اسم کسی بھی مسمیٰ کی صفات کا اظہار ہوتا ہے۔ اچھے نام کے اثرات بھی اچھے ہوتے ہیں۔ اسی لیے اسلام ہمیں اپنے بچوں کے اچھے اچھے نام رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو علم الاسماء کی بدولت ہی فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی۔ قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے حوالے سے مذکور ہے کہ اللہ نے فرشتوں سے کچھ چیزوں کے نام پوچھے تو انہوں نے معذرت کا اظہار کیا، جبکہ حضرت آدم علیہ السلام نے ان اشیاء کے نام بتا دیئے۔ علامہ اقبال اس واقعے کا ذکر یوں کرتے ہیں:۔
یہ ہیں سب ایک ہی سالِک کی جُستجو کے مقام
وہ جس کی شان میں آیا ہے عَلَّم الاسما
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم قیامت میں اپنے ناموں اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، لہٰذا اپنے نام اچھے رکھا کرو۔‘‘ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا نام ’حرب‘ یعنی جنگجو رکھا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے تو آپ نے ان کا نام تبدیل کرکے ’حسن‘ رکھ دیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نام بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ’حرب‘ رکھنا چاہا، لیکن ان کا نام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تبدیل کردیا۔
اکثر والدین اپنے بچوں کو مختلف ناموں سے پکارتے ہیں، یہ نام بچے کے ساتھ ان کے پیار کا اظہار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی شان اور ربوبیت کے اظہار کے لیے اپنے آپ کو کئی اسماء سے بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اسماء کے لیے اسماء الحسنیٰ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَ ِﷲِ الْاَسْمَآ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا۔”اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں، سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو۔“
اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء الحسنیٰ کے ساتھ ساتھ اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی قرآن مجید میں مختلف اسماء سے پکارا ہے۔ یہ اسماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کے مختلف انداز اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مختلف صفات کا اظہار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو محمد کہا اور کبھی احمد کہا، کبھی رؤف کہا، کبھی رحیم کہا، کبھی شاہد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ اور سراج منیر کہا، کبھی رحمۃ للعالمین کہہ کر پکارا، کبھی نور کہا، الامی، المزمل، المدثر اور کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کہہ کر مخاطب کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود بھی اپنے متعدد اسماء کا ذکر کیا ہے۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
’’میرے پانچ نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی (مٹانے والا) ہوں، اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا، میں حاشر ہوں، قیامت کے دن سب سے پہلے مجھے اٹھایا جائے گا اور باقی سب لوگ میرے بعد اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘‘۔
دوسرے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود کو قاسم کہا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ میں خاتم النبیینؐ ہوں۔‘‘
علامہ اقبال ایک سچے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شدید محبت کرنے والے تھے۔ انہوں نے محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیم و تربیت اپنے والدین سے حاصل کی۔ علامہ اقبال ’’رموز بے خودی‘‘ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ کوئی سائل بھیک مانگتا ہوا ان کے گھر کے دروازے پر آ کھڑا ہوا اور باوجودیکہ اسے کئی بار جانے کے لیے کہا گیا، وہ اڑیل فقیر ٹلنے کا نام نہ لیتا تھا۔ اقبال ابھی عنفوانِ شباب میں تھے۔ اس کے بار بار صدا لگانے پر انہیں طیش آگیا اور اسے دو تین تھپڑ دے مارے، جس کی وجہ سے جو کچھ اس کی جھولی میں تھا، زمین پر گر کر منتشر ہو گیا۔ والد ان کی اس حرکت پر بے حد آزردہ ہوئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ فرمایا: ”قیامت کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گرد غازیانِ اسلام، حکماء، شہداء، زہاد، صوفیہ، علماء اور عاصیانِ شرمسار جمع ہوں گے تو اس مجمع میں اس مظلوم گدا کی فریاد آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ مبارک کو اپنی طرف مرتکز کرلے گی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجھ سے پوچھیں گے کہ تیرے سپرد ایک مسلم نوجوان کیا گیا تھا تاکہ تُو اس کی تربیت ہمارے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کرے، لیکن یہ آسان کام بھی تجھ سے نہ ہوسکا کہ اس خاک کے تودے کو انسان بنادیتا، تو تب میں اپنے آقا و مولا کو کیا جواب دوں گا؟ بیٹا! اس مجمع کا خیال کر اور میری سفید داڑھی دیکھ، اور دیکھ میں خوف اور امید سے کس طرح کانپ رہا ہوں، باپ پر اتنا ظلم نہ کر اور خدارا میرے مولاؐ کے سامنے مجھے یوں ذلیل نہ کر۔ تُو تو چمنِ محمدیؐ کی ایک کلی ہے، اس لیے اسی چمن کی نسیم سے پھول بن کر کھل، اور اسی چمن کی بہار سے رنگ و بو پکڑ، تاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق کی خوشبو تجھ سے آسکے۔‘‘
علامہ اقبال نے محبت و عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اظہار اپنے اشعار میں بہت سے مقامات پر کیا ہے۔ اپنی اردو شاعری میں انہوں نے خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو متعدد اسماء سے یاد کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے، جیسا کہ انہوں نے درج ذیل نامِ مبارکہ لکھے ہیں:۔
محمد، احمد، مصطفیٰ، دانائے سبل، ختم الرّسل، مولائے کل، قرآں، فرقاں، یٰسیں، طٰہٰ، رسول، رسول عربی، نبی مرسل، شہِ یثرِب، مولائے یثرِب، رحمۃ للعالمین، رسولِ عربی، رسولِ ہاشمی، خدا کا رسول، رسول امیں، رسول مختار، نبی عفت، حضورِ رسالت مآب،حضور سروَرِ عالم، صاحبِ ’مازاغ‘، صاحبِ یثرِب، مدفونِ یثرِب، میرِ عرب، بدر و حنین کے سردار، رفعت شان رفعنا لک ذکرک (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اور بہت سے اسمائے مبارک پر مشتمل اشعار زبان زدِ عام ہیں۔
ان اسماء اور القابِ مبارک کے استعمال سے جہاں علامہ اقبال کی شاعری کے حسن میں اضافہ ہوا ہے وہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے علامہ اقبال کی عقیدت و محبت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسم مبارک ـ’’محمد‘‘ کو علامہ اقبال نے جن اشعار میں استعمال کیا ان میں سے چند اشعار بطور مثال پیش کیے جا رہے ہیں:۔
اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدؐ
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کِدھر جائے!
قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اْجالا کر دے
دیں مسلکِ زندگی کی تقویم
دیں سِرِّ محمدؐ و براہیمؑ
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمدِؐ عَربی سے ہے عالمِ عَربی
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمھیں پاس نہیں
علامہ اقبال کا یہ شعر تو آج ہر کسی نے سن رکھا ہے:۔
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک اسم مبارک ’’احمد‘‘ ہے۔ علامہ اقبال نے اس اسم کے ساتھ ملت کا لفظ جوڑ کا استعمال کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیںـ:۔
عشق کا دل بھی وہی، حْسن کا جادو بھی وہی
امّتِ احمدِ مرسل بھی وہی، تُو بھی وہی
کسی یکجائی سے اب عہدِ غلامی کر لو
ملّتِ احمدِؐ مرسَل کو مقامی کر لو!
دین کے اتمام کے لیے اسمِ مبارک ’’مصطفیٰ‘‘ کو علامہ اقبال نے استعمال کیا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں: ۔
اگر قبول کرے، دینِ مصطفیٰؐ، انگریز
سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیٰؐ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
عشق کے بیان میں بھی علامہ اقبال اسم ’’مصطفیٰ‘‘ کو ہی استعمال کرتے ہیں:۔
سبق مِلا ہے یہ معراجِ مصطفیٰؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفیٰؐ، عقل تمام بولہب
عشق دمِ جبرئیلؑ، عشق دلِ مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رسولؐ، عشق خدا کا کلام
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خاتم النببین ہونے پر علامہ اقبال نے درج ذیل اشعار میں شہادت دی ہے:۔
وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
ملّتِ ختمِ رسل شعلہ بہ پیراہن ہے
ان اسماء النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے علامہ اقبال نے کچھ اور اسماء النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی اپنے اشعار میں جا بجا استعمال کیے ہیں۔ چند امثال مزیدپیش خدمت ہیں:۔
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ
ہے ترکِ وطن سنّتِ محبوبِ الٰہیؐ
دے تُو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
تجھ میں راحت اس شہنشاہِ معظّمؐ کو ملی
جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو ملی
ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حور
کہ شاہینِ شہِ لولاکؐ ہے تُو!
