خصوصی اشاعت: مفتی جمیل احمد نعیمی نمبر
یادگارِ گزشتگاں ہیں ہم
دیکھ لو، سن لو، پھر کہاں ہیں ہم
خوش ذوق، خوش پوش، خوش اخلاق، خوش اطوار، اپنی ذات میں انجمن مفتی جمیل احمد نعیمی سلف صالحین کی یادگار ہیں۔ مولانا محمد عمر نعیمیؒ کے قابلِ فخر شاگرد ہیں اور اسی نسبت سے ’نعیمی‘ کہلاتے ہیں۔آپ کی خوش بختی کہ آپ کی حیات میں ہی آپ کی سوانح پر تاریخی کام ہورہا ہے۔سہ ماہی انوار رضا کی یہ خصوصی اشاعت اسی سلسلے کی کڑی ہے جو ملک محبوب الرسول قادری کی ادارت میں شائع ہوئی ہے، ملک محبوب الرسول قادری علمی، ادبی، صحافتی حلقوں میں معروف ہیں اور فروغِ دین کے لئے مصروف ِعمل ہیں۔ مفتی جمیل احمد نعیمی نمبر میں مولانا کی زندگی کے مختلف گوشوں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
مولانا جمیل احمد نعیمی شخصیت کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمٰن رقم طراز ہیں: ’’آپ …پاکستان بھر میں اہلِ سنت و جماعت کے چنیدہ و برگزیدہ اکابر علما میں سے ہیں۔ آپ نے جمعیت علماء پاکستان کے صدر مولانا عبدالحامد بدایونیؒ سے لے کر تمام اکابر علماء کے ساتھ ایک متحرک اور فعال علمی و فکری زندگی بسر کی۔ آپ کی حیاتِ مبارکہ جہدِ مسلسل اور سعیِ پیہم سے عبارت ہے۔ طریقت کے اعتبار سے آپ قطب مدینہ علامہ ضیا الدین مدنیؒ سے نسبتِ ارادت رکھتے ہیں اور سسر محترم حافظ مسعود احمد چشتی صابری کرامتیؒ کے خلیفہ مجاز ہیں۔ آپ صرف روایتی عالم نہیں بلکہ ایک فکری اور تحریکی شخصیت ہیں۔‘‘
رکے تو پھول، چلے تو ہوائوں جیسا ہے
یہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھائوں جیسا ہے
آپ کا شمار مولانا شاہ احمد نورانی صدیقیؒ کے رفقا میں ہوتا ہے۔ آپ نے 1953ء میں تحریک ختمِ نبوت اور 1974ء میں تحریک نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھرپور کردار ادا کیا۔ 1973ء میں کلمۂ حق کہنے پر آپ کو گرفتار کیا گیا اور سینٹرل جیل کراچی میں اکتالیس دن قید رکھا گیا۔ آپ کے ہمراہ مفتی محمد حسن حقانیؒ اور حافظ محمد تقی بھی تھے۔1965ء میں آپ کی کوشش سے پہلی بار کراچی سطح پر جشنِ عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ 1968ء میں طلبہ کی تنظیم ’’انجمن طلبہ اسلام‘‘ کی بنیاد رکھی جو جمعیت علماء پاکستان کے استحکام کا باعث بنی۔ آپ سے ہزاروں طلبہ نے استفادہ کیا، جن میں صاحبزادہ سید محمد عرفان مشہدی، پروفیسر ڈاکٹر نور احمد شاہتاز، ڈاکٹر محمد عبداللہ قادری، محمد امین نورانی، حافظ محمد ابراہیم فیضی و دیگر نمایاں ہیں۔ دارالعلوم نعیمیہ کے بانیوں میں جہاں مولانا مفتی شجاعت علی قادریؒ کا نام آتا ہے وہاں آپ کا نام بھی آتا رہے گا۔ تدریس کی طرح آپ کو تصنیف و تالیف سے گہرا شغف ہے۔ دو درجن سے زائد آپ کی تصانیف قبولِ عام ہیں جن میں ’’پیغمبر اعظمؐ افضل التوسل بہ سید الرسلؐ‘‘، ’’سیرت پیغمبر انقلابؐ‘‘، ’’سرورِ عالمؐ بحیثیت مثالی شوہر‘‘، رمضان کے فضائل و مسائل‘‘، ’’عظیم دن، عظیم راتیں‘‘، ’’فلسفہ فضائل و جہاد‘‘ اور ’’روشن دریچے‘‘ معروف ہیں۔ اب بھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری ہے۔
