سنکیانگ کے اذیت خانوں میں محصور اویغور مسلمان اور عالمِ اسلام کی مجرمانہ خاموشی
اقوام اور افراد کے حوالے سے اگر درجہ بندی کی جائے تو پوری اسلامی تاریخ میں اسلام اور مسلمانوں کی جو خدمت ترکستانیوں نے سرانجام دی ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔علم و فضل، جہاد و اجتہاد، شجاعت اور عالمِ اسلامی کی فکری رہنمائی اور انسانی تاریخ کا رخ بدلنے میں ان برف پوش پہاڑوں کی گھاٹیوں میں رہنے والوں کا کوئی ثانی نہیں۔ ترکستان کے ذکر سے ہی افتخار اور سربلندی کا خوشگوار احساس دل و دماغ کو معطر کردیتا ہے۔کوہ قاف، ہندوکش اور پامیر کے فلک بوس پہاڑوں کے درمیانی علاقوں کو اپنی کچھار بناکر صدیوں تک روحِ آدمیت کو سربلند رکھنے والے شیروں کے مسکن کا نام ترکستان ہے۔
حالات و حوادث نے ترکستان کی سرحدوں کو کبھی وسعتِ بے پایاں دی، کبھی محدود کیا۔ دیوارِ چین سدِّ راہ بنی تو منگولیا کی سرحد نے پیش قدمی سے باز رکھا، کبھی دریائے وولگا کی برفیلی سطح نے سستانے پر مجبور کیا۔ کوہ قاف کے درے اور پُرپیچ گھاٹیاں راستے کے پتھر بنے۔ پامیر اور ہندوکش کی فلک بوس پہاڑی چوٹیوں نے جھک کر مزید آگے بڑھنے سے باز رکھا، لیکن ایک لمحے کے لیے بھی ترکمانوں کے گھوڑوں کی پیٹھ سے زین نہیں اتری، اور نہ ہی ان شجیع و وارفتگانِ اسلام کے جسموں سے زرہ۔
خلافتِ عثمانؓ کے دور میں جلیل القدر صحابی حذیفہؓ بن یمان کی قیادت میں مسلمانوں کے لشکر نے ترکستان میں اسلام کی بنیاد رکھی۔ اس شمع کی لو کبھی مدھم نہیں ہوئی۔ ترکستانیوں کے علم و فضل کا مشاہدہ مشتے از خروارے کے طور پر چند ناموں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ صحاح ستہ میں سے سب سے زیادہ اور مقبولِ عام صحیح بخاری اور ترمذی شریف کے مرتبین دونوں ترکستانی ہیں۔ فارابی، البیرونی، ابن سینا، ابواللیث سمرقندی، ابو منصور ماتریدی، محمود کاشغری، یوسف حاجب، ریاضی دان عمر خیام، علمِ کلام کے باوا آدم زمخشری، عالم اسلام کی مستند ترین فقہ کی کتاب ہدایہ کے مصنف علی بن ابی بکر مرغینانی، شمس الائمہ سرخسی، تصوف کے اوّلین بزرگ خواجہ عبیداللہ احرار، سلسلہ نقشبندیہ کے بانی بہاء الدین نقشبندی، علامہ تفتازانی، مولانا جامی، حضرت رومی خاقانی اور نظامی گنجوی، اور اس پائے کے ہزاروں باکمال اور علم و فن کے امام سرزمینِ ترکستان سے وابستہ رہے اور مدتوں اپنی ضوفشانیوں سے دنیا کو منور کرتے رہے۔
میدانِ کارزار میں کوہ قاف کے پہاڑی دروں اور میدانوں میں ستّر سال کی روسی شاہوں اور زاروں کی نیندیں حرام کردینے والے امام شامل کا نام ہی کافی ہے۔ خود ساٹھ سال جہادی کارروائیوں کی امامت کی۔ قفقاز کے ترکمانوں نے اس شمع حریت کو کبھی مدھم ہونے نہیں دیا۔ ماضیِ قریب میں روسی استعمار کے خلاف ان ہی پہاڑوں اور میدانوں میں دودایوف نے جس جرأت مندی اور سرفروشی سے جدوجہدِ آزادی کو بارآور بنایا، وہ آزادی کی قدروقیمت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ روسی استعمار کو نکیل ڈالنے کے لیے جہادِ افغانستانمیں ترکستان کے مجاہدوں نے تمام پرانے بدلے چکائے۔