وزیراعظم نے محسوس کرلیا ہے کہ وہ مشکل میں ہیں
ملکی سیاست گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہی ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کے نتائج حالیہ سیاسی کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ پوری اپوزیشن جماعتوں نے تحفظات کے باوجود پارلیمنٹ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیراعظم اگر کام کرکے اپنی اہلیت ثابت کرتے تو بھی سیاسی درجہ حرارت نہ بڑھتا، مگر حکومت نے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اسے رگڑا دینا ہی اپنا مینڈیٹ سمجھ لیا۔ دوسری جانب یہ ہوا کہ مسلم لیگ(ن)، جے یو آئی اور پیپلزپارٹی کو تسلی دینے والے بھی متحرک رہے، حتیٰ کہ تلافی کرنے کے وعدے بھی کیے گئے، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ردعمل میں اپوزیشن جماعتوں نے پی ڈی ایم سیاسی اتحاد تشکیل دیا، اس کے پہلے ہی جلسے نے حکومت کی ساری ہوا نکال دی، اور نوازشریف کی تقریر اور بیانیہ حکومت کے لیے آگ کا بگولا ثابت ہوا۔ اس کے بعد پھر رابطے ہوئے، اور گلے شکوے بھی ہوئے۔ جے یو آئی کو شکوہ ہے کہ اسے کہا گیا کہ مارچ تک خاموش رہیں تبدیلی آجائے گی، مسلم لیگ(ن) کو گلہ ہے کہ اسے کہا گیا کہ زیادتی کا ازالہ ہوگا، پیپلزپارٹی کو گلہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سمیت ہر جگہ تعاون کیا، مگر اسے اس کا صلہ نہیں ملا۔ اسی لیے یہ تینوں بڑی جماعتیں چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملاکر ایک اتحاد بنانے پر مجبور ہوئی ہیں۔ ابھی بھی یہی کچھ ہورہا ہے، پیپلزپارٹی سے کہا گیا کہ اسے گلگت میں موقع دیا جائے گا، جے یو آئی بھی رابطے میں ہے، مسلم لیگ(ن) سے رابطے اور بات چیت ایک بڑے پیکیج کی وجہ سے فی الحال آگے نہیں بڑھ رہی، تاہم مس کال دے کر اسے بھی رابطے میں رکھا ہوا ہے۔ ملکی سیاسی منظرنامے کی اس سے زیادہ وضاحت مناسب نہیں۔ اب چند ماہ بعد سینیٹ کے انتخابات ہیں، 52 ارکان ریٹائر ہوجائیں گے اور اُن کی جگہ52 نئے سینیٹر منتخب کیے جائیں گے، اور ساری صف بندی بھی اسی لیے ہورہی ہے۔ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ سندھ میں اس کے لیے زمین تنگ نہ کی جائے، جے یو آئی بلوچستان میں 11 اور کے پی کے میں 14 ارکان کے ساتھ متحدہ مجلس عمل کی صورت میں صوبائی اسمبلی میں دوسری بڑی پارلیمانی جماعت ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی سندھ میں اور جے یو آئی کے پی کے اور بلوچستان میں سینیٹ انتخابات میں اپنا حصہ مانگ رہی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) پنجاب اسمبلی میں اکثریتی پارٹی ہے، تاہم تحریک انصاف مسلم لیگ(ق) اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت میں ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے لیے سینیٹ انتخابات بہت بڑا چیلنج ہیں، مسلم لیگ(ن) چاہتی ہے کہ توڑ پھوڑ کے جھکڑ سے محفوظ رہے، اگر ایسا ہوا تو معجزہ ہی ہوگا۔ یوں سمجھ لیا جائے کہ سینیٹ انتخابات ہی اصل معرکہ ہے۔ اگلے سال مارچ تک ملک میں سیاسی ہلہ گلہ رہے گا، گلگت انتخابات کے انتخابی نتائج تسلیم نہ کیے گئے تو ایک نیا سیاسی بحران کھڑا ہوسکتا ہے، اس سے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے تحفظات مزید بڑھ جائیں گے۔
