ایک نیازمند کثرت سے ذکرِ الٰہی کرتا رہتا تھا، حتیٰ کہ ایک دن اس پُرخلوص ذکر سے اس کے لب شیریں ہوگئے…شیطان نے اسے وسوسے میں مبتلا کردیا کہ بے فائدہ ذکر کی کثرت کررہا ہے، تُو اللہ اللہ کرتا رہتا ہے جبکہ اللہ کی طرف سے لبیک کی آواز ایک بار بھی نہیں آئی اور نہ ہی اللہ کی طرف سے کوئی جواب ملتا ہے، پھر یک طرفہ محبت کی پینگ بڑھانے سے کیا فائدہ! یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیرا ذکرِ الٰہی اللہ کے ہاں مقبول نہیں۔ شیطان کی ان پُرفریب باتوں سے صوفی نے ذکر کرنا چھوڑ دیا۔ شکستہ دل اور افسردہ ہو کر سو گیا۔ آنکھ سوگئی اور قسمت جاگ گئی۔
عالمِ خواب میں دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے دریافت کیا کہ ذکر ِ الٰہی سے غفلت کیوں کی؟ اے نیک بخت! تُو نے ذکرِ حق کیوں چھوڑ دیا؟ آخر تُو ذکر ِ پاک سے پشیمان کیوں ہوگیا ہے…؟ اس نے کہا کہ بارگاہِ الٰہی سے مجھے کوئی جواب ہی نہیں ملتا۔ اس سے دل میں خیال آیا کہ میرا ذکر قبول ہی نہیں ہورہا ہے…
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: تیرے لیے اللہ عز و جل نے پیغام بھیجا ہے کہ تیرا اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہونا اور تیرا پہلی دفعہ اللہ کہنا قبول ہوتا ہے تب دوسری بار تجھے اللہ کہنے کی توفیق ملتی ہے، اور تیرے دل میں جو سوز و گداز ہے اور میری چاہت، محبت اور تڑپ ہے یہی تیرے ذکر کی مقبولیت کی نشانی ہے۔ اے بندے! میری محبت میں تیری یہ تدبیریں اور محنتیں سب ہماری طرف سے جذب و کشش کا ہی عکس ہیں۔
اے بندے! تیرا خوف اور میری ذات سے تیرا عشق میرا ہی انعام ہے، اور میری ہی مہربانی و محبت کی کشش ہے کہ تیری ہر بار یااللہ کی پکار میں میرا لبیک شامل ہوتا ہے۔
تیرے ذکر کی قبولیت یہی ہے کہ تجھے ذکر ِ حق میں مشغول کردیا ہے۔
جان جاھل زیں دعا جز دور نیست
زانکہ یارب گفتش دستور نیست
’’ایک جاہل اور غافل ذکر ِ حق اور دعا مانگنے کی توفیق سے محروم رہتا ہے‘‘۔
اللہ عزوجل کے ذکر کا اجر اس کے ذکر میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ اللہ اپنے ذکر کی اور یاد کی توفیق اسی کو عطا کرتے ہیں جس سے خوش ہوتے ہیں، اور یہی اس کی قبولیت کی دلیل ہے۔
درسِ حیات
٭نیکی کرنے کی توفیق بھی اللہ ہی دیتا ہے۔
٭شیطان ہر دم اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے باز آ جائے۔