپنی گفتگو مکمل کرلی۔
عبدالغفارعزیز کے خاندان سے میرا تعارف اور تحریکی تعلق نصف صدی سے زائد عرصے پر مشتمل ہے۔1964ء میں مجھے معلوم ہوا کہ عالمِ دین حکیم عبدالرحمٰن عزیز مورو ضلع نواب شاہ سندھ سے واپس آگئے ہیں اور پتوکی میں مطب قائم کرلیا ہے۔ میں جناب کمال سالارپوری مرحوم قیم علاقہ قصور کے ساتھ پتوکی گیا اور حکیم صاحب سے ملاقات کی۔ حکیم صاحب نے اپنی طبعی خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا۔ حال احوال سے آگاہی ہوئی۔ اس کے ساتھ انہوں نے مطب میں تشریف فرما بزرگ سے ہمارا تعارف یہ کہہ کر کرایا کہ یہ میرے والد صاحب رکن جماعت ہیں، میرے ساتھ رہتے ہیں۔
حکیم عبدالرحمٰن عزیز بعد میں علاقے میں قصور (موجودہ ضلع قصور) کے امیر منتخب ہوئے اور قصور سے مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ میری اُن سے کئی خوشگوار ملاقاتیں ہوتی رہیں اور بعد میں وہ منصورہ منتقل ہوگئے تھے۔
عبدالغفارعزیز مرحوم کے نانا جان بھی پتوکی کے نواح میں ایک گاؤں میں رہتے تھے اور جماعت کے ابتدائی ارکان میں سے تھے۔ اس طرح عبدالغفارعزیز کی پرورش تحریکی خاندان میں ہوئی۔ اس کے نتیجے میں وہ قطر میں اعلیٰ تعلیمی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے حصول کے بعد دنیاوی لحاظ سے پُرکشش کیریئر بنانے کے بجائے اُس وقت کے امیر جماعت قاضی حسین احمد صاحبؒ کے بلانے پر مرکز جماعت منصورہ حاضر ہوگئے۔ نومبر1994ء میں مولانا خلیل احمد حامدی کی ٹریفک حادثے میں وفات کے بعد انہیں ناظم شعبہ دارالعروبہ مقررکردیا گیا۔ چند سال کے عرصے میں انہوں نے اس شعبے کو امور خارجہ کا اہم شعبہ بنادیا اور عرب ممالک کے علاوہ یونان، جاپان، یورپ کے کئی ممالک کے دورے کرکے کئی ممالک میں جماعت کے حلقے بھی قائم کیے اور ان سے مسلسل رابطے رکھے۔ نئے ساتھیوں کی پیار اور محبت کے ساتھ تربیت کی اور ان کو فعال دعوتی حلقے بنادیا۔ ان حلقوں کی ہر سال منصورہ میں دو روزہ میٹنگ منعقد کرتے۔ ان کی کارکردگی کی رپورٹیں حاصل کرتے اور امیر جماعت اور مرکزی قائدین سے ان کو اہم ہدایات دینے کا پروگرام بھی بناتے تھے۔
اس سال ایسی ہی ایک میٹنگ میں جو ماہ اگست میں ہوئی تھی، وہ وہیل چیئر پر بیٹھ کرشامل ہوئے، کیونکہ مرض کی شدت کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہوگئے تھے اور چلنا مشکل ہوگیا تھا۔
میں ان کی بیماری کا پتا چلنے پر روزانہ ان کے لیے صحت کی دعائیں کرتا رہا۔ میرے اہلِ خانہ بھی مسلسل دعائیں کرتے رہے، مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے۔ وہ 5 اکتوبرکو اپنے خالق و مالک کی ابدی رحمتوں میں داخل ہوگئے۔ اِنا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیہِ رَاجِعُونَ۔بقول شاعر :۔

آدمی بلبلہ ہے پانی کا
کیا بھروسا زندگانی کا

اللہ تعالیٰ اُن کی عمر بھر کی حسنات کو شرفِ قبولیت بخشے، انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔آمین
اللہ تعالیٰ ان کی اہلیہ، میری بیٹی کو صبرجمیل کی توفیق بخشے، ان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے،آمین۔ احمد فوزان بیٹے، احمد باسل بیٹے، زونا پیاری بیٹی اور شہامہ پیاری بیٹی کی حفاظت فرمائے اور سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اپنے عظیم بابا کے نقشِ قدم پر چلائے،آمین۔ مجھے اُمیدِ واثق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کی حفاظت فرمائے گا اور اِن شاء اللہ انہیں عبدالغفارعزیز مرحوم کی اولادِ صالحہ بنائے گا جن کے نیک اعمال ان کے صالح بابا کے درجات کی مزید بلندی کا ذریعہ بنتے رہیں گے۔
میں محترم امیر جماعت اور سب ذمہ دارانِ جماعت سے اظہارِ تعزیت کرتا ہوں، جن کا انتہائی قابل ساتھی اور قیمتی اثاثہ نائب امیر جماعت اللہ کو پیارا ہوگیا۔ عظم اللہ اجرکم، آمین۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو اُن کا صحیح بدل عطا فرمائے، جو مرحوم کے قائم کردہ نقشے کے مطابق شعبہ خارجہ امور کوچلائے،آمین۔