افغان جہاد میں عبداللہ عزام کے بعد سب سے زیادہ حصہ ترکستانی مجاہدین کا ہے، جو کمانڈر طاہر یلدوشوف کی قیاد ت میں ایک مدت تک دادِ شجاعت دیتے رہے۔آج روسی استعمار کریملن تک سکڑ گیا ہے اور تمام ترکستانی مقبوضہ علاقے خودمختار ہیں۔لیکن چین نے ترکستان کے مشرقی حصے پر 1949ء میں قبضہ کرکے اسے اپنا ایک صوبہ بنادیا، اس پر اویغور مسلمانوں نے شدید مزاحمت کی تو خودمختار علاقے کی حیثیت دی گئی، لیکن روزِ اوّل سے چینی استبداد مشرقی ترکستان کے اویغور مسلمانوں کے درپے ہے۔
تین کروڑ کی آبادی اور اٹھارہ لاکھ اسکوائر کلومیٹر پر محیط وسیع وعریض مشرقی ترکستان سفاکی اور ظلم و ستم کا شکار ہے۔ ان کی عربی رسم الخط والی زبان جو اپنے دامن میں ہزارہا کتابوں کا ذخیرہ رکھتی ہے، منصوبہ بندی کے ساتھ اسے ختم کردیا گیا ہے۔ اپنے شاندار ماضی سے بے بہرہ اور محروم رکھنے کے لیے اویغور زبان کا لکھنا اور بولنا خاص طور پر سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں، مکمل ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
مشرقی ترکستان کی دو لاکھ مربع کلومیٹر زمین حیلے بہانوں سے چائنا بولنے والے دو قریبی صوبوں کو دے دی گئی ہے۔
ملازمتوں کے دروازے بند کردیے گئے ہیں، کوئی اویغور نوجوان تعلیم کے لیے چائنا سے باہر نہیں جا سکتا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد تک میں کسی اویغور کو داخلے کی اجازت نہیں۔ پورے سنکیانگ میں مقامی لوگوں کے لیے پاسپورٹ کا حصول ناممکن ہے۔ مساجد اور قرآنی مکتب مکمل بند ہیں۔ چند سال پہلے تک نماز کے اوقات میں پندرہ منٹ کے لیے مسجدیں کھولی جاتی تھیں، اب وہ سلسلہ بھی بند کردیا گیا ہے۔
پاکستان سے تجارت کی غرض سے سنکیانگ جانے والے مسلمانوں نے اپنے حُسنِ سلوک سے ترکستانوں کو متاثر کیا اور ہزاروں کی تعداد میں اویغور خواتین سے شادی کرکے خاندان کا حصہ بنایا۔ آج ہمالیہ سے سربلند ہمارے دوست نے ان تمام منکوحہ خواتین کو سنکیانگ میں روک کر پاکستانی شوہروں کو جبراً چائنا سے نکال دیا ہے۔ ظلم و جبر کے باوجود ترکستانیوں کا جذبہ آزادی اور غیرت و حمیت کبھی ماند نہیں پڑی۔ لیکن گزشتہ چار سال سے چائنا حکومت نے مشرقی ترکستان کی پندرہ لاکھ مسلم آبادی کو جبری کیمپوں اور اذیت خانوں میں رکھا ہوا ہے۔ کنواری مسلم لڑکیوں کو ذہنی تربیت کے نام پر جبراً ہان لڑکوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ پوری دنیا چیخ رہی ہے لیکن چائنا کسی آزاد ذریعے اور خودمختار ادارے کو صورتِ حال سے آگاہی کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ زبان کو ختم کرنے کے بعد ان کے دین و ایمان پر حملہ کیا گیا، اور اب نسل کُشی کا کام ہورہا ہے۔ سولزے نٹزن نے مشرقی یورپ میں روسی ریچھ کی حشر سامانیوں سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے مشہورِ عالم کتاب ’’کینسر وارڈ‘‘ لکھی تھی، جس نے مشرقی یورپ سے کمیونزم کے جبر کو کم کرنے میں مہمیز کا کام دیا تھا۔ افسوس کہ آج کا عالم اسلام خود کینسر زدہ ہے، وہ مسلمانوں کے جذبۂ حریت کو کیا جِلا بخش سکتا ہے! سکوتِ شب کی سی کیفیت ہے۔ امتِ واحدہ، ایک جسم کی مانند ہونے کی باتیں اب صرف جمعہ کے خطبوں میں پائی جاتی ہیں۔ مظلوم مسلم خواتین کی چیخ و پکار پر مسلم حکمران بے چین ہوجایا کرتے تھے، وہ سب ماضیِ بعید کے قصے اور داستانیں ہیں۔ آج لاکھوں ترکستانی خواتین جبری کیمپوں اور اذیت گھروں میں چینی ظلم و ستم کا نشانہ بن رہی ہیں لیکن سوائے اردوان اور ترکوں کے سب مجرمانہ خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کے ساتھ مسلم عوام بھی بے حس و حرکت ہیں اور مجرمانہ خاموشی کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت اور تشویش اسلامی تحریکوں اور دینی جماعتوں کے رویوں پر ہے۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ مسلم حکمرانوں کو کمرشل ازم کھا گیا، لیکن ہماری دینی قیادت اور لاکھوں کی تعداد میں کارکنان کو کیا ہوگیا ہے! ہم چیچنیا، برما، افغانستان، شام، یمن، عراق اور بھارت سمیت جہاں بھی مسلمان آزمائش کا شکار ہوں اس کا ردعمل اور مزاحمت ہمارے دین کا تقاضا بن جاتا ہے، اور یہ نص صریح اویغور مسلمانوں کے بارے میں کیسے ساقط ہوجاتی ہے! نہ کوئی احتجاج اور نہ کوئی آواز۔ تعذیب اور آزمائشوں سے گزرنے والے ترکستانیوں کے لیے کوئی تسلی، کوئی امید کی کرن، کوئی احتجاج۔
عالم اسلام کے مسلمانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ترکستانیوں کو وقتی طور پر دبایا جا سکتا ہے، مصلحت کا شکار مسلمانوں کی آواز دب سکتی ہے، لیکن حریت اور جہاد کی مٹی سے گندھی ہوئی یہ قوم اپنی جنگ خود لڑے گی۔ منگول، خوارزم شاہی سلجوقی، تیمور خان، نادر شاہ روسی کمیونزم کی خون آشام شام اور اب چینی سفاکی… ترکستانی پہلے بھی اپنی آزادی کی حفاظت کرتے رہے ہیں، اب بھی جلد یا بدیر وہ آزادی سے بہرہ مند ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس جدوجہد میں بحیثیت مسلمان اپنے لیے کیا کردار پسند کرتے ہیں۔ دیوارِ چین سے تبت، اور منگولیا سے کوہِ یورال تک یہ سب پہاڑ، دریا، میدان آزمائے ہوئے ہیں، اہلِ ایمان کہیں نہ کہیں سے ابھریں گے۔
پامیر، ہندوکش اور قفقاز کے پہاڑوں کا جب غسلِ آفتابی ہوتا ہے تو بوڑھی گنگا کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ سندھو کے کنارے شاداب ہوتے ہیں۔ دریائے آمو کی شادابی اور سبزہ زاری ان سربفلک پہاڑوں کی رہینِ منت ہے۔ دریائے زرفشاں سے سیراب ہونے والے زیبِ داستان کے لیے کہا کرتے ہیں کہ اس دریا کے دونوں کناروں کی لالہ زار زمین میں مُردہ انسان بھی گاڑ دیا جائے تو اس کے زندہ ہونے کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ ترکستانی تکیمکان کے وسیع صحرا میں اٹھنے والے ریت کے بگولوں سے بم گولے بنانے کا بھی ہنر جانتے ہیں۔ نورِ سحر ان کا مقدر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عالم اسلام کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی کا کوئی جواز، کوئی توضیح ہے؟