مولانا جمیل احمد نعیمی ولد قادر بخش 1936ء میں انبالہ چھائونی مشرقی پنجاب (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباو اجداد کا پیشہ تجارت رہا، آپ نے مڈل تک اردو کی تعلیم حاصل کی۔ فارسی کی ابتدائی کتب مولانا ارشاد احمد سے، بعض اسباق مولانا قاضی زین العابدین سے، اور بہار شریعت کے بعض حصے مولانا شاہ مسعود احمد دہلوی سے سبقاً سبقاً پڑھے۔ باقی تمام کتبِ فنون اور علمِ حدیث مولانا محمد عمر نعیمیؒ سے پڑھ کر 1960ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔
اکتوبر 1973ء میں جب رمضان المبارک کا مہینہ تھا، آپ نے جمعہ کے خطبے میں اُس وقت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جب تم وزیر خارجہ تھے بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ کراچی آیا۔ اتفاق سے رمضان کا مہینہ تھا، اُس کے سامنے شراب پیش کی گئی تو اس نے پینے سے انکار کردیا کہ میں مسلمانوں کے مقدس مہینے کا احترام کرتا ہوں۔ یہ ایک ہندو کا کردار ہے، اور مسلمان کے کردار میں فرق ہونا چاہیے۔
اس بات پر آپ کے خلاف حکومت کی مخالفت میں نعرہ لگوانے کا الزام لگاکر آپ کو گرفتار کیا گیا اور اظہارِ حق کی خاطر اکتالیس دن جیل میں رہے۔ آپ کی حق گوئی اور بے باکی کا یہ عالم تھا کہ 22مارچ 1971ء کو قصر صدارت ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) میں جب اُس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان سے آپ کی ملاقات ہوئی تو آپ نے ببانگ دہل نشے میں مدہوش صدر سے فرمایا: ’’ملک سیاسی بحران میں مبتلا ہے اور آپ ہیں کہ مے نوشی کررہے ہیں اور رنگ رلیاں منارہے ہیں!‘‘
سہ ماہی ’’انوارِ رضا‘‘ کا یہ خصوصی شمارہ 11 گوشوں پر مشتمل ہے۔ آخری گوشے میں تصویری خاکے اور سرگرمیاں شامل ہیں۔ دسواں گوشہ ’’گوشۂ وفیات‘‘ میں آنکھیں بند کر جانے والے اکابرین کا تذکرہ ہے۔ نواں گوشہ ’’نامہ و پیام‘‘ میں قارئین کی آرا، تجاویز، تنقید اور تبصرے شامل ہیں۔ آٹھواں گوشہ ’’حسنِ تحریر و تقریر‘‘ ہے جس میں آپ کی نوکِ قلم سے لکھے مضامین، تقریریں، اقتباسات اور منتخب انٹرویوز شامل ہیں۔
ساتویں گوشے میں ’’اجتماعی زندگی میں مفتی جمیل احمد نعیمی کا کردار‘‘ پر تحریریں شامل ہیں۔ چھٹے گوشے میں ’’مفتی جمیل احمد نعیمی اور جامعہ نعیمیہ کراچی‘‘، پانچویں گوشے میں ’’آوازِ اہلِ علم و دانش‘‘، چوتھے گوشے میں ’’تنظیمی و تحریکی افکار کے اثرات‘‘، تیسرے گوشے میں ’’اہلِ طریقت کا خراج‘‘ ، دوسرے گوشے میں ’’اعترافِ عظمت‘‘ جبکہ پہلے گوشے میں ’’پیغامات زعماء قوم‘‘ شامل ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہترین یادداشت سے نوازا ہے، 50 سال پرانی بات بھی آپ کو دن اور تاریخ کے ساتھ یاد ہوتی ہے۔ 85 سال کی عمر میں ایسی یادداشت کا ہونا غالباً صوفیہ کے طریقے ’’کم کھانا، کم بولنا، کم سونا‘‘ پر عمل کرنے کا سبب ہے۔
میں حرف حرف سے لپٹا ہوا ہوں کاغذ پر
مجھے کتاب سے باہر نکال کر دیکھو
قابلِ مبارک ہیں مدیر محترم جنہوں نے مولانا کی زندگی میں خصوصی نمبر کا اہتمام کیا۔