انسان کا ’نارمل‘ درجہ حرارت تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے، تحقیق

جنوبی امریکہ کے ملک بولیویا میں 16 سال پر محیط ایک تحقیقی مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ صحت مند انسان کا جسمانی درجہ حرارت صرف کم نہیں ہورہا بلکہ مسلسل کم ہوتا جارہا ہے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مذکورہ مطالعہ بولیویا کے علاقے ’’سیمانی‘‘ (Tsimane) میں رہنے والے قبائلیوں پر کیا گیا ہے۔ ان میں سے بیشتر غریب چرواہے یا کسان ہیں، اور جنہیں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی مشکل ہی سے میسر ہیں۔ اس مطالعے میں گزشتہ 16 سال کے دوران سیمانی قبائل کے 5,500 بالغ افراد کے جسمانی درجہ حرارت کا ریکارڈ کھنگالا گیا جو ایک طویل مدتی مقامی منصوبے ’’سیمانی ہیلتھ اینڈ لائف ہسٹری پروجیکٹ‘‘ کے تحت باقاعدگی سے نوٹ کیا جارہا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے 2017ء اور 2019ء میں بالترتیب برطانیہ اور امریکہ میں کی گئی تحقیق سے یہی بات سامنے آچکی ہے، لیکن تب یہ خیال کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک ترقی یافتہ ہیں جہاں عام لوگوں کو صحت کی بہتر سہولیات حاصل ہیں، جبکہ نسبتاً صاف ستھرے ماحول کی وجہ سے بھی انہیں بیماریوں کا سامنا بہت کم کرنا پڑتا ہے۔
تاہم سیمانی قبائل پر ہونے والی تحقیق نے معاملہ الجھا دیا ہے۔ ماہرین کو معلوم ہوا کہ سیمانی قبائل میں صحت مند بالغ افراد کا جسمانی درجہ حرارت پچھلے 16 سال سے مسلسل گرتا جارہا ہے جو آج 7.97 ڈگری فارن ہائٹ تک گرچکا ہے۔آج ایک صحت مند بالغ انسان کا اوسط جسمانی درجہ حرارت 6.98 ڈگری فارن ہائٹ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیمانی قبائل کے جسمانی درجہ حرارت میں پچھلے 16 سال کے دوران 0.056 ڈگری فارن ہائٹ سالانہ کے حساب سے کمی ہورہی ہے۔البتہ اس مطالعے کے سربراہ اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سانتا باربرا میں بشریات کے پروفیسر ڈاکٹر مائیکل گروِن کا کہنا ہے کہ یہاں درجہ حرارت میں کمی کا سلسلہ تقریباً دس سال پہلے شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اس لحاظ سے جسمانی درجہ حرارت میں کمی کا اوسط 0.09 ڈگری فارن ہائٹ سالانہ بنتا ہے۔
ایسا کیوں ہورہا ہے؟ فی الحال اس سوال کا کوئی جواب ماہرین کے پاس موجود نہیں۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ یہی تحقیق مزید آگے بڑھائی جائے اور مختلف ملکوں میں اوسط جسمانی درجہ حرارت کا تفصیلی جائزہ مرتب کیا جائے۔

زوم اور اسکائپ بھی آپ کی جاسوسی کرسکتے ہیں

زو م، اسکائپ و دیگر جگہ اب ہیکر حضرات بازوؤں کی حرکات و سکنات سے ٹائپ کیے جانے والے الفاظ کو جان سکتے ہیں، اور اس کی تصدیق یونیورسٹی آف ٹیکساس اور یونیورسٹی آف اوکلاہوما نے کی ہے، بلکہ انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ کرکے ہر ایک کو حیران کردیا ہے۔ جامعات کے ماہرین کہتے ہیں کہ وہ کسی شخص کو ویڈیو کے دوران ٹائپ کرتا دیکھ کر بہت آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کیا لکھ رہا ہے خواہ ٹائپنگ کرنے والا زوم پر ہو، اسکائپ پر یا گوگل کے کسی اور پلیٹ فارم پر ہو، 93 فیصد درستی سے لکھے جانے والے الفاظ معلوم کرنا اب کوئی مشکل عمل نہیں رہا۔ اس ڈیٹا میں عام ای میل، بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اور پاس ورڈ معلوم کیے جاسکتے ہیں۔ ویڈیو میں عموماً ہاتھ دکھائی نہیں دیتے، لیکن یہ ماہرین کاندھوں کی حرکات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ شخص کیا کچھ لکھ رہا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس میں کمپیوٹر سائنس کے ماہر مرتضیٰ جدلی والا نے یہ طریقہ دریافت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کورونا وبا کے دوران ویڈیو سیشن عام ہوئے اور اس تناظر میں محض کندھوں کی حرکات و سکنات سے معلومات حاصل کرنا ایک بہت تشویشناک بات بھی ہے۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس میں مصنوعی ذہانت اور الگورتھم کے بجائے ویڈیو میں پکسل کی حرکت دیکھی گئی ہے۔ جیسے ہی ہم کندھے ہلاتے ہیں پکسل کی حرکات ہمیں بتاتی ہیں کہ ہاتھوں کی حرکت جنوب کی جانب ہے یا شمال کی جانب، پھر وہ مشرق کو جارہے ہیں یا پھر مغرب کو۔ مثلاً اگر آپ CAT لکھ رہے ہیں تو C کے بعد، A ٹائپ کریں تو مغرب میں آئیں گے، اورT لکھتے ہوئے پھر مشرق کا رخ کریں گے۔ اس کا تعلق کاندھوں کی حرکت سے کرنے کے بعد ایک سافٹ ویئر بنایا گیا جو ہر لفظ کا سمتی پروفائل بناتا ہے۔ اس طرح کندھوں کی حرکات سے ٹائپ کردہ الفاظ کو بہت درستی سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم تجربہ گاہ میں 75 فیصد اورگھر پر کام کرنے والے افراد میں 66 فیصد درستی سے ٹائپ کردہ معلومات کو حاصل کیا گیا۔

پاکستان میں چار برسوں کے دوران سائبر کرائمز میں بھی 12 گنا اضافہ

پاکستان میں انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ہی سائبر کرائمز میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہیجن میں گزشتہ چار برسوں کے دوران 12 گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ویب سائٹ ’اردو نیوز‘ کے مطابق ملک میں سائبر کرائم کے حوالے سے قانون سازی کے بعد ہر سال جرائم کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ان جرائم میں جنسی ہراسیت، مالیاتی فراڈ، ڈیٹا چوری، سوشل میڈیا پر شناخت کی چوری وغیرہ، بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز بنانے اور پھیلانے کے مقدمات شامل ہیں۔ دستاویزات کے مطابق 2016ء میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے نفاذ کے بعد ملک بھر سے ایف آئی اے کو 9 ہزار شکایات موصول ہوئیں جن کی بنیاد پر 47 مقدمات درج کیے گئے۔
تاہم 2019ء میں درج ہونے والے مقدمات کی تعداد 12 گنا اضافے کے ساتھ 577 ہوگئی، جبکہ رواں سال ایف آئی اے کو موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 56 ہزار سے بھی بڑھ گئی ہے۔ اسی طرح 2018ء میں درج مقدمات کی تعداد 465 تھی جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں دوگنا تھی، جبکہ موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 9 ہزار سے زائد تھی۔ سال 2017ء میں پیکا کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی تعداد 207 تھی۔ 2019ء میں سائبر کرائمز میں ملوث 620 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جبکہ اس سے گزشتہ برس 443 افراد پیکا کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں گرفتار کیے گئے۔