اے بادِ صبا! کملی والےؐ سے جا کہیو پیغام مرا
قبضے سے اُمّت بیچاری کے دِیں بھی گیا، دنیا بھی گئی
کرم اے شہِ عرب و عجمؐ کہ کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ تُو نے عطا کِیا ہے جنھیں دماغِ سکندری
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی انفاق فی سبیل اللہ کی روایت مشہور ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر آپ رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا سامان راہِ خدا میں نثار کرنے کے لیے لے آئے۔ علامہ اقبال نے اس واقعے کو اشعار کی زبان میں بیان کیا ہے۔ ایک محبِ رسول اور رفیقِ نبوت رضی اللہ عنہ کی زبان سے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے جو القاب نکلے انہیں علامہ اقبال یوں بیان کرتے ہیں:۔
اک دن رسولِ پاکؐ نے اصحاب سے کہا
دیں مال راہِ حق میں جو ہوں تم میں مالدار
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ امت مسلمہ نے جب تک اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اپنا رشتہ الفت و محبت استوار رکھا یہ اوجِ ثریا ان کا مقدر رہا۔ جیسے ہی دامنِ مصطفیٰ ہاتھ سے گیا امتِ مسلمہ زوال کا شکار ہوگئی۔ ذاتِ رسالت مآب کی ناموس پر ہونے والے حملوں کا جواب فقط اسی صورت میں ممکن ہے کہ امتِ مسلمہ اپنے نبیؐ سے اپنا تعلقِ عشق و محبت بحال کرے۔ ایک حدیث ِمبارکہ کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایاـ: ’’کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُس کے لیے اُس کے والدین، اُس کی اولاد اور خود اُس کی اپنی جان سے زیادہ اُس کا محبوب نہ بن جاؤں‘‘۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری، تقریروں اور تحریروں میں اسی عشقِ رسولؐ کو دلوں میں بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ اقبال کے پیغام کو عام کیا جائے اور آئندہ آنے والی نسلوں میں عشقِ رسولؐ کی شمع روشن کریں۔ صرف یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے امت ِمرحومہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کرسکتی ہے۔ علامہ اقبال کی خواہش یہ تھی کہ وہ اپنا نورِ بصیرت آئندہ آنے والی نسلوں میں منتقل کر دیں۔
خدایا ! آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
اقبالؒ نے دکھ بھرے دل کے ساتھ فرمایا ہے:۔
چنیں دَور آسماں کم دیدہ باشد
کہ جبرئیل امیں را دل خراشد
چہ خوش دَیرے بنا کردند آنجا
پرستد مومن و کافر تراشد
(پس چہ باید کرد)
آج کے اس پُرفتن دور میں جس سے ہم گزر رہے ہیں، چشم فلک نے بہت کم ایسے ادوار دیکھے ہوں گے۔ اس ایمان سوز اور اخلاق باختہ دور کو دیکھ کر جبرئیل امین کا دل بھی زخمی ہوا جارہا ہے۔ آج کے اس دور میں وقت کے آذر نے ایسا پُرکشش بت خانہ تعمیر کیا ہے، جس کی نرالی اور حیران کن امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ کافر بت تراش رہا ہے اور مومن اس کی پرستش اور پوجا کررہا ہے۔ جتنا ہم ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس پر غور کریں گے، خاص طور پر ہمارے علمائے دین، مفتیانِ کرام، واعظین و خطبائے عظام، محراب و منبر کی زینت بنے حضرات تسلیم کریں گے کہ وطنیت، رنگ، نسل، مادیت، اباحیت، قوم پرستی، رنگ اور زبان پرستی اور سب سے بڑھ کر تفریقِ دین و سیاست اور میکاولی فلسفہ سیاست۔۔۔ سب کفر و شرک کے علَم برداروں کے تراشیدہ بت ہیں، اور آج کا مسلمان ان کی پرستش میں محو و مگن ہوکر فخر محسوس کرتا ہے۔ اپنے آپ کو روشن خیال اور ترقی پسند کہتا اور کہلواتا ہے۔
(ملت اسلامیہ کے قافلے کے حدی خواںمجاہدِ ملّت سید علی گیلانی کے قلم سے)