تحریک ِپاکستان کی کامیابی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس میں متوسط طبقے کے دونوں مذکورہ کیمپوں کی نمائندگی موجود تھی۔ ایک طرف دیوبندی، بریلوی، شیعہ، اہلِ حدیث کے دینی مکاتبِ فکر کے حامل علما کے ایک گروہ نے بھی تحریکِ پاکستان کو اپنا لیا تھا، اور مسلم عوام کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان اسلامی نظام کی تجربہ گاہ اور لاالٰہ کی تفسیر ہوگا۔ لیکن سب سے زیادہ جو چیز تحریک ِپاکستان کو آگے بڑھانے کا سبب بن گئی، وہ اقبال کا منظوم پیغام تھا جو مسلمانوں کے متوسط طبقے میں بے حد مقبول ہوا۔ ہندوستانی نیشنلزم اور کانگریس کے خلاف مولانا مودودیؒ کی تحریروں اور اسلامی نظام کے بارے میں مولانا کی فکر نے بھی مسلم لیگ کو تقویت پہنچائی، تاہم مولانا مودودیؒ کا کوئی تعلق مسلم لیگ یا مطالبہ پاکستان سے نہیں تھا، اور ان کا اندازِ فکر بالکل جدا تھا۔ اس سے لیگ اور کانگریس دونوں ہی تکلیف محسوس کرتے تھے، تاہم مسلمانوں کی علیحدہ اسلامی قومیت کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے نظریات مسلم لیگ کی تقویت کا سبب بنے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریک خالص اسلام کی طرف لوٹنے کی تحریک تھی۔ اس میں وقتی سیاسیات کے ذریعے اصلاح و ترقی کے بجائے بنیادی فکری تبدیلی کے لیے کوشش کی گئی تھی۔ اس تبدیلی کو بروئے کار لانے کے لیے ایک جماعت کو بھی منظم کیا گیا تھا جو زیادہ تر ادنیٰ متوسط طبقے کے افراد پر مشتمل تھی، لیکن یہ افراد علمی و فکری ذوق رکھتے تھے، اور اس جماعت کا اصل کردار قیام پاکستان کے بعد اُس وقت شروع ہوا جب مسلم لیگ کی خرابیاں اور ناکامیاں منظرعام پر آئیں۔
مسلم لیگ کی ان ناکامیوں اور خرابیوں کی اصل وجہ یہ تھی کہ جو متوسط طبقہ مسلم لیگ کی قیادت کررہا تھا وہ نااہل ثابت ہوا۔ ایک تو ملک کی تقسیم سے اس متوسط طبقے کو دھچکا لگا، کیونکہ پہلے مرحلے پر صرف تقسیم کے نقصانات ہی اس کے حصے میں آئے تھے۔ مسلم کُش فسادات اور ترکِ وطن کے مصائب اس طبقے نے ہی زیادہ برداشت کیے، اور متوسط طبقے کا بڑا حصہ ہندوستان ہی میں رہ گیا اور اپنے پاکستانی بھائیوں سے کٹ گیا۔ پاکستان میں جو پرانا متوسط طبقہ تھا اور جو نیا متوسط طبقہ آیا، وہ ایک کمزور طبقہ تھا اور اس پر جاگیردار، زمیندار، سردار اور خوانین حاوی ہوتے چلے گئے۔
متوسط طبقے کا وہ حصہ جو سروسز میں اعلیٰ مقام پر تھا، اُس نے بھی ایسی راہ اختیار کی جس سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ یہ وہ طبقہ تھا جسے انگریز نے اپنے مقاصد کے لیے پیدا کیا تھا۔ یہ نیا متوسط طبقہ مسلم معاشرے میں صنعتی انقلاب اور اس کے اثرات سے پیدا نہیں ہوا تھا۔ اس کی پیدائش غیر فطری انداز میں انگریز کے سامراجی نظام کو چلانے کے لیے کل پرزے مہیا کرنے کی غرض سے عمل میں آئی تھی۔ اس میں لارڈ میکالے کی روح دوڑ رہی تھی۔ یہ اینگلو محمڈن، افسر شاہی یا کالے صاحب بہادر لوگ، یورپی متوسط طبقے کی طرح نہ فطری انداز سے پیدا ہوئے تھے، نہ اُن کی خوبیاں رکھتے تھے۔ یہ انگریز کے غلام ساز کارخانے کی پیداوار تھے اور ان کا پرچہ ترکیب ِ استعمال انگریز کو معلوم تھا اور وہ ان سے کام لیتا رہا۔ لیکن انگریز نے یہ اہتمام کررکھا تھا کہ اس سول و فوجی بیوروکریسی کو بے دماغ رکھا جائے۔ دماغ کے خانے میں انگریز کا حاکمانہ وجود تھا اور ان کے ذمے خود سوچنا یا فیصلہ کرنا نہیں تھا۔ سوچنے اور فیصلے کرنے کے لیے انگریز تھا۔ اور ان کے ذمے صرف یہ تھا کہ وہ دوسروں کی سوچ اور دوسروں کے فیصلوں کے مطابق عمل کریں۔
قیام پاکستان کے بعد اس سول و فوجی بیوروکریسی نے سوچنے اور فیصلے کرنے کا منصب بھی سنبھالا اور یہ اس غلط فہمی کا شکار ہوگئی کہ سوچنے اور فیصلے کرنے کا کام عوام کے منتخب نمائندوں کے بجائے ہم صحیح طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ ان کی پیدائش، پرورش و پرداخت اس غرض کے لیے تھی ہی نہیں۔ ان کا مقصد ِ تخلیق ہی یہ تھا کہ وہ محکوم طبقہ بن کر رہیں، حاکم طبقے کے طور پر انہیں بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ اور سوچنے، فیصلے کرنے کے لیے جو صلاحیتیں ضروری ہوتی ہیں وہ ان میں پیدا ہی نہیں ہونے دی گئی تھیں۔ لیکن مسلم لیگ کے پاس چونکہ سیاسی قیادت کا فقدان تھا جو کہ حکمران طاقت بنتی، اس لیے یہ خانہ خالی دیکھ کر اس کی جگہ سول و فوجی بیوروکریسی آگئی۔ مگر اس کے پاس نہ ذہنی و فکری قوت تھی اور نہ اس کی عوامی جڑ بنیاد تھی۔ اس لیے مسلمان متوسط طبقے کا یہ بابو طبقہ نظام حکومت چلا نہیں سکا۔ اور فوج یا مارشل لا کا سہارا لینے کے باوجود اس بابو طبقے کو جاگیرداروں اور سرداروں کے آگے جھکنا اور ان سے گٹھ جوڑ قائم کرنا پڑا۔
پاکستان کے برعکس ہندوستان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ مسلم لیگ کے برعکس کانگریس میں متوسط طبقے کی سیاسی قیادت بہت مضبوط تھی۔ جس علاقے میں پاکستان بنا وہ جاگیرداروں، نوابوں، سرداروں اور خوانین کا علاقہ تھا۔ صرف پنجاب میں متوسط طبقہ طاقتور تھا اور اس نے یونینسٹ جاگیرداروں سے پنجہ آزمائی کررکھی تھی۔ پنجاب میں مجلس احرار اور خاکسار قیامِ پاکستان کی مخالفت کے سبب عوام اور اپنے ساتھی طبقے سے کٹ گئے، اور جو متوسط طبقہ پنجاب مسلم لیگ میں رہ گیا وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے زمانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ اسے پیچھے دھکیل کر دولتانہ، ممدوٹ، دستی، گورمانی اور دوسرے زمینداروں، جاگیرداروں کی باہمی رقابت اور سازشوں نے لیگ پر قبضہ جمایا اور اس کا نام سیاست ہوگیا۔ اس سیاست نے تین طرح کے عناصر کو آگے بڑھایا:
-1 جاگیرداری دور کے خاندان۔
-2 بابو طبقے پر مشتمل سول و فوجی بیورو کریسی۔
-3 متوسط طبقے کے موقع پرست اور مفاد پرست افراد، جو سیاسی رہنما اور کارکن بن کر سامنے آئے۔
ان تینوں کے گٹھ جوڑ سے حکومت اور نظامِ حکومت تشکیل پایا، لیکن یہ ملک میں کسی کو بھی مطمئن نہیں کرسکا۔
( ”سیاسی، سماجی تجزیے“)
بیادِ مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی
علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جِلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