ملک کے سیاسی حالات کا مختصر سا جائزہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت جب اقتدار میں آئی تو اُس وقت دو بڑے واضح منظرنامے تھے۔ عالمی سطح پر امریکہ اس خطے میں سی پیک کے باعث نظریں گاڑ چکا تھا، افغانستان سے انخلا چاہتا تھا، مشرق وسطیٰ کے لیے وہ بڑی واضح لائن لیے ہوئے تھا، اندرون ملک حکومت کے لیے میدان صاف تھا، اس کے سامنے کوئی سیاسی چیلنج نہیں تھا، اپوزیشن اپاہج تھی، میڈیا بے بس تھا اور ملک میں ہر طرف عوام ساون کے اندھے کی طرح ہرا ہرا دیکھ رہے تھے، انہیں یقین تھا کہ اب چٹکی بجاتے ہی مسائل حل ہوا کریں گے۔ مگر اب منظر بدل چکا ہے، وزیراعظم نے محسوس کرلیا ہے کہ وہ مشکل میں ہیں، اسی لیے اتحادیوں اور اپنی پارٹی کی کور کمیٹی سے مشاورت طلب کی ہے اور یقین دلایا ہے کہ اگلے ڈھائی سال کارکردگی دکھانے کے ہیں۔ یہ بات کرکے انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ گزرے ہوئے ڈھائی برسوں میں حکومت کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ وزیراعظم عمران خان نے حکومت کے اتحادیوں کو ظہرانے پر بلایا تھا جہاں اتحادیوں نے شکایات کے انبار لگادیے، حکومتی بے اعتنائیوں کا ذکر کیا اور کھل کر بتادیا کہ سب اچھا نہیں ہے۔ حکومت کی ایک اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) ہے، ماضی کی طرح اِس بار بھی مسلم لیگ (ق) وزیراعظم کے ظہرانے میں شریک نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ(ق) کو ایک انتظامی افسر کے ذریعے اطلاع بھیجی گئی جو سردمہری کی علامت سمجھی گئی اور یہ مسلم لیگ(ق) کے لیے قابل ِ قبول نہیں تھی۔ ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 10سے 30فیصد اضافہ ہوگیا ہے، پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے افسران کی غیر فعالیت اور دفاتر تک محدود ہونے کے باعث منافع خور اور ذخیرہ اندوز تاجر من مانی قیمتیں وصول کررہے ہیں۔ ڈھائی سال کے بعد اب وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ اگلے ڈھائی سال کارکردگی دکھانے کے ہیں۔ تحریک انصاف جب ایوان وزیراعظم سے ہوتی ہوئی امورِ سرکار میں مصروف ہوئی تو اسے اندازہ ہوا کہ پانی کس قدر گہرا ہے، اور اس کے پاس تو سوائے دعووں کے کسی قسم کا ہوم ورک تھا نہیں، لہٰذا فیصلہ یہی کرلیا گیا کہ بس ماضی کو کوستے رہو۔ پہلے چھ ماہ تو اسی میں گزر گئے، یہی وہ وقت تھا جب حکومت کو مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی تھی، لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے نہ جانے کی بحث میں قیمتی وقت ضائع کردیا، یہی وہ لمحہ تھا جب وہ چین اور عرب ملکوں کی دہلیز پر پہنچی، سب سے پہلے دوست ملک سعودی عرب نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا اور بلین ڈالر کی امداد دی تھی، اسی وقت سرپرستوں نے پہلی مداخلت کی اور حکومت کی معاشی ٹیم تبدیل کی، اسد عمر کی جگہ حفیظ شیخ کو لایا گیا، جس کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوا۔ لیکن اب حالات بہت بدل گئے ہیں، سعودی عرب قرضے کی قسط کی واپسی چاہتا ہے، دو ملین ڈالر کی قسط ہر صورت ادا کی جانی ہے۔ سعودی عرب کے معاشی مددگار پیکیج کے تحت6.2بلین ڈالر کی رقم پاکستان کو مدد کی صورت میں دی گئی تھی تاکہ عمران خان حکومت کام کرسکے۔ سعودی عرب نے پاکستان کو 6.2 بلین ڈالر قرضِ حسنہ دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی، 3 بلین ڈالر نقدی کی صورت میں دیے گئے تھے اور 3.2بلین ڈالر کے تیل و گیس کے معاہدے تھے جن کی ادائیگی قسطوں کی صورت میں تھی۔ یہ ایک طرح سے کاروباری امداد تھی۔ حکومت یہ قرض واپس کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے، کیونکہ 6بلین ڈالر کی رقم جو آئی ایم ایف نے روک رکھی ہے اس کے ملنے کا امکان بھی ابھی واضح نہیں ہے۔ اگر آئی ایم ایف کا پیکیج نہ ملا تو حکومت مشکل میں آجائے گی۔ ایف اے ٹی ایف کا دبائو اور مطالبات ایک الگ کہانی ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی جگہ اب جوبائیڈن آچکے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس کے باعث اپوزیشن دبائو بڑھا رہی ہے اور دعویٰ کررہی ہے کہ حکومت جنوری تک برخاست ہوجائے گی۔ مسلم لیگ(ن) کے احسن اقبال نے یہاں تک کہہ دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد اب جونیئر ٹرمپ جائے گا۔ امریکہ میں ری پبلکن آئیں یا ڈیموکریٹ، ہمیں کبھی ایسی خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ بیرون ممالک کے لیے امریکی پالیسی برسراقتدار پارٹی کے منشور کے ہرگز تابع نہیں ہوتی، اس میں سراسر امریکی مفادات کو پیش نظر رکھا اور فوقیت دی جاتی ہے۔ امریکہ کے تعلقات امریکی مفادات کے تابع رہیں گے۔ امریکی آئین میں وضع کردہ امریکی پالیسی یہ ہے کہ اپنے مفادات اور سلامتی کے تحفظ کی خاطر امریکہ کو کسی بھی ملک پر حملہ آور ہونے کا حق حاصل ہے۔ اگر ہم امریکی مفادات کی تابعداری اور پاسداری کررہے ہوں تو امریکی حکومت چاہے ہماری سول یا غیر جمہوری حکومت کو ناپسند کرتی ہو تو بھی امریکہ ہمارے لیے ریشہ خطمی رہے گا، اور جیسے ہی ہم میں خودداری والی سوچ پیدا ہوگی تو ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس، ہمیں رگیدنا اور انتہا درجے کی دشمنی پر اتر آنا امریکی پالیسیوں کا حصہ ہوگا۔ لہٰذا اس تجزیے کی روشنی میں تحریک انصاف جوبائیڈن کے ساتھ چلنا چاہے گی، اور اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی جوبائیڈن کے تعلقات ہیں، صدرِ پاکستان کی حیثیت سے آصف علی زرداری نے انہیں ہلالِ پاکستان عطاکیا ہوا ہے۔ اپوزیشن کی یہ دونوں جماعتیں امریکہ میں لابیسٹ فرموں کی مدد سے اپنے لیے سازگار ماحول بنانے کی کوشش میں ہیں۔
اپوزیشن لابیسٹ کے ذریعے اپنے لیے ماحول تو بہتر بنا رہی ہے، مگر ملک کی معیشت کون بہتر کرے گا؟ اس وقت ہمارا بجٹ خسارہ 484 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ رواں مالی سال اب تک کُل اخراجات 1879 ارب روپے کے ہوئے اور پہلی سہ ماہی میں دفاعی بجٹ 224 ارب روپے رہا، جب کہ رواں مالی سال اب تک 742 ارب روپے سود کی ادائیگیوں پر خرچ ہوئے۔ توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2 ہزار 300 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں یہ بات کہی گئی کہ توانائی ڈویژن کی نالائقی کے باعث گردشی قرضے میں ایک ہزار 139 ارب روپے اضافہ ہوا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی یہ تفصیلات موجود ہیں۔ ان دو سال میں حکومت نے 5 دفعہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے مگرگردشی قرضہ کم نہیں ہوا، حکومت اس کی وجہ بھی نہیں بتا رہی۔ گزشتہ تین ماہ میں 116 ارب روپے گردشی قرضہ بڑھا ہے۔ مالی سال 2019ء کی پہلی ششماہی میں گردشی قرضے میں 288 ارب کا اضافہ ہوا۔ مالی سال 2019ء کی دوسری ششماہی میں گردشی قرضے میں 198 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ مالی سال 2020ء کی پہلی ششماہی میں 243 ارب روپے اور 2020ء کی دوسری ششماہی میں 294 ارب روپے گردشی قرضہ بڑھا ہے۔ 283 ارب روپے بلوچستان حکومت کے ذمے واجب الادا ہیں۔ بلوچستان میں زرعی صارفین کے لیے وفاق 40 فیصد اور بلوچستان 60 فیصد سبسڈی دیتا ہے، کے الیکٹرک کو نیشنل گرڈ سے 650 میگاواٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے، جبکہ کے الیکٹرک سے ریکوری نہ ہونے سے گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہائوسنگ کے شعبے میں ہورہی ہے، مگر آٹھ ماہ سے اعظم عمران خان نے وزیر ہائوسنگ طارق بشیر چیمہ سے ملاقات نہیں کی، وہ وزارت کے سیکرٹری کو بلا کر اس کے ساتھ میٹنگ کرتے ہیں۔ وزیراعظم کے بارے میں یہ بات اب اپنا اثر چھوڑ رہی ہے کہ وہ کسی کی عزت نہیں کرتے، اپنی مرضی کرتے ہیں۔ یہی اس حکومت میں خرابی کی بنیاد ہے۔