اس وقت ہم ایک منشتر قوم ہیں۔ اختلاف انتہائی سطح پر نظر آتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں ہی میں نہیں بلکہ قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ بھی وہ یکجہتی نہیں ہے جو ملک کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ جنگیں صرف فوجیں نہیں لڑتیں، پوری قوم لڑتی ہے۔ 1965ء کی جنگ میں ہم مشرق و مغرب میں ایک تھے، مذہب جان تھا۔ ہم نے جیسا بھی دشمن کا دفاع کیا، وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔ یہ تو کوئی پچیس سال بعد ہمارے ایک آرمی چیف نے ہمیں بتایا کہ ہم یہ جنگ جیتے نہیں تھے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ بلاشبہ سوچنے سمجھنے والے جرنیل ہیں۔ انہوں نے ٹھیک کہا ہوگا،مگر اس سے ہمارے جذبہ افتخار کو بہت ٹھیس پہنچی۔ یہ نہیں کہ ہمیں حقائق پر پردہ پڑا رہنے دینا چاہیے۔ نہیں،ہرگز نہیں۔ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اصل حقائق کیا ہیں۔ اس وقت اصل بحران کیا ہے؟ قوم نہیں جانتی کہ ان کا نظم حکومت کیسے چلایا جارہا ہے۔ بلکہ زیادہ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ بھی خبر نہیں کہ کون چلا رہا ہے۔ بات دور نکل گئی۔ یہی ژولیدہ فکری اس وقت ہمارا قومی المیہ ہے۔ ہم یک سو نہیں ہیں اور ایک زبان نہیں ہیں۔ یہ کوئی معمولی المیہ نہیں ہے۔ اختلافِ رائے بری بات نہیں، مگر بات اختلاف سے آگے بڑھ کر مخالفت تک جا پہنچی ہے۔ امریکی بھی تو اس وقت یہی رونا رو رہے ہیں۔ ایک سپرپاور بھی ایسے بحرانوں کو برداشت نہیں کر پارہی۔ کوئی قوم بھی اس صورت حال کو برداشت نہیں کرسکتی۔ ہم بات کررہے تھے کہ ہائوس ان آرڈر کرو۔ اس سے ہمارا وہ مطلب نہیں جو افغانستان کے معاملے میں تھا۔ وہاں تو ہمیں احساس ہوا کہ جنرل مشرف نے افغانستان میں جو حکمت عملی اپنائی وہ درست نہ تھی۔ روس کے خلاف افغانوں کی جدوجہد میں افغان ہم سے محبت کرنے لگے تھے، اب جب ہم نے امریکہ سے مل کر اُن ہی کے خلاف چڑھائی کردی تو ہمارے درمیان کھلی جنگ چھڑ گئی جو ہماری سرحدوں کے اندر بھی پھیل گئی۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے یہ اطوار غلط تھے۔ ہم علی الاعلان توبہ تائب ہوئے، تاہم اس وقت بھارت ہمارے خلاف دہشت گردی کی جو کارروائیاں کررہا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اپنے معاملات ٹھیک کریں۔ ایک دوسرے کو غدار، چور، ڈاکو قرار دینے سے بات نہیں بنے گی۔ ہم ملک کے اندر ایک دوسرے کو زیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جوبائیڈن نے کہا ہے کہ ہم نے الگ الگ پارٹیوں سے الیکشن لڑا ہے، ہم ایک دوسرے کے مخالف تھے، دشمن نہیں ہیں، ہم سب امریکی ہیں۔ کیا ہمارے ہاں بھی یہ معاملہ نہیں؟ ہمارے ہاں پارٹیاں ہی متصادم نہیں، ادارے بھی اس تصادم میں گھسیٹ لیے گئے ہیں۔ یہاں یہ بحث نہیں کہ قصوروار کون ہے؟ تصادم کی ایسی صورت حال میں کوئی ایک فریق قصوروار نہیں ہوتا، پوری قوم اور اس قوم کا ہر ہر شعبہ قصوروار ہے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری اُن کی ہے جو زیادہ طاقتور ہیں۔ سچ پوچھیے تو مجھے کسی کا بیانیہ سمجھ نہیں آرہا۔ کسی کا بھی نہیں۔ اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ دل تو چاہتا ہے کہ ہر ایک نکتہ نظر کا الگ الگ تجزیہ کروں مگر خوف فسادِ خلق کے ڈر سے اجتناب کرتا ہوں۔ سب سے بے ضرر بات یہ ہوگی کہ میں اپوزیشن کے بیانیے یا نکتہ نظر پر بات کرلوں۔ وہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ستّر سال سے اقتدار پر قبضہ جما رکھا ہے اور اپنی مرضی کے حکمران قوم پر مسلط کرتے ہیں۔ میاں نوازشریف تو اس معاملے میں اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ وہ ہمارے جرنیلوں کے نام لینے لگ گئے ہیں۔ چلیے ایک منٹ کو مان لیں کہ وہ درست کہتے ہیں، تو وہ یہ اعلان کرکے سیاسی طور پر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا نکتہ نظر ہے کہ ہماری موجودہ صورت حال میں اس کا جواب نہیں ملتا۔ اسی طرح دوسرے نکات ہائے نظر کو دیکھ لیجیے۔ ہمارے حکمران اپوزیشن سے کسی ڈائیلاگ کے قائل نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ کرپٹ ہیں، ہم انہیں چھوڑیں گے نہیں۔ مگر یہ کہنے سے قوم کا مسئلہ تو حل نہیں ہوگا، غریب عوام کا پیٹ تو نہیں بھرے گا، نظام حکومت تو نہیں چلے گا اور نہیں چل رہا۔ تیسرا بیانیہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہے، ایک بات عرض کردی حب الوطنی بہت بڑی نعمت ہے مگر کبھی کبھی یہ مسائل بھی پیدا کردیتی ہے۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کی مثال ان ہاتھیوں جیسی ہے جو اپنے ہی لشکر کو رگید دیتے ہیں۔ اس وقت اگر بھارت کے سچ مچ وہ عزائم ہیں،جو ہم نے بیان کیے ہیں اور جن کے ہم نے ثبوت دیے ہیں تو ضروی ہے جنگ کی تیاری کی جائے۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ جنگ کی جائے، بلکہ میں نے یہ کہا ہے جنگ کی تیاری کی جائے۔ جنگ روکنے کا سب سے بڑا طریقہ یہ ہے کہ دشمن کو باور کرایا جائے کہ ہم جنگ کے لیے تیار ہیں۔
(سجاد میر-روزنامہ 92- 17 نومبر 2020ۓء)
ایک شہر جو مسلسل زوال پذیر ہے
اُس زمانے کے اسلام آباد میں پیسہ دھیلا کچھ خاص نہ تھا، مگر ہم غریب نہ تھے۔ کپڑوں کے چند جوڑے، ایک جوڑا جوتوں کا، اور ایک ! امارت ہم لائبریریوں کی ممبر شپ سے ماپتے تھے۔ بینک بیلنس کی جگہ اطمینان کا باعث کتابوں کی تعداد ہوتی تھی۔ دوست ہمارا سرمایہ تھے۔ جہاں کوئی علمی تقریب ہوتی، کوئی اسکالر، کوئی دانشور آیا ہوتا، ہم پہنچ جاتے۔ سینئرز کو سنتے، ان کا احترام کرتے، رہنمائی کے طالب ہوتے۔ علم کی دھاک بٹھانے کا رواج نہ تھا۔ کم مائیگی ظاہر کرنے میں شرم محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ احساسِ برتری تھا نہ احساسِ کمتری۔ ہمیں سیکھنے میں عار تھا نہ ہمارے سینئرز کو سکھانے میں۔ محب عارفی تب سیٹلائٹ ٹائون میں رہائش پذیر تھے۔ ان کے گھر ہر ویک اینڈ پرشام کو شعرا اور اہلِ دانش اکٹھے ہوتے۔ یہ سلسلہ ان کے ہاں اُس وقت سے چل رہا تھا جب وہ شملہ میں تھے اور متحدہ ہندوستان کے سیکریٹریٹ میں کلرک تھے۔ پھر کراچی آئے، تب بھی یہ نشستیں جاری رہیں۔ دارالحکومت منتقل ہوا تو وہ بھی اسلام آباد آگئے، اب وہ ڈپٹی سیکرٹری تھے۔ بعدمیں جوائنٹ سیکرٹری ہوگئے تھے اور کوَرڈ مارکیٹ کے پاس (جو اب معدوم ہوچکی ہے) رہنے لگے تھے۔ مالی قوانین کے بے مثال ماہر تھے۔ وزارتِ خزانہ ہی میں رہے۔ تب سرکاری ملازموں میں ان کے حوالے سے یہ محاورہ عام گردش کرتا تھاکہ ”جسے دے اللہ، اُس سے لے محب اللہ“۔ ہم طالب علموں کو بھی وہ اپنے گھر خوش آمدید کہتے تھے۔
