امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور سینیٹر مشتاق احمد خان کا خطاب
خیبر پختون خوا میں سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ صوبے کے سیاسی درجہ حرارت میں ہونے والا یہ اضافہ نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سامنے آرہا ہے بلکہ اس دوڑ میں حکمران جماعت نے بھی پیچھے رہنا گوارا نہیں کیا۔ خیبر پختون خوا میں شروع ہونے والی اس سیاسی ہلچل کا آغاز جماعت اسلامی کے پچھلے دنوں باجوڑ میں ایک بڑے جلسۂ عام کے انعقاد سے ہوا ہے، جس کے بعد پی ٹی آئی نے سوات (مینگورہ) کے مشہور گراسی گرائونڈ میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔حکمران پی ٹی آئی کے بعد 13 نومبر کو مسلم لیگ (ن) بھی سوات میں اسی میدان میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے جارہی ہے۔ اور یہی وہ میدان ہے جہاں 22 نومبر کو جماعت اسلامی نے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دریں اثناء امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کالج گرائونڈ بونیر میں ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا ہی تحفہ ہے، سابق حکمران جماعتوں اور پرویزمشرف کے بھگوڑوں کو جمع کرکے پی ٹی آئی بنائی گئی اور پھر ان کو عوام پر مسلط کردیا گیا۔ عمران خان کہتے تھے جس دن میرے خلاف چند ہزار لوگ نکل آئے میں استعفیٰ دے کر گھر چلا جائوں گا، اب ان کی غیرت کا امتحان ہے، پورے ملک کے عوام اُن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، پہاڑوں میں جمع ہونے والے لاکھوں لوگ جب اسلام آباد کا رخ کریں گے تو بڑے بڑے محل بھی حکمرانوں کو پناہ نہیں دے سکیں گے، وزیراعظم بڑے فخر سے ٹرمپ کو اپنا دوست کہتے تھے، ٹرمپ چلاگیا اب انہیں بھی جانا ہوگا، بے حس حکمران عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین کر کہتے ہیں ملک ترقی کررہا ہے، ہر وعدے پر یوٹرن لینے والے وزیراعظم کے کسی وعدے پر اب عوام کو اعتماد نہیں رہا، سابق اور موجودہ حکمران پارٹیوں کو ایک دوسرے کا مخالف سمجھنے والے خودفریبی سے نکلیں، حکومت اور اپوزیشن ایک ہی نظریے اور کلچر کے لوگ ہیں، ان کی پالیسیوں میں کوئی اختلاف نہیں، اختلاف صرف مفادات پر ہے، دونوں اپنے اپنے مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں، عوام کی پریشانیوں اور مسائل سے ان کو کوئی سروکار نہیں، اصل اپوزیشن جماعت اسلامی ہے، ہم عوام کو ظلم و جبر کے اس استحصالی نظام سے نجات دلانے کے لیے میدان میں نکلے ہیں، عوام کی پریشانیوں اور مصیبتوں کو دور کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نئی حکومت نہیں بلکہ سابق حکومتوں کا تسلسل ہے، حکومت کو چلانے والے لوگ پہلے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور جنرل (ر) پرویزمشرف کے ساتھ تھے، اور اب پی ٹی آئی میں جمع ہوگئے ہیں، 73 سال سے ملک پر مسلط یہی جاگیردار اور سرمایہ دار عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں، اس حکومت نے عوام کی گردن مروڑنے اور خون نچوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پی ٹی آئی نے نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار سے محروم کیا، پاکستان کے اسلامی تشخص کو مذاق بنایا، ہماری تہذیب اور نظریے کا مذاق اڑایا اور ہمارا حال اور مستقبل تباہ کیا، کشمیر کو بھارت کے لیے تر نوالا بنایا، ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے اور 50 لاکھ بے گھر افراد کو مکانات دینے کا اعلان کرنے والوں نے کوئی ایک مکان بنایا نہ کسی ایک بے روزگار کو روزگار دیا‘ حکمرانوں نے اپنے دو، ڈھائی سال میں 40 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگار، اور ہزاروں کو چھت سے محروم کیا، موجودہ حکومت کے مختصر دور میں آٹا، چینی اور گھی کی قیمتیں 3 گنا تک بڑھ گئیں، اشیائے خور ونوش عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں، مزدور اور کسان فاقہ کشی پر مجبور ہیں اور وزیراعظم دعوے کررہے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ عمران خان کہتے تھے کہ دنیا کو میری اور ٹرمپ جیسی قیادت کی ضرورت ہے، ٹرمپ ہار گیا اب عمران کی باری ہے، جھوٹ بولنے کا عالمی ورلڈ کپ ہوا تو ہمارے وزیراعظم جیت جائیں گے، پی ٹی آئی کو ووٹ اور سپورٹ دینے والے شرمندہ ہیں اور عوام کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں، وزرا ایک دوسرے کو نااہلی اور نالائقی کے طعنے دیتے اور نکموں کے القابات سے نوازتے ہیں، تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں سے جب تبدیلی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں افسر کو 4 بار اور فلاں کو5 بار تبدیل کیا، اور تبدیلی کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ حقیقی تبدیلی صرف جماعت اسلامی لاسکتی ہے، ہمیں نیب سے کوئی مسئلہ ہے نہ کسی عدالت میں ہمارے خلاف کوئی مقدمہ ہے۔ ہمارا مسئلہ ملک کے پسے ہوئے عوام، مزدور اور کسان ہیں۔ ہمارا مسئلہ ملک کے وہ کروڑوں بچے ہیں جو تعلیم سے محروم ہیں، وہ کروڑوں نوجوان ہیں جنہیں نوکریاں نہیں مل رہیں، وہ کروڑوں مظلوم ہیں جو انصاف کے لیے عدالتوں اور کچہریوں میں دھکے کھا رہے ہیں، اور وہ ہزاروں بیمار ہیں جنہیں علاج کی سہولت نہیں مل رہی۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ملک میں نظام مصطفیٰؐکے نفاذ کے لیے کراچی سے چترال تک قوم کو متحد کرے گی۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمدخان نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے قرضے لینے کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں، جتنے قرضے سابق حکومتیں اپنے 5 سالہ دور میں لیتی تھیں، موجودہ حکومت نے 2 سال میں لے لیے ہیں، عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی تمام آمدن قرضوں کا سود اتارنے میں جا رہی ہے، یہ حکومت رہی تو ملک کو دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ جماعت اسلامی عوام کی جنگ لڑ رہی ہے، ملک و قوم کو ان ظالم حکمرانوں سے نجات دلانے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی جو پہلی دفعہ پوری یکسوئی کے ساتھ سیاسی میدان میں تنہا پرواز پر نکل کھڑی ہوئی ہے، باجوڑ کے بعد بونیر میں ایک بڑا سیاسی اجتماع منعقد کرکے اگر ایک طرف صوبے کی سیاسی ہلچل میں تیزی لانے کی باعث بنی ہے، تو دوسری طرف وہ انتہائی منظم انداز میں ملاکنڈ ڈویژن میں 2018ء کے عام انتخابات میں کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کی بحالی اور اپنے چرائے گئے ووٹوں کی بازیابی کے لیے صوبے کے اس سب سے بڑے ڈویژن کے عوام کو اپنے حق میں متحرک کرنے میں کافی حد تک کامیاب نظر آتی ہے۔ 8 نومبر کو بونیر میں سیاسی طاقت کے مظاہرے کے بعد وہ 15 نومبرکو دیر، 22 نومبر کو سوات اور 29 نومبر کو تیمرگرہ میں بڑے عوامی جلسے منعقد کرنے کا شیڈول دے چکی ہے۔ بونیر میں منعقد ہونے والے جلسہ عام کے بارے میں غیر جانب دار مبصرین کا کہنا ہے کہ جماعت کا تن تنہا اپنے زورِ بازو پر اتنی بڑی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جماعت اسلامی آج بھی ملاکنڈ ڈویژن کی سب سے بڑی سیاسی طاقت ہے جو ایک متحرک تنظیمی نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ ایک بڑا ووٹ بینک بھی رکھتی ہے۔