معنی اور تناظر

زیر نظر کتاب ممتاز اہلِ قلم ڈاکٹر وزیر آغا (1922ء۔ 2010ء) کے 46 تنقیدی مقالات کا مجموعہ ہے۔ مجلس ترقی ادب کے تحت یہ اس کا دوسرا ایڈیشن ہے، پہلا ایڈیشن 2016ء میں شائع ہوا۔
ڈاکٹر تحسین فراقی تحریر فرماتے ہیں:۔
’’یوں تو وہ نظم کے شاعر کی حیثیت سے بھی خاصے قابلِ توجہ ٹھیرتے ہیں، لیکن میرے نزدیک اُن کی نمایاں ترین حیثیت ایک بہت قابلِ قدر نقاد کی تھی۔ انہیں عالمی سطح پر تنقید کے عہد بہ عہد اور نوبہ نو اوضاع کا گہرا شعور حاصل تھا۔ مطالعہ اور تفکر اُن کے عمر بھر کے مشاغل رہے، اور اس کا حاصل اُن کی متعدد اور متنوع تنقیدی کتب ہیں جن میں جگہ جگہ اُن کی تحلیلی و تجزیاتی مہارت کے گوہرِ شب چراغ فروزاں نظر آتے ہیں۔ وہ امتزاجی تنقید کے پُرجوش موید تھے اور خود ان کی تنقید اس کی ممتاز ترین مظہر ہے۔ نظری تنقید میں تو ان کا رنگِ تفکر جھلکتا ہی ہے، وہ عملی تنقید میں بھی اپنی اس فلسفیانہ افتادِ طبع سے کہیں دست بردار نہیں ہوتے۔ وہ متن میں گہرا اترنے کا اہتمام کرتے اور معانی کی ان سطحوں تک پہنچتے ہیں جہاں کسی سہل انگار نقاد کی تنقید کے پَر جلتے ہیں۔ ’’معنی اور تناظر‘‘ بھی ان کی ایک ایسی ہی قابلِ داد تنقیدی کاوش ہے جس میں نظری و عملی تنقید کے فکر انگیز مباحث ملتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر وزیر آغا رقم طراز ہیں:۔
’’زیر نظر کتاب ان تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے جو میں نے پچھلے پانچ چھے برسوں کے دوران میں لکھے، اور جن میں کسی خاص نظریے کا تابع ہونے کے بجائے امتزاجی زاویے کو اپنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ امتزاجی تنقید نقد و نظر کا کوئی مقرر یا متعین وظیفہ نہیں، یہ محض ایک زاویۂ نگاہ ہے جس کے تحت نقادِ ادب اپنے نظریات کے علاوہ تخلیق کو بھی کھلے دل و دماغ کے ساتھ دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے۔ وہ تخلیق کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کسی خاص نظریے کی سچائی کو ثابت کرنے کا آرزومند نہیں ہوتا، بلکہ صرف یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تخلیق کے جلی خطوط کی تہوں میں موجود مخفی خطوط کا کیا عالم ہے، اور وہ کس طرح ظاہر اور مخفی خطوط کے ربطِ باہم سے ایک ہمہ وقت تبدیل ہوتی ہوئی تخلیق کا منظرنامہ پیش کررہی ہے‘‘۔
کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا نظری تنقید، دوسرا عملی تنقید۔ نظری تنقید (الف) میں مقالات ہیں جن کے عنوانات ہیں: معنی و تناظر،ا کیسویں صدی، ادراکِ حسن کا مسئلہ، ثقافت، ادب اور جمہوریت، علامت کیا ہے؟، تنقید کی قلب ِماہیت۔
۔(ب) تنقیدی تھیوری
اجتماعی شعور کی ساخت، حقیقت اور فکشن، ساختیات اور سائنس، سوسیور کا نظامِ فکر، رولاں بات کا فکری نظام، ساخت شکنی، ساختیاتی فکر میں پراسراریت کے عناصر، لکھت لکھتی ہے، لکھاری نہیں، ساخت، ساخت شکنی اور ساختیاتی تنقید، اسٹرکچر اور اسٹرکچر، تخلیقی عمل اور اس کی ساخت، لکھاری لکھت اور قاری، جدیدیت اور مابعد جدیدیت۔
۔(ج) مضامین
جدید اردو تنقید، غزل اور جدید اردو غزل، آزاد نظم، انشائیہ اور انشائیہ نگاری
دوسرا حصہ عملی تنقید پر مشتمل ہے۔
۔(الف) شاعری
غالب کا ایک شعر، غالب کا ایک اور شعر، اقبال کا تصورِ عشق، پرچھائیاں، ریزہ ریزہ، ورق ورق، ہائیکو نگاری اور زرد پتوں کی شال، ایک رات کا ذکر، گفتار، وجود ایک واہمہ ہے، رزقِ ہوا، کشید، گوری تیرے روپ، ہوا کے پر
۔(ب) فکشن
عصمت چغتائی کے نسوانی کردار، منٹو کے افسانوں میں عورت، علامتی افسانے کا مسئلہ، مہاجر
۔(ج) تنقید
معاصر تنقید، شاعری کا دربار، محمل یا منزل، میٹا تنقید کی ایک مثال۔
۔(د) متفرق
’’میم‘‘ اور ’’جین‘‘ خطبۂ صدارت
(حلقہ اربابِ ذوق راولپنڈی)
ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ مقبول کتاب ہے۔
سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