سیاست میں تب بھی تلخیاں تھیں۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی، مگر وہ شائستگی کا زمانہ تھا۔ حریف کو گیدڑ یا چوہا کہنے کا رواج نہ تھا۔ نہ ہی گلی کے لڑکوں کی طرح سیاست دان منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکی دیتے تھے کہ چھوڑوں گا نہیں۔ اگر کبھی کوئی ایسا فقرہ کہہ بھی دیتا تو بس ایک دو بار۔ یہ حال نہ تھا کہ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، رات دن، صبح شام ”نہیں چھوڑوں گا، نہیں چھوڑوں گا“ کی گردان ہو۔ یہاں تک کہ یہ الفاظ تکیہ کلام ہوجائیں، وقعت کھو بیٹھیں، چِڑ بن جائیں اور سارا معاملہ غیر سنجیدہ ہوجائے۔ ہاں، ناشائستگی کی ابتدا ایوب خان کر بیٹھے تھے جب 1965ء کے انتخابات میں انہوں نے اور ان کے حامیوں نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہا۔ ڈھاکہ میں مادرِ ملت نے تقریر کی تو ڈھائی لاکھ افراد جلسے میں موجود تھے۔ چٹاگانگ تک ہر اسٹیشن پر لوگوں کا ہجوم منتظر ہوتا۔ اپوزیشن ناشائستگی میں اُس وقت کی حکومت کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ شاید حکومتوں کا پلہ اس معاملے میں ہمیشہ بھاری رہا کرتا ہے۔سرما اتر رہا ہے، قطرہ قطرہ، لمحہ لمحہ، مگر اسلام آباد وہ نہیں۔ گرین ایریا کا زیادہ حصہ ہڑپ کیا جا چکا۔ اب پھول ہیں نہ درخت۔ لہو کی رنگت کے لال پتے بس کہیں کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ لائبریریاں عنقا ہوگئیں۔ سنا ہے ایک سرکاری لائبریری ہے۔ شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ کہاں ہے۔ کسی ایسی بزم، تقریب، مجلس، فنکشن کا جہاں کوئی دانشور، کوئی اہل علم خطاب کرے، کوئی امکان نہیں! اب دانش اور علم کی ضرورت کسی کو نہیں۔ یہ مال اب نہیں بکتا اس لیے کہ ڈیمانڈ ہی نہیں۔ اب علم کا ماخذ کتابیں نہیں، فیس بک اور واٹس ایپ ہے۔ اب دعوے کے ثبوت میں دلیل نہیں، دشنام مہیا کی جاتی ہے۔ علمی ترقی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ مضحکہ خیز، مبتذَل، اشعار غالب، اقبال اور فیض کے نام سے درج کیے جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے واہ واہ کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان کے پرخچے اُڑ چکے۔ جہاں گھاس کے قطعے تھے وہاں مکان بن گئے۔ جہاں درخت تھے، وہاں دکانیں کھلی ہیں۔ تجاوزات نے شہر کو بدصورت کر رکھا ہے۔ گلی کوچے تنگ ہوگئے ہیں۔جہاں جہاں پارکنگ تھی وہاں کھوکھے کھڑے ہیں۔ رہائشی علاقے بازاروں میں بدل گئے۔ کھیل کے میدان ختم ہوگئے۔ سیوریج کے بدبودار نالوں پر لوگوں نے اپنے اپنے مسلک کی مسجدیں، متعلقہ اداروں سے پوچھے بغیر کھڑی کرلیں۔ ولایتی ناموں والے سیکٹر گنجان آباد قصباتی محلے لگتے ہیں۔ ٹھیلے والے کہیں بھی قبضہ کرسکتے ہیں۔ میوہ فروش جہاں دل کرے اسٹال لگا لیتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ اسے پکی دکان میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ متعلقہ ادارہ تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتا ہے۔ ایک مدت بعد جب گرانے آتا ہے تو میوہ فروش حکم امتناعی دکھا دیتا ہے۔
۔(محمد اظہار الحق۔ روزنامہ دنیا،17نومبر 2020ء)۔